ایک طرف وطن عزیز کا سنجیدہ طبقہ رنجیدہ اور اداس ہے
کیونکہ جو خطرہ سر پر کرونا وائرس کی شکل میں منڈلارہا ہے، وہ کسی بھی وقت
ہمارے لیے بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف حکومت
باالخصوص سندھ حکومت اس بلا سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں، وہی
علماء کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں ہر ممکنہ احتیاطی تدبیر اپنانے پر زور
دے رہے ہیں۔ ماہرین طب اور سنجیدہ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ بھی اگاہی کے اس
مہم میں بھر پور طریقے سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ شائد ہماری بدقسمتی ہے
کہ وفاقی حکومت کرونا وائرس کے منظر عام پر آتے ہی وہ اقدامات اٹھا نہ سکی
جو وقت کا تقاضہ اور اس وائرس کو روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔ وفاقی
حکومت کو تو باالآخر ہوش آہی گیا جس کے بعد ان کے دو صوبائی اور ایک مخلوط
صوبائی حکومت کو اس ضمن میں انگڑائی لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سندھ کے
صوبائی حکومت کو البتہ داد دینا پڑے گی کہ اس نے خطرے کو بروقت بھانپتے
ہوئے ممکنہ حفاظتی اقدامات اٹھانا شروع کردیے تھے جس کی وجہ سے سندھ میں
کرونا سے نمٹنے کے لیے صورت حال قدرے اطمینان بخش ہے البتہ متاثرہ افراد کا
مکمل ڈیٹا دستیاب نا ہونے کی وجہ سے سندھ حکومت بھی آئندہ آنے والی صورت
حال کے حوالے سے کچھ پریشان دکھائی دیتی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ سندھ نے
اب کچھ سخت قسم کے اقدامات اٹھانے شروع کردیے ہیں۔ صوبائی حکومت نے حفظ
ماتقدم کے طور پر پہلے مرحلے میں تمام تعلیمی ادارے بند کیے، پھر بازار،
ہوٹلز اور بڑے شاپنگ مالز بھی بند کردیے گئے اور کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز
کے پیش نظر اب سندھ حکومت نے عوام سے اکیس تا تئیس مارچ تک گھروں میں رہنے
کی اپیل کی ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے چار افراد سے زائد کے بیٹھک پر پابندی
عائد کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیا
ہے۔ خیال ظاہر کیا جارہے ہیں کہ بے قابو ہوتے کرونا وائرس کا راستہ روکنے
کے لیے مکمل لاک ڈاون کا کال بھی دی جاسکتی ہے۔
دوسری طرف عوامی مزاج کو دیکھ کر بندہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اگر عوامی
رویے میں تبدیلی نا آئی تو کرونا پاکستان میں بڑی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
میں گزشتہ کچھ دنوں سے نوٹ کررہاہوں کہ حکومت اور علماء کرام کی جانب سے
دیے جانے والی ہدایات اور مشورے سننے لیے کوئی تیار نہیں اور یہی رویہ آنے
والے دنوں میں ہمارے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ماہرین کے
نزدیک یہ وائرس باآسانی ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہوسکتا ہے لہذا شعبہ طب
کے ماہرین یہ تجویز دے چکے ہیں کہ عوام غیر ضروری طور پر گھروں سے ہرگز نا
نکلے۔ حکومت، علماء کرام اور ہیلتھ کے شعبے سے وابستہ افراد کی بار بار
اپیلوں کے باوجود بھی عوام صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنے سے قاصر ہے،
یہی وجہ ہے کہ پہلے عوام نے ساحل سمندر اور مختلف دیگر تفریحی مقامات کا رخ
کیا پھر اس کے بند ہونے کے بعد چائے خانوں، بازاروں اور ریسٹورنٹس کو "
مسکن،، بنا ڈالا اور اب گلی محلوں میں مختلف قسم کے کھیل کھیلنے میں عوام
کی بڑی تعداد مصروف نظر آتی ہے۔ایک اور قابل تشویش بات یہ سامنے آرہی ہے کہ
شادی ہالز کے بند ہونے کی باوجود گھروں میں دھڑلے سے تقریبات کا انعقاد
جارہی ہے جس میں مائیں چھوٹے بچوں سمیت شریک ہوکر خطرے کو بڑھارہی ہیں۔
چونکہ بچے انتہائی حساس ہوتے ہیں اس لیے ان میں وائرس پھیلنے کے امکانات
زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک اور قابل غور مگر خطرناک تاثر سوشل میڈیا پر کچھ لوگ
یہ پھیلا رہے ہیں کہ حفاظتی اقدامات کا اٹھانا کمزور ایمان کی علامت ہیں۔
ایسے لوگ کبھی کھلے لفظوں تو کبھی غیر محسوس انداز میں حفاظتی انتظامات کا
مذاق اڑارہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں اور عام عوام کو سوچنا چاہیے کہ جسم
انسان کے پاس اللہ کی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت کرنا اس پر لازم ہے
جبکہ کرونا اللہ کی طرف سے ایک بڑی آزمائش اور مصیبت ہے لہذا علماء کرام کے
مطابق اس موقع پر ہر ممکن احتیاطی تدبیر اختیار کرنا نہ صرف جائز بلکہ لازم
بھی ہے۔ ہر ممکن احتیاط کے باوجود اگر کسی انسان کی جان اس وباء کے نتیجے
میں چلی جاتی ہے تو علماء کرام کے نزدیک وہ بلاشبہ شہادت کے درجے پر فائز
ہوگیا لیکن اگر کوئی شخص حکومتی ہدایات اور علماء کرام کے نصیحتوں کو نظر
انداز کرکے" آبیل مجھے مار،، والا طریقہ اختیار کرتا ہے تو یقینا وہ خودکشی
کررہاہے اور خودکشی کرکے شہادت کی امید رکھنا کمال درجے کی بے وقوفی ہے۔
لہذا خدارا خود پر، اپنے والدین، بیوی بچوں اور رشتہ داروں پر رحم کیجیے۔
بے احتیاطی کرکے کرونا کے خلاف اس جنگ میں ایندھن نا بنیے۔ حکومتی ہدایات
کے مطابق گھروں میں رہیے۔ اپنی گناہوں پر نادم ہوکر توبہ استغفار کرکے اللہ
کو راضی کیجیے۔ مصیبت کہ اس گھڑی میں اپنے آس پاس موجود سفید پوش افراد کی
اعانت کیجیے کہ ایسا کرکے ہی ہم اس آزمائش سے نکل سکتے ہیں۔ بصورت دیگر آپ
اس بات کو ذہن میں ضرور رکھیں کہ اٹلی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے ذرا
سی بے احتیاطی کی وجہ سے آج وہاں لاشیں بغیر آخری رسومات کی ادائیگی کے
گاڑیوں میں بھر بھر کر ٹھکانے لگائی جارہی ہے تو آپ تصور کیجیے کہ حفاظتی
انتظامات اور احتیاطی تدابیر کو یکسر نظر انداز کرکے پاکستان کو کن حالات
کا سامنا کرنا پڑسکتاہے؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
|