موجودہ حکمران اور جعلی پیر فقیر

زمانہ طالب علمی میں کمرہ جماعت میں طالب علموں کے ساتھ موجود تھے کہ اچانک اردو پڑھانے والے استاد صاحب آوارد ہوئے۔استاد صاحب کمرہ جما عت میں موجود کرسی پر براجمان ہو کر فرمانے لگے کہ تم لو گوں کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟کیا کرو گے پڑھ لکھ کر؟چھوڑو پڑھا ئی کو۔۔۔پیر ،فقیر بن جا ﺅ دنوں میں امیر بن جا ﺅ گے۔ہم آنکھیں پھاڑے استاد صاحب کا چہرہ مبارک دیکھ رہے تھے جو ہمیں دنوں میں امیر بننے کے گر سکھا رہے تھے۔کچھ توقف کے بعد استاد صاحب پھر گویا ہوئے آپ سبھی پیر بن جا ﺅ بس ایک بورڈ بنا لو جس پر لکھا ہو کہ اولاد سے محروم جوڑے رابطہ کریں۔

ایک منچلہ طالب علم گویا ہو کہ سر جی! اگر ہمارے پاس سے ہو کر جانے کے با وجود بھی جوڑے کے گھر اولاد نہ ہو ئی تو۔۔۔؟؟ استاد صاحب نے فرمایا کہ تم نے کونسا ساری عمر یہیں بیٹھے رہنا ہے ایک مہینہ یہاں گزارا اور دوسرا مہینہ کسی دوسری جگہ،اور پھر دیکھنا کہ تم کیسے دنوں میں امیر بن جا ﺅ گے۔استاد صاحب نے ہمیں اس وقت جعلی پیروں فقیروں کے بارے میں بتایا تھا جب ہم یہ بھی نہ جانتے تھے کہ پیر،فقیر کا اصل کام کیا ہو تا ہے۔

اب جب مو جودہ حکومت پر نظر ڈورائی جا ئے تو استاد صاحب کے وہ سارے گر نظروں کے سامنے ہچکولے کھانے لگتے ہیں ۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں سبھی پیر و فقیر ہیں مگر درجہ بدرجہ مختلف عہدوں پر براجمان ہیں۔ جن میں سے اکثر کا ایک دن ایک شہر میں بسر ہوتا ہے تو دوسرا دن دوسرے شہر میں،پہلے جن جن لوگوں سے عہد وپیماں کیے دوبارا وہاں کا رخ نہ کیا۔جن جن کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور علاج معالجے کی یقین دہانی کروائی وہ آج بھی اس مدد کے منتظر ہیں۔موجو دہ حکومت میں شاید ہی کو ئی ایسا وزیر و مشیر ہو جس کا مقصد عزت و دولت اکٹھی کرنا نہ ہو۔عوامی خدمت کے دعوے تو کرتے ہو ں مگر عملاً برائے نام کے وزیر ہوں۔غربت کے خاتمے کا بات تو کرتے ہو ں مگر مہنگائی کے طوفان میں تیزی لانے سے بھی نہ گھبراتے ہوں۔قوم کی فلاح وبہبود کی بات تو کرتے ہوں مگر اپنی اور اپنے اہل و اعیال کی فلاح وبہبود کے سوا کچھ نہ سو جھتا ہو ۔دورے کرنے کے شوقین ہیں اور دل ربا تقریروں سے عوام کے دل جیت لیتے ہیں مگر عوام کے گھروں کی چار دیواری میں تنگدستی لانے میں بھی کمال کا ہنر رکھتے ہیں ۔

یہی تو وہ سب جعلی پیر وفقیر ہیں جن کا تذکرہ آج سے چند برس بیشتر ہمارے ایک استاد نے کیا تھا جن کا ایک دن لاہور میں بسر ہو تا ہے تو دوسرا دن دوسرا دن کراچی میں، یہا ں تک کہ بیرون ملک میں بھی کئے کئے روز گزارا کر لیتے ہیں اور دوسری طرف ہماری امیر زادی عوام ہے کہ اتنا ٹھاٹھ بھاٹھ ہونے کے با وجود بھی اپنے ایک چھوٹے سے گھر میں مہینہ بھر چین سے نہیں گزار سکتے۔

اگر تو عزم نیک ہے اور اپنے بال بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں مہینہ بھر چین سے گزارنے کا ارادہ مضبوط ہے تو آپ کو ان جعلی پیروں فقیروں کی مرشدی سے باز رہنا ہو گا۔جس دن آپ نے ان جعلی پیروں فقیروں کے چنگل سے چھٹکا را حاصل کر لیا تو سمجھ لیں کہ اس دن سے آپ کا شمار خوشحال قوموں کی فہرست میں ہونے لگے گا۔اور اگر عمر بھر انہی جعلی پیروں فقیروں کے سائے تلے پناہ تلاش کرتے رہے تو ساری عمر تلاش کرنے میں بیت جا ئے گی اور خوشحالی پھر بھی ہاتھ نہ آئے گی۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔۔۔۔!
Muhammad Qamar Iqbal Kamal
About the Author: Muhammad Qamar Iqbal Kamal Read More Articles by Muhammad Qamar Iqbal Kamal: 13 Articles with 14106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.