سی پیک: اقتصادی ترقی و خوشحالی کا ضامن

آج کی دُنیا روایتی جنگ کی بجائے معاشی برتری کی جنگ لڑ رہی ہے،کررونا سے پوری دنیا کی معیشت کو دھچکا لگا، اس سے مزید معاشی بحران ممکن ، اس سے سی پیک جیسے منصوبے کی اہمیت اور بڑھ رہی ۔سی پیک منصوبہ دُنیا میں جاری سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے۔56 ارب ڈالر مالیت کا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کو تیز رفتار اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر لے جائیگا۔طویل، کشادہ اور محفوظ سڑکیں، توانائی کے منصوبے، انڈسٹریل پارکس اور گوادر بندرگاہ کا منصوبہ، جس کی تکمیل دہشتگردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ پاکستان کیلئے روشن مستقبل کی نوید ہے۔

پاکستان 2025 وژن میں ترقی محض سرمایہ کی افزائش کا نام نہیں اس کا ہدف غربت کا خاتمہ ہے، سی پیک منصوبوں نے توانائی کے بحران پہ قابو پانے میں مدد دی ہے،بجلی کی فراہمی سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، روزگار پیدا ہو رہا ہے، سی پیک کے ذریعہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو ترقی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

سی پیک دراصل چین کے اس OBORکا بنیادی جزو ہے۔ چین جنوبی کے ساحلوں سے مالاکا تک 1807 ناٹیکل میل کا فاصلہ ہے جو قریباَ 3346 کلومیٹر بنتا ہے۔ ملاکا سے سری لنکا تک 1332 ناٹیکل میل کا فاصلہ بنتا ہے جو 2466 کلومیٹر بنتا ہے۔

سری لنکا سے خلیج عدن میں اترنے کے لئے 2380 ناٹیکل میل کا فاصلہ ہے جو4400 کلومیٹر بنتا ہے جبکہ سری لنکا ہی سے خلیج اومان میں اترنے کے لئے 1895 ناٹیکل میل کا فاصلہ بنتا ہے جو3509 کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کے برعکس گوادر سے اومان تک قریباَ 208 ناٹیکل میل کا فاصلہ ہے جو 385 کلومیٹر بنتا ہے۔ گوادر سے خلیج عدن میں اترنے کے لئے1371 ناٹیکل میل کا فاصلہ ہے جو 2539 کلومیٹر بنتا ہے۔ آسانی کے لئے یوں سمجھ لیجیے کہ چین کے ایک بحری جہاز کوشنگھائی پورٹ سے نیدر لینڈ کے شہر روٹرڈیم تک پورٹ پہنچنے کے لئے 11999 ناٹیکل میل کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا جو22222 کلومیٹر بنتا ہے جبکہ گودار سے روٹرڈیم تک یہی فاصلہ 6785 ناٹیکل میل بنتا ہے جو12565 کلومیٹر بنتا ہے۔ اس پس منظر میں گوادر کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ رہی ہے۔

چین کے وسط سے یورپ ایشیاء بھیجنے کیلئے ٹوٹل 19132 میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس میں سینٹرل چین سے شنگھائی پورٹ تک زمینی راستہ2625 میل اور شنگھائی پورٹ سے یورپ تک کا بحری فاصلہ 16560میل ہے جس میں تقریباً 50 دن لگتے ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری مکمل ہونے کے بعد یہ فاصلہ کل 2295 میل رہ جائے گا جس میں زمینی فاصلہ 1750 میل اور سمندری فاصلہ 545 میل ہے جس کو طے کرنے میں صرف 17 دن لگیں گے۔ 40 فٹ کنٹینر کے شنگھائی سے ہیمبرگ بھیجنے میں تقریباً 3000 ڈالر فریٹ لگتا ہے۔جو کہ کم ہو کر صرف ایک ہزار ڈالر تک رہ جائے گا۔ اسی طرح ایک 40 فٹ کنٹینر ابوظہبی سے شنگھائی بھیجنے کی لاگت دو ہزار ڈالر ہے اور اس کو شنگھائی پہنچنے میں 16 دن لگتے ہیں۔ سی پیک کا راستہ کھلنے کے بعد اس امپورٹ کی لاگت اور وقت صرف ایک تہائی رہ جائے گا۔

