13 مئی 2018ء کی روزنامہ جسارت کراچی کی ایک رپورٹ کے
مطابق" عدالت عظمی ٰنے تھر میں بچوں کی اموات کا ذمے دارسندھ حکومت کو قرار
دیا تھا"۔عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب
نثارکی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی
بینچ نے تھرمیں صحت کی سہولتوں کے فقدان اور بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی
سماعت کی جس میں آغا خان اسپتال نے تھرمیں بچوں کی اموات سے متعلق تجزیاتی
رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ رپورٹ میں بچوں کی اموات کی بنیادی وجہ صحت کی
سہولیات کے فقدان کو قراردیاگیا۔ رپورٹ میں بتایا گیاکہ تھر میں لوگوں کو
صحت کی بنیادی ضروری سہولیات بھی میسر نہیں ہیں‘ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے
باعث بچوں کی اموات ہوئیں‘ تھر میں صورتحال اس قدرخراب ہے کہ ایس او پی کو
بھی فالو نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے تجزیاتی رپورٹ پڑھنے کے
بعد ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھ حکومت ہی تھر میں بچوں کی
اموات کی ذمے دارہے۔
تھر میں قحط سے ہزاروں بچے غذائی قلت سے مر گئے لیکن سندھ حکومت ٹس سے مس
نہیں ہوئی ۔ تھر میں پینے کے صاف پانی کا انتظام کیا گیا اور نہ ہی کوئی
ہسپتال قائم کیا گیا۔ سانپ کاٹنے اور دیگر امراض میں تھر کے باسیوں کو
قریبی شہروں کا رُخ کرنا پڑا۔ خشک سالی سے ہزاروں جانور مر گئے لیکن سندھ
حکومت نہ جاگی صرف بھٹو کو زندہ کئے ہوئے اپنی پرانی ڈگر پر گامزن رہی۔
گذشتہ دنوں سندھ کے ایک ہسپتال کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس
میں ہسپتال کے بیڈوں پر کتے بُرجمان تھے۔گھوسٹ سکول، جعلی ڈگریاں،ناکارہ
بسیں،سڑکوں کی ابتر صورت حال، گندگی، تعفن، کوڑا کرکٹ ،سیوریج اور صاف پانی
کی فراہمی جیسے لاتعدا د مسائل ہیں جن کا حکومت سندھ کو سامنا ہے لیکن
کاغذی خانہ پُری میں سب اچھا ہے کی رپورٹ ہے۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں اور نیب میں انکے کیسز چل
رہے ہیں ۔جعلی اکاؤنٹس کیس میں مراد علی شاہ نیب اسلام آباد میں ایک بار
پیش ہوئے ۔ نیب نے نوٹس میں مراد علی شاہ کو ٹھٹھہ اور دادو شوگر ملز کیس
کا ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت بھی کی تھی۔ مراد علی شاہ پر ٹھٹھہ اور دادو
شوگر ملز اونے پونے داموں فروخت کرنے کا الزام ہے۔ یہ کیس کس مصلحت کے تحت
التوا کا شکار ہے؟ یہ نیب جانتا ہے یا پھر سندھ کے وزیر اعلیٰ!کرونا وائرس
کے سندھ میں پھیلنے کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ پہلی بار ایکٹو نظر آئے۔
قارئین حیران ہیں کہ آخر ایسا کیا راتوں رات ہو گیا کہ سندھ حکومت ایکٹو ہو
گئی اور ہمارا میڈیا مراد علی شاہ کے اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا
ہے۔سندھ حکومت کی کارکردگی کے جس خاکے کی تشہیر اچانک کی جا رہی ہے اس میں
پیڈ میڈیا کنٹنٹ کی بُو آ رہی ہے۔ جس کا مقصدسندھ حکومت کے اقدامات کو
اُجاگر کرکے وفاقی حکومت کی کارکردگی کو منفی دیکھایا جا سکے ۔واقفانِ حال
جانتے ہیں کہ اس سارے کھیل کے پیچھے ایک بڑے میڈیا گروپ کا ہاتھ ہے جس کا
مالک پلاٹوں کی ہیر پھیر کے کیس میں آجکل نیب کی تحویل میں ہے اور جسکی وجہ
سے تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ آذادی صحافت پر ضرب لگائی گئی ہے۔
