انسان تو اس دنیا میں معلوم نہیں کیا کیا فساد بر پا کرتا
ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت آتی ہے تو یہی طاقتور انسان اس
کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ سیلاب،زلزلے، طوفان، سونامی، آندھیاں سب
ازل سے انسان کی آزمائش کا باعث بنے ہیں کئی قومیں مکمل طور پر صفحہ ہستی
سے مٹ گئیں اور ہزار وں سال بعد کسی کی تو کچھ باقیات نشان عبرت بن کر ملیں
اور کچھ کا صرف ذکر ہی رہ گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمان قومیں تھیں جن کا
ذکر اللہ کی کتابوں میں بمعہ ان سزاؤں کے ملتا ہے۔ انسان ازل سے مختلف
بیماریوں اور وباؤں کا بھی شکار ہوتا رہا ہے جس میں لاکھوں کروڑوں انسان
لقمہء اجل بنتے رہے ہیں۔ ہم نے کئی وبائی امراض دیکھے ہیں اور علاقائی
وباؤں کو بھی لیکن ہماری نسل نے ایسی عالمی وباء پہلی بار دیکھی ہے اور
شائد اس لیے بھی کرونا وائرس کا خوف بہت زیادہ ہے اگرچہ یہ خوف بالکل درست
ہے کہ یہ انتہائی خطرناک وائرس یوں ہے کہ بہت تیزی سے پھیلتاہے اور پھر یہ
بھی ہے کہ اس نے ملکوں سے آگے نکل کر برا عظموں کا سفر دنوں اور ہفتوں میں
طے کیا اور اب تک تقریباََ دنیا کے تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے
کچھ لوگ اسے بڑی طاقتوں کی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں کچھ نے اسے جانوروں
سے انسانوں میں منتقل ہونے کی خبریں دیں،ہر ایک نے اس کے مختلف علاج بتائے،
دعائیں اور ٹوٹکے بھی شیئر کیے گئے یعنی یوں کہیے آج کل دنیا اور انسان اس
کی گرفت میں ہیں اگرچہ ایک حوصلہ افزا بات بھی ہے کہ اس کے کئی مریض صحت
یاب بھی ہو رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے اموات بھی بڑی تیزی سے
ہو رہی ہیں۔ دسمبر 2019 سے لیکر مارچ 2020تک کے تین چار مہینوں میں اب تک
اس ایک وائرس سے آن دی ریکارڈ دس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور یہ وہ
اعداد وشمار ہیں جو حکومتوں نے جاری کئے جبکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ
حکومتیں کئی مصلحتوں کی وجہ سے بھی اور عوام کو خوفزدہ ہونے سے بچانے کے
لیے متوقع طور پر درست اعداد و شمار جاری نہیں کرتیں جبکہ اس سے متاثرہ
افراد کی تعداد یقینا لاکھوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں یہ وائرس
دوسرے ملکوں کی نسبت کافی دیر سے پہنچا اور دسمبر سے پھیلنے والے اس وائرس
کا پہلا کیس 26فروری کو پاکستان میں ریکارڈ ہوا جبکہ پہلی دو اموات 16مارچ
کو ہوئی۔ابتداء میں حکومت نے اچھا قدم اٹھا یا اور چین سے پاکستانیوں کو
نہیں لایا گیا لیکن یہی چیز ایران سے آنے والوں کے لیے نہیں کی گئی۔ پہلے
توتفتان میں انہیں قرنطینہ کرنا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا اور جب یہ عمل
شروع ہوا تو بھی وہ قرنطینہ کم اور جگہ کی کمی کا شکار کوئی مہاجر کیمپ
زیادہ لگ رہا تھا بلکہ اب بھی ایسا ہی ہے۔ اس کے بعد ڈیرہ غازی خان میں بھی
ایسا ہی منظر دیکھنے میں آیا۔یہاں صحت مند اور مریض کی درست پہچان نہیں کی
گئی اور یوں اگر مرض ایک میں تھا تو کئی ایک کو لگ گیا اور اس پر طرّہ یہ
ہوا کہ ان زائرین میں سے کئی ایک کو وقت سے پہلے قرنطینہ سے نکال دیا گیا۔
ائیر پورٹس پر آنے والوں کے بھی درست ٹیسٹ نہیں کیے گئے۔جان بحق ہونے والے
دونوں اشخاص بغیر اس ٹیسٹ کے گھروں کو پہنچے جنہوں نے یقیناً اپنے گھر
والوں کے علاوہ بے شمار دوسرے لوگوں سے ہاتھ ملائے ہونگے اور گلے بھی ملے
ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ اب سیکنڈری کیرئیر بھی سامنے آرہے ہیں یعنی وہ
