کورونا کے خوردبینی مگر خونی عفریت نے تقریباً پوری دنیا
کو دہشت میں مبتلا کیا ہوا ہے حالانکہ دنیا میں اس سے ہونے والی اموات کی
شرح محض دو یا تین فیصد ہی ہے.
وجہ یہ ہے کہ جب تک اس مرض کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اس وقت تک بارہ پندرہ
دن گزر چکے ہوتے ہیں اور ان دنوں میں مریض اس کو عام نزلہ، کھانسی اور بخار
ہی سمجھتا رہتا ہے.
تشخیص کے بعد اس کا علاج ممکن تو ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ ایک تو تشخیص
بروقت ہو جائے اور دوسرے مریض کی قوت مدافعت کچھ بہتر ہو.
روایتی طریقہ علاج اور کچھ مخصوص مدت گزرنے کے بعد یہ موذی مرض ٹھیک ہو
جاتا ہے جس کا ثبوت دنیا بھر میں اب تک بے شمار شفا یاب ہونے والے افراد
ہیں.
دنیا میں اب تک اس مرض سے ہونے والی اموات کی وجہ بظاہر یہ ہی ہے کہ بروقت
تشخیص نہ ہو سکی اور مریض کی قوت مدافعت بہتر نہ تھی.
اس کی بڑھتی دہشت کی وجہ اس کا تیزی سے پھیلنا ہے، اس پر مستزاد یہ کہ ابھی
تک ایسی کوئی ویکسین تیار نہیں کی جا سکی کہ ایڈوانس ویکسینیشن کے ذریعے
انفیکشن کو ہونے سے پہلے ہی روکا جا سکے.
صرف احتیاط ہی ایک واحد طریقہ ہے جس سے اس مرض کو خود سے دور رکھا جا سکتا
ہے.
سب سے پہلے تو صفائی ستھرائی، دوسرے منہ پر ماسک لگانا، تیسرے ہاتھ ملانے
اور گلے ملنے سے اجتناب کرنا، چوتھے ہجوم سے پرہیز کرنا، پانچواں وٹامن سی
والی غذائیں استعمال کرنا اور چھٹے شبہے کی صورت میں اس کو چھپانے کی بجائے
فوری چیک اپ اور ٹیسٹ کروانا وغیرہ وغیرہ.
اگر خدانخواستہ کسی پر اس سے متاثر ہونے کا شبہ ہو جاتا ہے تو اسے فوری طور
پر سب سے علیحدہ کردیا جاتا ہے اور ٹیسٹ کئیے جاتے ہیں، رپورٹ منفی آنے پر
احتیاطی طور پر مزید ایک دو روز الگ رکھ کر فارغ کر دیا جاتا ہے اور مثبت
آنے پر آئسولیشن وارڈ منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ صحت یاب ہونے اور رپورٹ
منفی آنے تک زیرِ علاج رہتا ہے.
تقریباً پوری دنیا میں ہی اس سے نمٹنے کیلئے انہی احتیاطی تدابیر اور طریقہ
کار کو اختیار کیا جاتا ہے لیکن جیسے ہی یہ موذی مرض پاکستان پہنچا ہے ہم
(پاکستانی مسلمان) اس سے صرف اور صرف اپنے انداز میں نمٹنے پر مصر ہیں.
صفائی ستھرائی کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ یہ نصف ایمان ہے لیکن اس کے علاوہ
باقی احتیاطی تدابیر ہماری سمجھ سے باہر ہیں.
ہمارا ایمان ہے موت اپنے مقررہ وقت پر آکر رہے گی اور جو ہونا ہے وہ ہو کر
رہے گا تو ماسک کیوں لگائیں؟ (بھلے ہی ہم کیریئر بن کر اس موذی مرض کو
پھیلانے کی سبب بن جائیں)،
ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے اجتناب کیوں کریں؟ (جب کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ
یہودیوں کی سازش ہے مسلمان ایسا نہ کریں)،
ہجوم سے پرہیز کیوں کریں؟ (شادیوں کا سیزن ہے اور وہ آگے پیچھے تو ہو نہیں
سکتیں، یہ اور بات کہ اسلامی دنیا کے ہیڈ کوارٹر سعودی عرب نے مکہ مکرمہ
اور مدینہ منورہ کے علاوہ مساجد میں نمازوں کی ادائیگی تک پر پابندی عائد
کر دی ہے)،
اور وٹامن سی کہاں سے استعمال کریں جب کہ اس کی دوائیں نایاب ہیں؟ (بھلے ہی
بے شمار پھل اور سبزیاں اس سے بھرپور اور عام دستیاب ہیں)،
اور اسی طرح شبہے کی صورت میں بھی کسی سے تذکرہ کیوں کریں؟ دیکھی جائے گی
(چاہے اس مجرمانہ غفلت سے دوسروں کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے اور پیارے ہی
کیوں نہ اس میں مبتلا ہو جائیں).
مختصر یہ کہ مذکورہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں ہمیں نہ صرف تحفظات ہیں
بلکہ کچھ نام نہاد مسائل کا بھی سامنا ہے.
حالانکہ یہ بات شاید ہر مسلمان جانتا ہو گا کہ ہماری موت بے شک برحق ہے اور
اپنے وقت پر آ کر رہے گی لیکن اس کی وجہ کم از کم ہماری اپنی کوشش یا
مجرمانہ غفلت ہرگز نہیں ہونی چاہیئے ورنہ وہ صریحاً خود کشی ہو گی اور اسی
طرح کسی کی موت بھی ہماری کوشش یا مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں ہرگز نہ ہو
ورنہ وہ قتل عمد کے زمرے میں آئے گی.
لیکن پھر بھی پتہ نہیں اس بات کے سمجھ میں آنے اور ایمان کا حصہ بننے میں
ابھی کتنا عرصہ لگے؟
واللہ عالم بالصواب.
|