دہلی فساد : وہ مٹاتے ہی رہے حرف مکرر کی طرح ،میں ابھرتا ہی رہا آخر ابھرنا تھا مجھے

گاندھی جی کے زمانے میں صحافیوں کی غالباً تین اقسام ہوا کرتی تھیں جن کو انہوں نے اپنے بندروں سے تعبیر کیا تھالیکن مودی یگ کے اندر ایک کا اضافہ ہوگیاہے۔ ان کو گوگل صحافی کہہ سکتے ہیں ۔ پردھان سیوک کا سوشیل میڈیا سے کنارہ کشی کا ارادہ ان لوگوں پر بجلی بن کر گرا ۔ اس لیے کہ یہ تو انہیں کو دیکھتے ہیں ، ان کی سنتے ہیں اور وہی بولی بولتے ہیں مثلاً دیش کے غداروں کو ۰۰۰۰ وغیرہ وغیرہ ۔ اس سے پہلے کہ ان میں کچھ صدمہ کا شکار ہوکر آتم دہن ( خودسوزی) کرلیتے وزیر اعظم نے پینترا بدل کر اپنے سوشیل میڈیا کے کھاتے یومِ خواتین کے پیش نظر صنفِ نازک کے لیے وقف کرنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کو پڑھ کر کوئی اور خاتون نہ سہی تو کم ازکم جسودھا بین ضرور خوش ہوئی ہوں گی۔

جسودھا بین نے سوچا ہوگا کہاب تو شوہر نامدار کی نظر ِ کرم ان پر ہوجائے گی ۔ بہت جلد وہ ہولی کے موقع پر جب اپنےگاوں میں والدہ سے ملنے کے لیے ٹیلی ویژن والوں کے ساتھ آئیں گے تو ان پر گلال اڑا کر چلے جائیں گے ۔ اس بہانے کیمرے کی نظر التفات ان پر بھی پڑ جائے گی اور ساری دنیا ان کے دور درشن کرلے گی لیکن افسوس کے ایسا نہیں ہوا۔ کورونا وائرس کے خوف سے چھپن ّ انچ کا سینہ تنگ ہوگیا۔ پردھان سیوک نے اس سال ہولی منانے کا ارادہ ترک کردیا ۔ ویسےبیباک صحافی خالد داروگر کے مطابق دہلی میں خاک و خون کی ہولی کے بعد بھلا عبیر و گلال کی ہولی میں کیا مزہ؟ فساد کے بعد اپنی جماعت کے ارکان پارلیمان کو مخاطب کرکے جب وزیر اعظم مودی نے امن، ترقی و روادی کا پروچن دیا تو بے ساختہ یہ شعر یاد آگیا؎
بھاشن فساد کے کبھی تقریر امن کی
جادوگروں کو یاد ہے منتر الگ الگ

عِصرِ حاضر میں صحافیوں پہلی قسم اندھے بھکتوں پر مشتمل ہے ۔ ان کی آنکھوں پر پٹی ّ اور جیب میں لکشمی نواس کرتی ہے۔دیکھنے کا کام وہ خود نہیں بلکہ ان کا کیمرا کرتا ہے۔ وہ کیمرے کی فلم چلا کر اپنے آقا سے سماعت کردہ احکامات زبانِ تر سے من و عن ادا کردیتے ہیں ۔ حقیقت بیانی کی انہیں چنداں فکر نہیں ہوتی ۔ ان کا آقا کمل چھاپ بھی ہوسکتا ہے اور پنجے والا بھی۔ اس کے ہاتھ میں جھاڑو یا پتنگ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری قسم ان کی ہے جو کیمرا سمیت عوام میں جاتے ہیں ۔ ان لوگوں نے جو کچھ بھی جھوٹ یا سچ بیان کردیا اس کو سن لیتے ہیں ۔ ان کو کسی بیان کےتفتیش و تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ زباں بندی کے سبب بغیر کچھ پوچھے جو سنا اور دیکھا پیش کردیا جاتا ہے۔
تیسری طرح کے وہ بیدار مغز اور فرض شناس صحافی ہوتے ہیں جو سنی سنائی باتوں پر آنکھ موند کر یقین نہیں کرتے ۔ وہ دیکھتے بھی ہیں اور پوچھنے کا بھی کام کرتے ہیں ۔ اس کے بعد دماغ کا استعمال کرکے اپنے مشاہدات پر غور و خوض کرتے ہیں ۔ افہام تفہیم کے بعد ٹھونک بجا کر اپنی مدعا پیش کرتے ہیں ۔ چوتھے اور آخری زمرے کے صحافی نہ تو دیکھتے ہیں اور نہ ہی بولتے یا سنتے ہیں ۔ ان کا کام انٹر نیٹ سے مواد چرا کر دھماکے دار انداز میں پیش کردینا ہوتاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کل سوشیل میڈیا پر یہ یہی سنسنی پھیلانے والی فوج چھائی ہوئی ہے۔