لوگ جن کو یہ بیمار ی اپنے ہی ملک اور شہر کے اندر دوسروں سے منتقل ہوئی۔اس
بیماری کے پھیلاؤ کو روکنا اگرچہ ممکن نہیں لیکن اسے کم کیا جا سکتا ہے اور
اس کے لیے وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں جس کے لیے بار بار
بتایا جا رہا ہے میرے خیال میں اب تو یہ احتیاطیں ہر ایک کو ازبر ہو چکیں
ہونگی تاہم ایک اعادے کے لیے میں یہاں صرف ان کا سر سری ذکر کروں گی۔سب سے
پہلے تو یہ کہ بلا ضرورت گھر سے مت نکلیں جبکہ ایسے کئی لوگوں کے بارے میں
آپ بھی جانتے ہوں گے اور میں بھی آپ کو بتا سکتی ہو ں جو تعلیمی اداروں میں
چھٹیاں ہوتے ہی ”چکر“ کے لیے نکل گئے کچھ رشتہ داروں کے گھر پہنچے اور کچھ
سیا حتی مقامات پر، اور سوشل میڈیا پر تصاویر اپلوڈ ہونے لگیں۔ دوسرے اگر
بوجہ گھر سے نکلنا بھی پڑے تو بلاوجہ چیزوں کو نہ چھوئیں کیونکہ آپ نہیں
جانتے آپ سے پہلے کون کون ان چیزوں کو چھوچکا ہے، وقفے وقفے سے ہاتھ صابن
سے دھوتے رہیں، عوامی مقامات پر جہاں پانی دستیاب نہ ہو یا ہاتھ دھونا ممکن
نہ ہو سینیٹائزر استعمال کریں دھوپ ہونے کی صورت میں جتنا بیٹھ سکیں دھوپ
میں بیٹھیں وغیرہ وغیرہ۔ اب باقی احتیاطوں پر تو کس قدر عمل ہو رہا ہے اس
کا درست اندازہ لگانا تو مشکل ہے لیکن گھر سے باہر نکلنے میں بظاہر ہرگز
کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ حکومت نے اجتماعات پر تو پابندی لگادی ہے لیکن ہمارے
عوام اسے ایمان کی کمزوری خیال کر رہے ہیں کہ موت تو آنی ہے تو کیو ں گھروں
کے اندر رہ لیں جتنی زندگی ہے انجوائے کرلیں۔ بالکل درست ہے کہ موت کا وقت
معین ہے تو نیند رات بھر کیوں نہ آئے مگر زندگی کے ہر معاملے کی طرح اسلام
نے وبائی امراض سے بچنے کے لیے بھی کچھ اصول وضع کیے ہیں وہ دعا آپ کو بھی
کسی نے بھیجی ہی ہوگی جس میں نبی پاک ﷺ نے وبائی امراض جذام،برص وغیرہ سے
پناہ مانگی ہے اور یہ حدیث بھی آپ نے سنی ہی ہوگی جو بخاری اور مسلم دونوں
سے ثابت ہے بخاری شریف کی حدیث 3473اور مسلم 2218میں حضرت اسامہ بن زید ؓسے
مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا”طاعون ایک عذاب ہے جو کہ بنی اسرائیل یا
تم سے پہلے کسی اور قوم پر نازل کیا گیا چنانچہ جب بھی کسی علاقے میں طاعون
پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں
پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو“ یعنی موت کے خوف سے
دوسرے کو موت کے خطرے سے دوچار کرنا بھی درست نہیں اور جانتے بوجھتے موت کے
منہ میں جانا بھی کسی طرح ٹھیک نہیں۔اسلام دین فطرت ہے اور فطری طور پر پیش
آنے والی مشکلات، بیماری، کمزوری وغیرہ میں نماز کو بجائے کھڑے ہو کر پڑھنے
کے بیٹھ کر اور اشارے سے بھی پڑھنے کی اجازت اور ہدایت ہے۔ اسی طرح سرد
طوفانی بارشوں کی صورت میں نبی پاک ﷺ نے نماز گھر پر پڑھنے کی ہدایت کی۔
سنن نسائی کی حدیث937 میں سید نا عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے انہوں نے
فرمایا رسول اللہ ﷺ کا موذن اذان میں ہی بارش اور تیز ہواوالی سرد رات میں
اعلان کر دیا کرتا کہ ”گھروں میں نماز پڑھ لو“۔بنو ثقیف کے ایک شخص سے
روایت ہے کہ اُس نے دوران سفر بارش والی رات میں موذن کو یوں کہتے سنا ”حی
علی الصلاۃ، حی علی الفلاح، صلوافی رحالکم“ یعنی اپنے خیموں میں نماز پڑھ
لو۔ یہی حدیث دوسری اسناد کے ساتھ حدیث کی دیگر صحیح کتابوں میں بھی موجود
ہے یعنی اگر کسی چیز یا حالت سے انسان کو مسجد پہنچنے یا جانے سے نقصان کا
اندیشہ ہو تو با جماعت کی بجائے گھر میں نماز کی ہدایت کی گئی۔ اس وقت ان
تمام امور کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرونا وائرس کے خلاف منصوبہ بندی کی ضرورت
