جنت ارضی کشمیر کی پہچان تو حسین وادیاں، بلند و بالا
پہاڑ، برف پوش پہاڑوں سے نکلتے پانی کے چشمے، پھولوں اور پھلوں سے لدے
درختوں پہ مشتمل باغات اور ان میں چہچہاتے رنگ برنگے پرندے، سر سبز و شاداب
کھیت کھلیان ہیں لیکن کشمیر کا ذکر آتے ہی زہن میں جو تصور آتا ہے اس میں
معصوم بچوں کی چیخیں، جوان بیٹوں کی لاشوں اور جوان بیٹیوں کی عصمت دری پر
ماں کیسسکیاں سامنیآتیہیں، ہزاروں خواتین کے چہروں کی بیرونقی بتاتی ہے کہ
شوہروں کے جیتے جی وہ بیوہ بن کر جینے پہ مجبور ہیں کیونکہ ہزاروں بیگناہ
کشمیری بھارتی جیلوں میں قید ہیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں جن کے انتظار میں
بیٹھی بہت سی غمگین مائیں اس دنیا سے ہی چلی گئیں بہت سی ماں کے آنسو ہی
خشک ہوگئے ان کی جگہ آنکھوں سے خون رستا ہے، لاکھوں مجبور لڑکیوں کی ویران
آنکھیں ان پر بھارتی فوجی کیمپس میں بیتی المناک کہانیاں سناتی ہیں،
دہائیوں سے جوان بیٹوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر وادء کشمیر کی حسین وادیوں سے
درد و الم کے گہرے دھویں اٹھتے دکھائی دیتے ہیں اگر کشمیر کی زبان ہوتی تو
وہ اپنا دکھ یوں بیان کرتا "صرف لاشے ہی لاشے میری گود میں ، کوئی پوچھے
میں کیوں اتنا غمگین ہوں" لیکن دنیا کے بیحس حکمران سیاسی و معاشی مفادات
کی بنا پر بھارتی ظلم و بربریت پہ مجرمانہ طور پر آنکھیں بند کیے ہوے ہیں،
انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوے مودی انتظامیہ نے
کشمیر کو غاصبانہ طور پر بھارت میں شامل کیا جوکہ اقوام متحدہ کی درجنوں
قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے لیکن انسانی حقوق کے چیمپئن سیاسی و
معاشی مفادات کی وجہ سے اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ ہونے کا تاثر دیتے رہے،
آٹھ ملین سے زائد مظلوم کشمیری قید کرلیے گئے مہینوں سے کشمیر میں بھارتی
ظالمانہ لاک ڈان رہا دنیا خاموش رہی آج قدرت نے ان تمام ریاستوں جو معاشی
مارکیٹ کی وجہ سے بھارتی سفاکیت پہ چپ سادھے ہوے تھے ان کی معیشت ان ہی کے
ہاتھوں تہس نہس کردی، قدرت والے نے آزاد ہوتے ہوے ان ریاستوں کو قید ہوکر
جینے پہ مجبور کردیا۔ کشمیر کی گھٹتی ہوئی بستیاں اور بڑھتے قبرستان دنیا
کے بیحس حکمرانوں کے ضمیر جھنجھوڑ رہے ہیں جن میں ایسی ایسی سفاکیت کی
کہانیاں دفن ہیں کہ سینے چیر ڈالیں، ایک انتہائی المناک اور بھارتی
دہشتگردی کی کہانی آج سے بیس سال پہلے کشمیر کے ضلع آننت ناگ کے گاں چِٹّی
سنگھ پورہ کی ہے جب امریکی صدر بل کلنٹن کے دورے سے ایک دن پہلے بھارتی
سرکار نے منصوبہ بندی کے تحت 36 بیگناہ کشمیری سکھوں کو بلی کا بکرہ بنایا
جس کا مقصد دنیا کی نظر میں کشمیری حریّت پسندوں کو دہشتگرد دکھانا تھا۔
بیس مارچ 2000ء کی شام بھارتی فوجی وردی میں ملبوس افراد نے چٹّی سنگھ پورہ
