آزادی

عنوان: آزادی
تحریر: بابرالیاس

گرمی کی شدت سے زمین تپ رہی تھی۔ سورج گویا آسمان پر دہکتا ہوا انگارا بن چکا تھا۔
بستی کے ہر در و دیوار پر سنّاٹا چھایا ہوا تھا، لیکن زینب کی جھونپڑی میں زندگی کی ایک جنگ جاری تھی۔

زینب کے کانوں میں باہر سے آتی آوازیں کسی جنگل میں رات شیر کی گرج کی طرح گونج رہی تھیں —
"چلو چلو، انگریز کے خلاف نعرہ لگاؤ!"
مگر اندر، جھونپڑی میں، زینب اپنے جوان بیٹے حارث کی پٹی بدل رہی تھی، جو کل جلوس میں گولی کھا کر زخمی ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر چہرے پر عجیب سا سکون بھی۔ حارث کے ہونٹ ہلے:
"امّی... ہم آزاد ہو جائیں گے نا؟"
زینب کی انگلیوں کا لمس لمحہ بھر کو رک گیا۔ وہ حارث کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی:
"ہاں بیٹا، ان شاء اللہ ہم ضرور آزاد ہوں گے۔"

باہر لوگ نعرے لگا رہے تھے:
"لے کے رہیں گے آزادی!"
"پاکستان زندہ باد!"

زینب کی آنکھوں کے سامنے برسوں پرانی یادوں کی دھند چھا گئی۔ جب اس کے شوہر کو جلیانوالہ باغ میں گولی لگی تھی۔
وہ وقت، جب وہ بیوہ ہوئی اور محض اٹھارہ سال کی عمر میں ساری دنیا اس کے خلاف لگتی تھی۔
لیکن وہ اپنے لخت جگر کے لیے اپنی زندگی وقف کر چکی تھی،اپنی خواہشات اپنے شوہر کے ساتھ ہی دفن کر چکی تھی ،اب صرف اسے اپنے بیٹے کے لیے جینا تھا۔
تاریخ نے پھر امتحان کی دہلیز پر لا کھڑا کیا کہ اب اس کے بیٹے نے بھی آزادی کے لیے قربانی دی ہے،گولی کھائی ہے ۔

اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ محلے کی خالہ نصیراں کی ہانپتی کانپتی آواز آئی:
"زینب! خوشخبری ہے! ریڈیو پر اعلان ہوا ہے... ہم آزاد ہو گئے!"

زینب کی نگاہیں حارث پر جم گئیں، جو زخمی و بے بس حالت میں بھی مسکرا رہا تھا۔ اس کے زخموں سے خون رس رہا تھا، مگر چہرہ اجالا ہو چکا تھا، جیسے کسی نور کی کرن چھو گئی ہو۔

زینب نے آسمان کی طرف دیکھا۔
آنکھیں بھر آئیں۔
لبوں سے ایک جملہ پھسلا:
"آخر کار... یہ قربانیاں رنگ لے آئیں!"

جھونپڑی سے باہر نکل کر اس نے آسمان کی وسعتوں میں دیکھا، جیسے آزادی کی خوشبو ہوا کے ہر جھونکے میں گھل چکی تھی۔
سورج اب بھی تپ رہا تھا، مگر زینب کو یوں لگا جیسے روشنی نرم ہو چکی ہو، جیسے آسمان نے پہلی بار کسی ماں کی گود میں امن کا پرچم رکھ دیا ہو۔
ماں!ہم اب آزادی کی زندگی گزار سکتے ہیں ؟بیٹے نے درد بھری آواز میں پیچھے سے پوچھا!
ہاں!میرے خوابوں کے شہزادے ہم آزاد ہیں ،لیکن میرے چاند یاد رکھنا آزادی کبھی صرف ایک اعلان نہیں ہوتی۔
یہ قربانیوں کی وہ کہانی ہے جو آنسو، خون، اور امید سے لکھی جاتی ہے۔
اب ہمیں ملکر آزادی کی زندگی کو محبت کی تھپکی دے کر ایک دوسرے کا ہاتھ کسی مفاد کے بغیر تھامنا ہے تاکہ آزادی کو عام کریں اور آزاد فضاؤں کو اپنے ہم وطنوں کے لیے آزاد ہی رہنے دیں ۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 922 Articles with 677772 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More