سندھ کے شوباز شریف بننے کے شوقین وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ا پنی کارکردگی
میں کوئی ایک جدید ہسپتال بتا دیں جو انہوں نے اپنے دور حکومت میں بنایا ہو
اور جہاں سے اب کوئی کرونا وائرس کا مریض شفاء یا ب ہو ا ہو؟ الیکڑانک
میڈیا اور سوشل میڈیا پر قائم ہونے والی ہسپتالوں نے پوری دُنیا کی جدید
ہسپتالوں کو پیچھے چھوڑ دیا ،کیا کسی صحافی کو فگر دئیے گئے ؟آج بھی اندون
سندھ کی حالت یہ ہے کہ علاج کی غرض سے لوگ پنجاب کے قریبی اضلاح راجن پور،
رحیم یار خان ، صادق آباد اور دیگر شہروں میں اپنا علاج کروانے کی غرض سے
آتے ہیں۔ دُور جانے کی ضروت نہیں ، اسلام آباد کو ہی لے لیجئے۔ اسلا م آباد
کے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) ہسپتال میں سندھ کے دور دراز
کے علاقوں سے لوگ دھکے کھا کر یہاں علاج کی غرض سے آئے ہوئے ہیں ۔میڈیا کا
سہارا لے کر سندھ کی حکومت اپنی انتظامی ناقص کارکردگی نہیں چھپا سکتی۔سب
سے زیادہ کرپشن سندھ میں ہے اور اگر کوئی وفاقی ادارہ تحقیقات کرنا چاہے تو
اٹھاویں ترمیم کا حوالہ دے کرصوبے میں مداخلت کا راگ الاپا جاتا ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پیسے کے زور پر زیرو کو ہیرو اور ہیرو کو
زیرو کرنے کا کام ہمارا میڈیا خوب کرتا ہے۔ شنید ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ
نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو تیار کیا ہے اور انہیں جدید موبائلوں سے لیس کیا
ہے جو سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ کو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا
کی طرز پر سہارا دینے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس وقت سندھ حکومت کی کارکردگی
سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی جو اپنی کارکردگی کی وجہ سے سکڑ کر
ایک صوبے تک رہ گئی تھی اس کی اب حالت یہ ہے کہ لاڑکانہ میں بھی ہار چکی
ہے۔یوں دیکھائی دیتا ہے کہ مراد علی شاہ کے آئیڈیل شہباز شریف بن چکے
ہیں۔انہیں اُن کی ڈرامہ بازی ، سٹائل، انگلش ہیٹ اور فوٹو سیشن پسند آگئے
ہیں جن کا بظاہر حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔انہیں شاید لگتا ہے کہ وہ
شوبازیاں کاپی کر کے پیپلز پارٹی کی گرتی ساکھ کو شاید بچا پائیں۔
آج دُنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے آج ہرشخص کے پاس
سمارٹ فون ہے۔ ہر محب وطن سوشل میڈیا سے کسی نہ کسی حوالے سے منسلک ہے ،
ملکی مسائل، حکومتی کارکردگی اور اپنے حقوق و فرائض کے حوالے سے سوشل میڈیا
پراپنی آراء دے رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کے سیاست دان چاہتے ہیں کہ سوشل
میڈیا کو کنڑول کیا جائے کیونکہ سوشل میڈیا اب حکمرانوں کو انکے اقدامات پر
فوراً ہی گرفت کرتاہے۔سوشل میڈیا اب حکمرانوں کی چالاکیوں کو فوری بھانپ کر
اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتا ہے جو حکمرانوں کے لیے درد سر ہے۔ پیڈ
الیکڑانک میڈیا سے جب حکومتی غیر ضروری تشہیر کی جاتی ہے تودوسری طرف سوشل
میڈیا صارفین اپنا بھرپور ردعمل دیتے ہیں۔ سندھ کے شوباز شریف کی پیڈ میڈیا
چال زیادہ دن نہیں چلے گی۔ بقولِ شاعر شہزاد تابش
ہر دور کے سلطان نے ستم یہ بھی کیا ہے
تاریخ کے ہاتھوں سے قلم کار خریدا
|