سی پیک کے بعد چین کی اربوں ڈالر کی ایکسپورٹس اور مڈل ایسٹ سے اربوں ڈالر پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ صرف ایک تہائی وقت اور لاگت میں کی جاسکے گی جس سے چین کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ چینی کارگو کی پہلی بڑی آزمائشی شپمنٹ پاک چین راہداری سے 13 نومبر 2016ء کو بلوچستان کے راستے سی پیک راہداری اور گوادر پورٹ کے ذریعے کامیابی سے بحفاظت بھیجی جاچکی ہے۔

چائنا نے سینٹرل ایشیا ء میں اپنے مضبوط اثر و رسوخ کے لئے 1996 میں ’شنگھائی فائیو‘ (Shanghai Five) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس میں چین، روس، قازکستان،کرغستان اور تاجکستان شامل تھے۔ اس تنظیم کے بنیادی مقصد کا تعین وہ پہلا معاہدہ (Deepening Military Trust in Border Regions) کرتا ہے جس پر ان ممالک نے 26اپریل 1996کو شنگھائی میں دستخط کئے۔

اس معاہدے کا مقصد ایک ایسی تنظیم کا قیام تھا جو آپس کے سرحدی علاقوں میں دفاعی تعاون پر مشتمل تھا۔ 24اپریل 1997کو انہوں نے ماسکو میں ایک اور معاہدے (Treaty on Reduction of Military Forces in Border Regions) پر دستخط کئے جو سرحدی علاقوں میں افواج کی کمی سے متعلق تھا۔ شنگھائی فائیو کے اگلے دو سمٹ بالترتیب 1998 الماتے (قازکستان)، 1999بشکک (کرغزستان) میں کوئی قابل ذکر معاہدہ نہیں ہوا۔ 2000 کے سمٹ دوشنبے (تاجکستان) میں (oppose intervention in other countries) دوسرے ممالک میں مداخلت کی مخالفت اور انسانی حقوق(protecting human rights) کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔

2001 میں ازبکستان کی شمولیت کے ساتھ اس تنظیم کا نام بدل کر ’شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن‘ (Shanghai Cooperation Organisation) رکھا گیا اور اس کے مقاصد کو پھیلا کر یوریشین (Eurasian) ممالک میں سیاسی، معاشی اور دفاعی تعاون جیسے شعبوں میں مدد اور تعاون کی داغ بیل ڈالی گئی۔

اس کے علاوہ چین اور روس میں ایک معاہدہ (2001 Sino-Russian Treaty of Friendship) کا بیس سالہ معاہدہ ہوا۔

یہ معاہدہ بنیادی طورچین اور روس کے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کا معاہدہ تھا۔ چین نے اپنی معاشی برتری اور سینٹرل ایشیا تک آسان ترسیل جبکہ روس نے معیشت میں بہتری کی خاطر SCO کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

جولائی 2015 میں SCOنے فیصلہ کیا کہ پاکستان اور بھارت کو SCOکا باقاعدہ ممبر بنایا جائے۔ جون میں 2016 تاشقند میں پاکستان اور ہندوستان نے الحاق کے دستاویز(Memorandum on Accession)پر دستخط کئے۔ اس وقت SCO میں چار ممالک، افغانستان، بیلا روس، ایران اور منگولیا کو مبصر ممالک (Observer States) کی حیثیت حاصل ہے۔ چھ ممالک، آرمینیا، آزربائی جان، ترکی، سری لنکا،نیپال اور کمبوڈیا کو ڈائیلاگ پارٹنر (Dialogue Partners) کی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ تین ممالک، ترکمانستان، آسیان(ASEAN) اور سی آئی ایس (Commonwealth of Independent States) کو شریک مہمان(Guest Attendances)کی حیثیت حاصل ہے۔

