کیکر ماحول دوست درخت،سایہ اور ٹھنڈک کا باعث

موسمی شدت میں کمی لانے اور ماحول دوست اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں ،اس کیلئے فوری قدم نہ اُٹھائے گئے تو آنے والے دنوں میں مسائل میں مزید اضافہ ہوگا ۔
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
کبھی کراچی سمیت ملک کے گرم علاقوں کی فضا میں نمی تھی، ہواؤں میں خنکی تھی اور جون جولائی کے دنوں میں بادل آنکھ مچولی کھیلتے تھے۔ بڑے بوڑھوں کے بقول بارشیں کم سہی، مگر بوندا باندی معمول کی بات تھی۔ حدت تھی مگر تپش نہیں، دھوپ تھی مگر جھلسا دینے والی نہیں۔ کراچی ایک معتدل موسم والا شہر تھا، نہ سردیوں میں کانپتا، نہ گرمیوں میں جلتا۔
آج پورے ملک کے اکثریتی شہر بشمول کراچی ایک تندخو موسم کا شکار شہر ہیں ، جہاں سورج قہر بن کر برستا ہے اور ہوائیں بھی گرم لو میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا صرف آبادی کا دباؤ یا سیمنٹ، کنکریٹ اور اسٹیل کا پھیلاؤ اس تبدیلی کا باعث بنا؟ یا ہم نے اپنے ہاتھوں سے قدرت کے ان تحفوں کو ختم کیا جنہوں نے صدیوں تک ہماری موسمی شدت کو روکے رکھا؟
ان سوالات کے جواب ہمیں "کیکر" جیسے عام مگر عظیم درخت کی کہانی میں ملتے ہیں۔.
1950ء کی دہائی میں کراچی کے گردونواح میں کیکر کے بیجوں کا فضائی اسپرے کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ماحولیاتی توازن کے لیے عملی کوششیں ہو رہی تھیں۔ یہ بیج زمین پر گرے، جڑیں پکڑیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں ہر طرف کیکر کے درخت اُگ آئے۔ یہ درخت نہ صرف سخت جان تھے بلکہ بغیر پانی کے بھی زندہ رہ سکتے تھے۔ ان کی موجودگی نہ صرف درجہ حرارت میں کمی لاتی تھی بلکہ فضا کو نمی بھی فراہم کرتی تھی۔
کیکر کا درخت موسمی محافظ تھا۔ اس کے سائے میں گرمی اپنا زور کھو بیٹھتی تھی۔ لیکن پھر زمانہ بدلا، شہروں نے پھیلاؤ شروع کیا، ایندھن کی قلت ہوئی، تجاوزات بڑھیں، اور ترقی کے نام پر جو کچھ بچا تھا وہ بھی کاٹ دیا گیا۔ کیکر کے درخت دھیرے دھیرے ختم ہوتے گئے، اور ساتھ ہی معتدل ہوائیں بھی۔
کراچی کے دونوں اہم ندی نالے، لیاری اور ملیر، اب پانی کے بجائے کوڑے کرکٹ اور سیوریج کا گڑھ بن چکے ہیں۔ لیکن یہی راستے اگر دوبارہ کیکر کے درختوں سے سجا دیے جائیں، تو نہ صرف درجہ حرارت کم کیا جا سکتا ہے بلکہ شہر کو سبز اور خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔ یہ درخت نہ پانی مانگتے ہیں نہ نگہداشت، بس تھوڑی سی توجہ اور نیت کی ضرورت ہے۔
آج اگر دوبارہ فضائی اسپرے کے ذریعے کیکر کے بیج بکھیرے جائیں، تو اگلے چند برسوں میں ہم کراچی کو دوبارہ سانس لینے کے قابل شہر بنا سکتے ہیں۔
کیکر صرف کراچی تک محدود نہیں۔ پنجاب کی سرزمین میں تو اس کا وجود صدیوں پرانا ہے۔ دیہات کی ہر گلی، ہر کھلیان، ہر چراگاہ میں کیکر موجود ہوتا تھا۔ ہر حویلی میں جانوروں کے چارہ ڈالنے والی "کھرلی" کے ساتھ ایک سایہ دار کیکر کھڑا ہوتا۔ سڑکیں ہوں یا پگڈنڈیاں، کیکر کا وجود لازم سمجھا جاتا۔ یہ درخت صرف سائے کا ذریعہ نہیں تھا، یہ ایک طرزِ زندگی، ایک طرزِ تہذیب کی علامت تھا۔
آج جب پنجاب میں گرمیوں کی لہر ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے، لوگ کیکر کو یاد کرتے ہیں۔ وہ سیانے جو جدید تعلیم سے ناآشنا تھے، مگر قدرت کے اصولوں کو جانتے تھے، وہ کیکر لگا کر گرمی ختم کرنا جانتے تھے۔ آج ہم سائنس کے ماہر بن گئے، مگر درخت نہیں لگا پا رہے۔
یہ وقت صرف افسوس کرنے کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔ ہمیں ایک اجتماعی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ بلدیہ، صوبائی حکومت، تعلیمی ادارے، سول سوسائٹی، سب کو مل کر ایک ہدف طے کرنا ہوگا کہ کراچی اور ملک کے دیگر گرم علاقوں کو دوبارہ سرسبز اور معتدل بنانا ہے۔ اور اس کا آغاز کیکر سے بہتر اور کچھ نہیں۔
کیونکہ کیکر صرف درخت نہیں، یہ سایہ ہے، ٹھنڈک ہے، نمی ہے، زندگی ہے۔

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 123 Articles with 79583 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.