اس حقیقت سے کوئی منحرف نہیں ہو سکتا کہ پاکستان اپنی
تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم من حیث
القوم غیر شعوری طور پر نسلی ،لاسانی تعصبات ،منافرت اور باہمی بد اعتمادی
کی فضا میں جی رہے ہیں ۔جس کا فائدہ ہمارے دشمن بھر پور طور پر اٹھا رہے
ہیں۔حالاں کہ قوم دشمن کے مزموم مقاصد سے با خوبی آشنا ہے،مگر ہمارے ہاں
غداروں کی کمی نہیں،جو دشمنوں کے ہاتھوں کٹ پتلی بن کر وطن عزیز کو کھوکھلا
کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں ۔پاکستان ہمیشہ امن کا دائی رہا ہے،جب جب ہم نے
بین القوامی طور پر اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کی ہے،دشمنوں نے بار
بارچالیں چلی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اکثر کامیاب بھی رہے
ہیں،جس کا نا قابل تلافی نقصان پاکستان کو ہوا ہے ۔
پاکستان کے بھارت،چین،ایران اور افغانستان چار ہمسایہ ممالک ہیں۔پاکستان
اور بھارت کے درمیان 2,912کلومیٹر،چین کے ساتھ 523کلومیٹر،ایران کے ساتھ
909کلو میٹر اور پاک افغان کے درمیا ن واقع سرحد ڈیورنڈ لائن 2,450کلومیٹر
طویل ہے یہ ہندوکش اور پامیر کے پہاڑوں میں واقع ہے ۔چین ہمارا درینہ اور
مخلص دوست ہمسایہ ملک ہے،جب کہ ہمیں دیگر تین اطراف کی سرحدوں سے خطرات کا
سامنا ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان کے ساتھ ایسی صورت حال ہمیشہ سے نہیں
تھی۔شروع سے چین،ایران اور افغانستان سے ہمارے تعلقات مثالی رہے ہیں۔ان
تینوں باڈروں پر ہمیں کسی قسم کی فوجی حفاظت کی ضرورت نہیں تھی،صرف بھارت
ہمارا دشمن ہے،جس نے اپنی سازشوں سے پاکستان کو نا کابل تلافی نقصانات سے
دو چار کیا۔لیکن حالات یہاں تک پہنچنے میں جہاں دشمنوں کا ہاتھ رہا وہاں
ہماری اپنی سنگین غلطیاں اس نہج تک پہنچانے کا سبب بنی۔بھارت آج بھی
پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کر پایا،جب کہ افغانستان پاکستان کی پیٹھ
پربار بار خنجر گھومتا رہا ہے۔پاکستان کا ہمیشہ سے مؤقف رہا ہے کہ
افغانستان میں امن، مستحکم پاکستان کے لئے لازم ہے۔اسی لئے افغان حکومت کی
سنگین غلطیوں کو پاکستان نے درگزر کیا ۔پاکستان نے کئی بارکوشش کی کہ
طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ ہو جائے اور دو دہائیوں کی اس نام
نہاد جنگ جس میں اربوں ڈالر جھونک دیئے گئے اور لاکھوں قیمتی جانوں کا
نقصان کیا گیا،پوریی دنیا دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گئی ،اس خطرے کو ختم کیا
جائے ،لیکن دشمنوں نے چالیں چلیں،جس کے نتیجے میں کئی بار معاہدہ قریب پہنچ
کر سبوتاژ ہو جاتا ،پھر بال آخر 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں
طالبان اور امریکہ کے مابین امن معاہدہ طے پایا، جس کے تحت امریکہ 135 دنوں
میں افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8ہزار 600 تک کم کرے گا اور امریکہ
کی زیر قیادت اتحادی افواج 14ماہ کے اندر افغانستان چھوڑ دیں گی۔اشرف غنی
نے امریکہ طالبان امن معاہدے پر دوحہ میں تحسین پیش کی۔معاہدے کے دن کو
تاریخی اور یادگار قرار دیتے ہوئے پاکستان امریکہ اور دیگر دوست ممالک کا
شکریہ بھی ادا کیا ، ان کی جانب سے یقین ظاہر کیا گیا کہ امن معاہدے سے
19سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگا،افغانستان میں امن قائم ہو گا،اب طالبان کے ساتھ
ہمارے براہ راست مذاکرات بھی کامیاب ہوں گے۔اشرف غنی کی جانب سے یہ امید
افزا بیان دوحہ میں دیا گیا اور اسی روز اشرف غنی کابل واپس چلے گئے ،مگر
اگلے دن اپنے ہی بیان سے منحرف ہو گئے اور معاہدے کی مخالفت اور اشتعال میں
نظر آئے۔اس کی وجہ طالبان قیدیوں کی رہائی تھی جو معاہدے کے مطابق 15سو