ہے اور عوام کو حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مکمل تعاون کرنا چاہیے
کیونکہ کرونا سے بچاؤ کی فی الحال ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے احتیاط ورنہ
ابھی تک نہ اس کی کوئی ویکسین بن سکی ہے اور نہ ہی کوئی دوا تیار کی جا سکی
ہے۔ ابھی تک ترقی یا فتہ ممالک بھی اس وبا ء کو قابو نہیں کر سکے ہیں اور
امریکہ جیسا ملک بھی افراتفری کا شکار ہے پھر پاکستان جیسے آئی ایم ایف کے
قرضوں سے چلنے والے ملک کی حالت کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں لیکن ایک بات
اب ہم سب کی سمجھ میں آجانی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ہم نے صحت کے شعبے کو
اپنی ترجیحات میں جس درجے پر رکھا ہوا ہے وہ ہر گز اس کا حقدار نہیں بلکہ
اس بات کا متقاضی ہے کہ اچھے ہسپتال بنائے جائیں جس میں جدید ترین سہولتیں
دی جائیں لیکن افسوس کا مقام یہی ہے کہ دوسرے بلکہ غیر ضروری کاموں سے بچ
جانے والی رقوم کو صحت اور تعلیم کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے اس لیے اب یہ
حال ہے کہ ہم کرونا سے تو گھبرائے ہوئے ہیں ہی زیادہ مسئلہ سہولیات کا نہ
ہونا ہے یہاں تک کہ ہمارے ڈاکٹرز کے لیے بچاؤ کے انتظامات تک نہیں ہیں۔ یہ
بات درست ہے کہ وبائی امراض سے متاثر ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی
ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی سو فیصد سہولیات کا پہنچانا نا ممکن ہوتا ہے
لیکن کسی حد تک تو اس سے لڑا جا سکتا ہے۔ ان حقائق کو اگر مد نظر رکھا جائے
تو حکومت اور عوام دونوں کو اس وقت اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے تبھی ہم اس
وباء پر قابو پا سکتے ہیں یہاں ایک اور بہت اہم نکتہ ہے جس کی طرف اب توجہ
دلائی جا رہی ہے لیکن توجہ کے ساتھ اس کے لیے منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے
وہ ہے دیہاڑی کرنے والے لوگ جو روز کا روز کماتے اور کھاتے ہیں کہ ان دنوں
میں وہ کیسے اپنی ضروریات پوری کریں گے اور اگر خدانخواستہ رمضان تک بھی اس
پر قابونہ پایا جا سکا تو تب کیا کیا جائے گا۔ اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے
ابھی سے انتظامات کیے جانے چاہیے کیونکہ جو دس دن کمانہ سکے تو کیسے کھائے
گا لہٰذا تھنک ٹینکس اس وقت فلسفے کی دوسری گتھیاں سلجھانے کی بجائے اس کے
لیے منصوبہ بندی کریں کہ اگر خدانخواستہ مجبوراً مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑے تو
ان مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا ویسے بہتر یہ ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے
جس کے نہ کرنے کے لیے حکومت یہ توجیہہ پیش کر رہی ہے کہ لوگ بھوک سے مر
جائیں گے اور معیشت بُری طرح متاثر ہو گی تو عرض یہ ہے کہ معیشت تو نیچے
جائے گی ہی تو کیا ضروری ہے کہ لوگوں کے مرنے کے بعد لاک ڈاؤن ہو جیسا اٹلی
میں ہوا کہ لوگ بھی مرے، لاک ڈاؤن بھی ہوا اور معیشت بھی ڈوب رہی ہے۔ کرونا
کے مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ہمیں مستقبل میں ایسے آفات سے نمٹنے کی
منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور فضل سے اگر ہم اس پر
قابو پا سکے تو مستقبل میں کسی بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں
لانگ ٹرم پلاننگ ضرور کرنا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے اور تمام قدرتی
وانسانی آفات سمیت ہمیں اس آفت سے نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہمیں کسی بھی، خاص کر جانی نقصان سے بچائے، آمین۔
|