بری راستوں کے حصے کو (Silk Road Economic Belt) کہا جاتا ہے جبکہ بحری راستوں کے حصے کو (Maritime Silk Road) کا نام دیا گیا ہے۔ SREB میں چھ بڑے اکنامک کاریڈورز(ان میں سے ایک سی پیک ہے)، ریلوے لائنز اور معاشی زون شامل ہیں۔ اس میں ایک تو پرانے سلک روٹ کو،جو مشرقی چائنا سے لے کر سنٹرل ایشیا ء سے گزرتے ہوئے یورپ تک جاتا تھا، کو دوبارہ سے بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں ایک روٹ سی پیک ہے۔ ایک روٹ نیپال، بنگلہ دیش اور انڈیا تک جاتا ہے۔ ایک سنیٹرل ایشیا سے ہوتے ہوئے یوریشیا(Eurasia) تک جا رہا ہے۔ ایک منگولیا تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک روٹ ایران سے ہوتے ہوئے ترکی اور یورپ کے دروازے سے ہوتا ہوا روس تک جا تا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریلوے لائن کو (New Eurasian Land Bridge) کہا جا رہا ہے جو چین کو سنٹرل ایشیا سے گزار کر سنٹرل یورپ کے تک اور مشرقی افریقہ سے ملا رہا ہے۔ چائنیز رپورٹوں کے مطابق اس منصوبے میں چین کے صوبہ (Lianyungang) سے یورپی ملک نیدر لینڈ کے شہر (Rotterdam) تک 11,870 کلومیٹر کی ریلوے لائن شامل ہے۔

اس منصوبے کا دوسرا حصہ MSR ہے جو بحری راستوں پر مشتمل ہے۔ یہ چین کے جنوبی ساحلوں سے لے کر ملائیشیا کے ساتھ ملاکا کے ساحل تک، ملاکا سے انڈونیشیا کے نیم خود مختار صوبے (ACEH) تک، اچے سے لے کر سری لنکا تک، سری لنکاسے یہ انڈین اوشین میں داخل ہوں گے۔ انڈین اوشین سے ایک طرف تو افریقہ میں کینیا تک جائیں گے، جبکہ اسی روٹ کے دائیں جانب خلیج عدن (Gulf of Aden)سے ہوتے ہوئے بحیرہ احمر(Red Sea) میں داخل ہوں گے اور وہاں سے بحیرہ روم(Mediterranean Sea) میں جائیں گے۔

اوبار(OBOR) کی بری سڑک(SREB) سینٹرل چائنا کے صوبے شانچی(Shaanxi) سے شروع ہو کر شمال مغربی صوبوں اورمچی(Urumqi) اور قورغاس(Khorgas) تک جا کر سینٹرل ایشیا کے شمالی حصے میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں سے یہ سڑک سنیٹرل ایشیا میں قازکستان، کرغستان، ازبکستان اور تاجکستان سے ہوتے ہوئے مغربی ایشیا میں ایران سے ہوتی ہوئی ترکی جاتی ہے۔

ترکی جغرافیہ کے لحاظ سے جنوب مشرقی یورپ اور جنوب مغربی ایشیاء میں بحیرہ روم (MediterraneanSea) کے شمال مشرقی آخر پر واقع ہے۔ یہاں سے یہ روس میں داخل ہوتی ہے۔ روس جغرافیائی حوالے سے شمالی یورشین(Northern Eurasian) ملک ہے جو مشرق میں یورپ تک پھیلا ہوا اور شمال میں ایشیا تک آتا ہے۔ روس سے یہ شمال مغربی یورپ (North Western Europe)میں داخل ہو کر نیدرلینڈ(Nederland) تک جاتی ہے۔ پھر یہ جنوبی یورپ (Southern Europe) کی طرف اٹلی تک آتی ہے۔ اوبار(OBOR) کا بحری راستہ(MSR) جنوبی چین کے ساحلوں سے شروع ہو کر جنوب مشرقی ایشیا میں ملائشیائاور انڈونیشیائسے ہوتے ہوئے انڈین اوشین میں سری لنکا تک، اور افریقہ کے بحری دروازے کینیا تک جاتا ہے۔ گوادر سے اس کا راستہ ہزاروں ناٹیکل میل کم ہو کر اس کو ایک جانب خلیج فارس(Persian Gulf) کے دروازے تک لے جاتا ہے۔ اور دوسری جانب خلیج عدن(Gulf of Aden) میں لے جا کر بحیرہ احمر(Red Sea) تک پہنچاتا ہے جس کے ایک جانب پورا عرب اور دوسری جانب افریقہ پڑا ہے۔ بحیرہ احمر سے یہ راستہ بحیرہ روم (Mediterranean Sea) میں یونان اور اٹلی تک جاتا ہے۔)

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے، جس کی تکمیل کے لئے 2030ء کا ہدف مقرر ہے۔ ہمیں اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر اسی منصبوبہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ملک سے غربت، بے روزگار کا خاتمہ، ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.