قیدی دس مارچ کو رہا کئے جانے تھے۔اشرف غنی کا یہ کہنا کہ امریکہ کو طالبان
قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ کرنے کا اختیار نہیں ہے،یہ اختیار صرف کابل
حکومت کو ہے۔اب راتوں رات اشرف غنی میں تبدیلی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے ۔امریکہ
کو چیلنج کرنے والا اشرف غنی اپنے اقتدار کے لئے کن طاقتوں کا پیادہ بنا
ہے،اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے؟کیوں کہ طالبان معاہدے پر عمل کے لئے
سنجیدہ ہیں،ان کے پاس گنوانے کے لئے کچھ نہیں،مگر معاہدے کی کامیابی سے
انہیں بہت کچھ مل سکتا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری ٹرم کے لئے انتخابات میں
جانا ہے۔جس کے لئے امریکی قوم سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا ضروری تھا کہ
افغانستان کی دلدل سے امریکی فوجیوں کو نکالیں گے۔اس کے لئے تمام تر حائل
رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے،مگر پاکستان دشمنوں کو یہ معاہدہ ایک آنکھ نہیں
بھایا،کیوں کہ افغانستان میں امن کی بحالی سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو
ہو گااوراس معاہدے پر عمل سے سب سے بڑا نقصان بھارت کو ہو گا،جس نے
افغانستان میں ساڑھے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے،جو ڈوب جائے
گی۔اس کے فوجی و سول ٹرینرزکو واپس جانا پڑے گا،اس نے ہر تیسرے شہر میں
اپنے قونصل خانے بنا رکھے ہیں ،انہیں بند کرنا پڑے گا۔
پاکستان کی مخالفت تو افغان حکمرانوں کی سرشت میں شامل ہے،پاکستان دشمنی
بھارتی اور افغان حکمرانوں کے لئے مشترکہ ہے۔یہ بات روز روشن کی طرح صاف ہے
کہ افغان سر زمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔بھارت
کے لئے 29فروری کا معاہدہ بہت بڑا جھٹکا ہے اور اس نے معاہدے کے خلاف
سازشیں تیز کر دی ہیں،اس کے ساتھ پرانے سازشی کھلاڑی ہیں،جو پرانے حربے
آزما رہے ہیں۔اس کی مثال معاہدے کے بعد طالبان کے خلاف اپریشن شروع کئے
گئے،طالبان نے بھی اس کا جواب دیا ۔طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی
گئی،لیکن فریقین معاہدے پر قائم رہے۔
طالبان امریکہ کے درمیان معاہدہ فریقین کی سنجیدگی کی وجہ سے ہوا،مگر اب
افغان انٹرا مذاکرات ہونے ہیں،جس میں طالبان کے ساتھ کابل فریق ہو گا،یہاں
سازشی قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا موقع ملے گا۔اس بات میں
کوئی شک و شبہ نہیں کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات کی میز پر بیٹھنے والوں کی
نیت میں فتور ہے۔اس لئے امریکہ کو اس میز پر تیسرے فریق کے طور پر بیٹھنا
چاہیے ،پھر ہی یہ معاہدہ ہو سکے گا،وگرنہ افغان حکومت ہرگز سنجیدگی کا
مظاہرہ نہیں کر رہی ہے۔جیسے پاکستان افغانستان میں امن کے لئے عملی اقدامات
کر رہا ہے،مگر کابل پاکستان میں بدستور دہشت گردی کے شعلے بھڑکانے کے لئے
گرداں ہے۔بھارت اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہے اورافغان امن معاہدہ کے
خلاف بھر پور سازشوں کی نا کامی کے بعد اب بھی ہر ممکن کوششوں اور سازشوں
میں مصروف عمل ہے ۔اب افغان عوام اور خاص طور پر کابل کو افغانستان کے پُر
امن مستقبل کے لئے ذاتی مفادات سے بالاتر اور بھارتی شکنجے سے نکل کر
اقدامات کرنے ہوں گے اور ہمیں من حیث القوم متحد ہو کر دشمن کی سازشوں کا
جواب دینا ہو گا۔اپنے اندر سے میر جعفر اور میر صادق عوام کے سامنے عیاں
کرنے ہوں گے۔یاد رہے کہ وہی قومیں قائم و دائم رہتی ہیں جو اپنی خود مختاری
اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتیں ۔ہمیں مثبت رویوں کے ساتھ ان سازشوں کا
گلہ کھوٹنا ہو گا۔
|