چور کی داڑھی میں ۔۔۔۔
(رعنا تبسم پاشا, Dallas, USA)
ابھی چند روز پہلے بے اختیار ایک واقعہ یاد آ گیا تھا اسے سپرد ٹحریر کرنے کی توفیق آج ہو رہی ہے ۔ یو ٹیوب پر کبھی ایک وڈیو کلپ نظر سے گزرا تھا جس میں بر صغیر پاک و ہند کے مایہ ناز شاعر جناب راحت اندوری صاحب مرحوم اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کی روداد سنا رہے تھے ۔ جس کے مطابق انہوں نے کسی مشاعرے میں شعر پڑھا ۔۔۔۔۔۔ سرکار چور ہے ۔۔۔۔ صبح میں انہیں پولیس پکڑ کر تھانے لے گئی انہوں نے اپنا جرم پوچھا ۔ تھانیدار نے کہا کہ آپ نے رات کو مشاعرے میں کہا کہ سرکار چور ہے ۔ راحت اندوری صاحب نے کہا ، ہاں میں نے کہا ہے مگر میں نے تو کسی کا نام نہیں لیا ۔ میں نے یہ تو نہیں کہا کہ پاکستان کی سرکار چور ہے یا برطانیہ کی سرکار چور ہے یا بنگلہ دیش کی سرکار چور ہے ۔ تھانیدار نے کہا آپ ہمیں بیوقوف سمجھتے ہیں؟ کیا ہمیں معلوم نہیں ہے کہ کہاں کی سرکار چور ہے؟ بس اپنے دیس میں بھی یہی حال چل رہا ہے آپ نام لیے بغیر کچھ بھی کہہ دیں پیغام اس کے اصل مستحق تک پہنچ جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا ایسی استعاراتی پیغام رسانی کا سب سے مؤثر و معتبر پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں اپنی بھڑاس نکالنے کے لا محدود مواقع میسر ہوتے ہیں ۔ وہاٹس اپ کے فیملی گروپس میں گھمسان کا رن پڑا رہتا ہے خوب تاک تاک کے نشانے لگائے جاتے ہیں اور مرچی اسی کو لگتی ہے جس کی اصل میں بات ہوتی ہے اور اس کا سہرا بندھتا ہے سوشل میڈیا کے ان گمنام مجاہدین کے سر جو ہر طرح کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہوئی فوٹو پوسٹیں بناتے ہیں ۔ ایک لفظ بھی لکھنا نہیں پڑتا اور اپنے دل کی بات پوری تاثیر اور سرعت کے ساتھ مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہے ۔ جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے جہاں زمان و مکان کے فاصلے مٹا دیئے ہیں وہیں قریب ترین اور ساتھ موجود رشتوں کے درمیان فاصلے حائل کر دیئے ہیں ۔ اب ان کے پاس ایکدوسرے سے بات کرنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی نہ دلچسپی عموماً ۔ ہر کوئی اپنے ہاتھ میں موجود موبائل میں منہمک ہوتا ہے زیادہ تر ۔ کسی زمانے میں بچے باہر گلی میں کھیلتے رہتے تھے گھر آنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے مائیں انہیں گھسیٹ کر اندر لاتی تھیں ۔ آج بچہ گھر سے باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوتا اس کی دلچسپی کی ہر چیز گھر کے اندر ہی اس کی دسترس میں ہوتی ہے ۔ ذرائع مواصلات کی بہتات اور نیٹ ورک تک تیز ترین با آسانی رسائی نے خاندان کی اکائی پر بھی ضرب لگائی ہے اور وڈیو کلچر نے تو اخلاق و اقدار کا جنازہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے ۔ کہیں تو وضع دار گھرانوں کی لڑکیاں ٹک ٹاک وغیرہ استعمال کرنے اور منع کرنے پر باز نہ آنے کی پاداش میں فنا کے گھاٹ اتاری جا رہی ہیں تو کہیں گاؤں دیہات کی ایسی ان پڑھ عورتیں جن کے پاس نہ تعلیم ہے نہ ہنر اور نہ ہی محنت کر کے حلال کی روزی کمانے کا جذبہ تو انہیں ایک شارٹ کٹ ہاتھ آ گیا ہے اپنے جسم کی نمائش کی کمائی کھانے کا ۔ ان گھرانوں کے مرد دیوث بن چکے ہیں وہ خود اپنی بیویوں حتیٰ کہ بہنوں تک کے جسم کی انتہائی نازیبا زاویوں سے فحش وڈیوز بنا کر پبلک کر دیتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔ کہیں غیرت آپے سے باہر ہوئی پڑی ہے اور کہیں اسی غیرت کا قحط پڑا ہوا ہے ۔ سماج اس وقت دو انتہاؤں کے بیچ ایک تاریخی زوال کے دور سے گزر رہا ہے ۔ سائنسی ترقی سے مالا مال یہی وہ دور ہے کہ جس میں کوئی ہنر مند یا صاحب علم زندگی بھر کی محنت کے بعد بھی وہ نام اور عوام الناس میں اپنی شناخت نہیں بنا پاتا جو کوئی بغیر کسی محنت یا ٹیلنٹ کے چند لمحوں میں بنا لیتا ہے اور یہ وڈیو کلچر ہی کا کمال ہے ۔ دل جلے اور کچلے پسے عوام کو روایت سے ہٹ کر کچھ الگ مگر اُنہی کے دل کی آواز کو اگر کوئی سرپھرا اپنی زبان دے دے تو وہ اسے سر آنکھوں پر بٹھانے اور اسے اپنا ہیرو بنا لینے میں بخل نہیں کرتے ۔ ایک عام آدمی جس کے پاس کھونے کے لئے کچھ ہوتا ہی نہیں تو اسے اپنے نفع نقصان کی بھی پروا نہیں ہوتی ۔ مگر ایک خاص آدمی کو اپنا بھرم قائم رکھنا پڑتا ہے اپنے دل اور ظرف کو بڑا کرنا پڑتا ہے ۔ راحت اندوری صاحب سے ہی متعلق اُنہی کی زبانی دوسرا قصہ یہ ہے کہ کسی مشاعرے میں ان کی باری کے دوران کوئی نوجوان مسلسل بدتمیزی اور ان پر جگت بازی کر رہا تھا ۔ انہوں نے اپنے کلام کو روک کر اس بد ذوق کو مخاطب کیا اور کہا کہ یہ میں آج جس جگہ پر کھڑا ہوا ہوں تو اس مقام تک پہنچنے کے لئے مجھے چالیس سال لگے ہیں مگر تمہارے مقام تک پہنچنے کے لئے مجھے دو منٹ بھی نہیں لگیں گے ۔ میں اپنا سفر ضائع نہیں کر سکتا بہتر ہے کہ تم اپنی اوقات میں رہو اور مجھے مجبور نہ کرو ۔ دبنگ راحت اندوری صاحب کی اس سرزنش کے بعد وہ نوجوان گُنگ ہو گیا اور پھر باقی سارا وقت چپ کر کے بیٹھا رہا ۔
✍🏻 رعنا تبسم پاشا |
|