لاہور کی اہمیت
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
گرین وچ میریڈیئن ایک خیالی لکیر جو 1851 میں قائم ہوئی 0° طول البلد کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی |
|
گرین وچ میریڈیئن ایک خیالی لکیر جو 1851 میں قائم ہوئی 0° طول البلد کی نشاندہی کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ لاہور پاکستان کا ایک شہر ہے جو عرض البلد 31°30′50.40″ شمال، طول البلد 74°21′14.40″ مشرق پر ہے۔دارالحکومت کی حیثیت جون 1206؛ 819 سال پہلے۔27 مئی 1586; 439 سال پہلے۔12 اپریل 1801; 224 سال پہلے۔ دنیا کے نقشے پر لکیریں کھینچنے سے نہ تو کسی جگہ کی اہمیت میں فرق پڑتا ہے اور نہ ہی کسی علاقے کا وقت بدلتا ہے یہ تو ہماری اپنی آسانی کے لئے لکیریں کھینچی گئی ہیں تاکہ ہم عارضی طور سے دنیا کا جغرافیہ تبدیل کر کے اس کی تاریخ کا دھارا اپنی مرضی کے مطابق موڑ لیں۔ لاہور شہر کہلانے والا کرہ ارض کا نکتہ وہ واحد آسان ترین جگہہ ہے جہاں سے گذرے بغیر مغرب سے ہر آنے والے لشکر کو گذر کر ہی مشرق بعید پہنچنا ہوتا تھا۔ وہ منگول ہوں، آرین ہوں، مغل ہوں یا رومن سلطنت کے تار تار ہوئے بخیئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پرتگالیوں نے انڈیا پہنچنے کے لئے خشکی کا راستہ استعمال نہ کیا اور وہ سمندری راستے انڈیا پہنچے۔ سمندری راستے سے ہندوستان پہنچنے والے پہلے یورپی (لاہور کے راستے نہیں) واسکو ڈی گاما کی قیادت میں پرتگالی تھے، جو 1498 میں مالابار ساحل پر کالی کٹ پہنچے۔ اس تاریخ سے پہلے کسی یورپی کے لاہور کے راستے ہندوستان پہنچنے کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔ لاہور بنیادی طور پر ایک زمینی راستہ تھا جسے مغلوں اور بعد میں انگریزوں سمیت مختلف گروہ استعمال کرتے تھے لیکن پرتگالی نہیں جو بنیادی طور پر سمندری راستہ استعمال کرتے تھے۔جان ملڈن ہال (c. 1560–1614) یا John Midnall ایک انگریز ایکسپلورر اور ایڈونچرر تھا جو ہندوستان کا زمینی سفر کرنے والے پہلا شخص تھا اور ہندوستان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا خود ساختہ سفیر تھا۔ لاہور 4000 سال پرانا شہر ہے جو پہلے لاواپوری، لاوکوٹ اور راہور کے ناموں سے جانا جاتا تھا۔ لاہور نے قرون وسطیٰ کے دور میں کئی سلطنتوں کے دارالحکومت کے طور پر کام کیا، جن میں ہندو شاہی، غزنوید سلطنت اور دہلی سلطنت شامل ہیں۔ یہ 16 ویں صدی کے آخر اور 18 ویں صدی کے اوائل کے درمیان مغل سلطنت کے تحت اپنی شان و شوکت کی بلندی پر پہنچااور کئی سالوں تک اس کا دارالحکومت رہا۔ اس عرصے کے دوران یہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک تھا۔ 19ویں صدی کے اوائل میں سکھ سلطنت کا دارالحکومت بنا۔ لاہور کو 1849 میں برطانوی راج میں شامل کیا گیا اور برطانوی پنجاب کا دارالحکومت بن گیا۔ گویا ہمارے کھینچے ہوئے خطِ استوا یا گرینچ مِین ٹائم (0.00 یونیورسل اسٹینڈرڈ ٹائم) پر واقع ہونے سے کسی ملک یا شہر کی قدرو منزلت میں کوئی فرق نہیں پڑتابلکہ یہ ایک فطری عمل کے تحت تاریخ رقم کرنے کی بھٹّی سے گذرنےکے بعد جغرافیائی حیثیت تبدیل کر دینے کا انجام ہے کہ لاہور آج بھی کراچی سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو کبھی روشنیوں کے شہر کے خطاب سے نوازا گیا اور کبھی انڈس ویلی کی تہذیب کے حوالے سے اس کی پہچان بنائی گئی، لاہور آج بھی اسلام آباد سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، جو امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کی ہو بہو نقل بنوایا تھا ایوب خان نے۔اور تو اور افغانستان سے برّصغیر میں داخل ہونے کے لئے جو دروازہ استعمال ہؤا وہ بابِ خیبر ضرور کہلایا لیکن اس کے آگے پیچھے واقع پشاور شہر اور دریائے اٹک پر واحد پُل کی بھی وہ اہمیت کبھی نہ رہی جو لاہور کی ہمیشہ سے ہےاور رہے گی، مزید براں لاہور کا وقت بھی ہمیشہ سےایک سا ہی رہا ہے، دن کی چہل پہل ہو یا رات کی رنگینیاں۔ |