دہلی کے فسادات پر سارے لوگ اپنے اپنے زاویہ سے نظر ڈالتے ہیں ۔ پہلے والے اندھےصحافی کو جلے ہوئے گھر نظر آتے ہیں ۔ اس کے کیمرے میں لٹی ہوئی دوکانوں کی فلم ہوتی ہے۔ اس کو بیوہ خواتین نظر آتی ہیں یتیم بچے دکھائی دیتے ہیں ۔ اسکا آقا انہیں جانی نقصان کے اعدادو شمار بتا دیتاہے اور وہ مالی خسارے کی قیاس آرائی کردیتے ہیں ۔ یہ لوگ دہلی کے حالیہ فسادات کی نہایت بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد اکاون ہوچکی ہے نیز اب بھی نالوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ مریضوں کی ایک کثیر تعداد ہنوز مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہے۔ تباہ شدہ مکان و دوکان کا شمار دشوار ہے۔ یہ سب دیکھ کر آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں ۔

اس قسم کے لوگوں کو کبھی کبھار پتھروں کے ڈھیر پر تشویش ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ گھر اور دوکانیں جلانے والے بلوائیوں کو سڑک پر رکاوٹ بناکر کیوں روکا ؟ارنب گوسوامی جیسے لوگ اس بات پر اعتراض و ماتم کرتے ہیں کہ ننگی تلواریں لے کر قتل کرنے کے لیے آنے والے فسادیوں پر نہتےشہریوں نے پتھر بازی کیوں کی؟ یہ چاہتے ہیں کہ باہر سے آکر فساد کرنے والوں کا استقبال پھولوں کی بارش کرکے کیا جائے؟ بلوائیوں سے ان کی ہمدردی پر لیلیٰ مجنوں کا وہ نغمہ صادق آتا ہے کہ ’کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو‘ جبکہ ان کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ خود آئے دن اپنے اسٹوڈیو میں آنے والے مہمانوں کو سخت سست کہہ کرسنگسار کرتے رہتے ہیں ۔

ایسی صورتحال میں جب کوئی صحافی آگے بڑھ کر فساد زدگان سے سنتا ہے کہ کس طرح ایک تربیت یافتہ منظم دہشت گردوں کے جم غفیر نے حملہ کیااور پولس نے نہ صرف اس کو تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کے شانہ بشانہ فساد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو ناظرین چونک پڑتے ہیں ۔ اس تناظر میں اچانک ان کو یہ نقصان کم لگنے لگتا ہے۔ ایسے بھیانک فساد کے اس قدرکم عرصے میں رک جانے پر بھی سبھی کو تعجب ہوتا ہے لیکن چونکہ اس طرح کے صحافی کی زبان اور دماغ پر قفل لگا ہوا ہوتا ہے اس لیے وہ کسی سے کچھ پوچھنے کی یا سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ کیمرے کی آنکھ نے جو قید کیا ہو وہی پیش کردیتا ہے۔ ایسے بے ضرر لوگوں کے لیے بھی خطرہ توہوتا ہے کہ ؎
میں جھوٹ کی بستی میں بھی سچ بول رہا ہوں
اب میرے لیے اس کی سزا دیکھیے کیا ہو؟

تیسری قسم کا صحافی جب فسادات کے اتنے جلدی رک جانے کی وجوہات تلاش کرنے کی خاطر لوگوں سے طرح طرح کے سوال کرتا ہے تو اس کے سامنے حیرت کی ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے۔ اس کو پتہ چلتا ہے جس وقت پولس کی آڑ میں یہ بزدلانہ حملہ ہوا تو ملت کے جانباز نوجوان گھروں میں دبک کر بیٹھنے کے بجائے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آگئے۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے یہ کہہ کر اجازت لی کہ یہ ہمارا آخری سلام ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہم لوٹ کر نہیں آئیں ۔ ان کی دلیر ماوں نے انہیں دعا دی بیٹو جاو اور مقابلہ کرو ۔ تمہاری مزاحمت واپس آنے سے زیادہ اہم ہے۔ جس امت کے اندر ایسے بہادر نوجوان اور بلند حوصلہ خواتین ہوں وہ بھلا کب زیر ہوسکتی ہے۔ ان پر تو عاصم عثمانی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
وہ مٹاتے ہی رہے حرف مکرر کی طرح
میں ابھرتا ہی رہا آخر ابھرنا تھا مجھے
(۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449416 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.