میں گوردوارہ سے عبادت کرکے لوٹنے والوں کو روکا اور پھر گھروں سے مرد
حضرات کو شناخت پریڈ کے نام پر باہر نکال کر اپنے ساتھ لے گئے، خوش قسمتی
سے اس سانحے میں بچ جانے والے نانک سنگھ کے بقول بھارتی دہشتگرد ان کو
گوردوارہ سنگھ سبہا سمندری ہال لے گئے جہاں ان کو لائن میں کھڑا کردیا اور
ایک ہوائی فائر کیا جوکہ کوڈ ورڈ تھا دوسری کمپنی کے لیے جس نے 17 بیگناہ
سکھوں کو شوقین محلہ گوردوارہ میں لائن اپ کر رکھا تھا اور اس کے بعد ان پر
سیدھی فائرنگ شروع کردی، نانک سنگھ نیچے معجزاتی طور پر گرگئے جسے کوئی بلٹ
نہ لگی لیکن باقی سب کو دس سے بارہ گولیاں لگیں، اس کے بعد بھارتی
دہشتگردوں نے آگے آکر تسلی کی کہ کوئی بچا تو نہیں ایک نے آواز دی "ایک اور
مارو سالوں کو، کوئی بچ نہ سکے" پھر ایک ایک فائر اور کیا جس میں ایک گولی
نانگ سنگھ کی ٹانگ میں پیوست ہوگئی، ہر طرف خون کے فوارے پھوٹے ہوے تھے،
زخمیوں کے منہ سے آہوں اور سسکیوں کی آوازیں نکل رہی تھیں، بقول نانگ سنگھ
بھارتی دہشتگرد "جے شری رام، جے ماتا کی، بھارت ماتا کی جے" نعرے لگاتے ہوے
چلے گئے، جب گاں والے وہاں پہنچے تو قیامت کا منظر تھا ان کی دنیا ہی لٹ
چکی تھی، ہر آنکھ اشکبار تھی، گھر گھر ماتم اور چیخ و پکار تھی، پورے چٹی
سنگھ پورہ میں ایک گاڑی بھی نہیں تھی جو کسی زخمی کو ہسپتال لے جاتے، بہت
سے زخمیوں نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی، کچھ ہی منٹوں میں 36 گھرانے اُجڑ گئے،
جہاں ایک طرف تو سکھ برادری غمگین تھی تو وہیں بھارتی سورما سکھوں کے خون
سے ہولی کھیل کر مسحور ہورہے تھے اور بل کلنٹن کے دورے کے موقع پر اس سانحے
کو دنیا کے سامنے پیش کررہے تھے، بھارتی وزیراعظم واجپائی صاحب نے واقعہ کا
زمہ دار لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کو قرار دیتے ہوے پاکستان پر الزام
لگایا، اس دلخراش سانحے کے پانچ دن بعد بیلگام بھارتی دہشتگرد فوج نے
پتھریبل میں پانچ معصوم سویلین کو جعلی مقابلے میں قتل کردیا جن کو سکھ
جینوسائڈ چٹی سنگھ پورہ کے کردار بتایا گیا اور شناخت پاکستانی دہشتگرد
بتائی گئی لیکن یہ جھوٹ جلد ہی سامنے آگیا جب ان کے لواحقین احتجاج پر نکل
آئے تو پتہ چلا کہ وہ دہشتگرد نہیں بلکہ عام بیگناہ سویلین تھے اور یہ
مقابلہ بھی جعلی مقابلہ تھا لیکن افسوس ثابت ہونے کے باوجود جعلی مقابلے
میں معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث فوجی افسران کو سزا سے استثنا قرار دیدیا
گیا، بھارتی فوج کی ڈھٹائی کا یہ عالم تھا کہ DNA کے لیے بھیجے جانے والے
سیمپل پانچوں خواتین کے نکلے جبکہ مقابلے میں مارے جانے والے مرد کشمیری
شہری تھے، 2017 میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) کے ایس گل نے جرنلسٹ جسنیت سنگھ کو
انٹرویو دیتے ہوے انکشاف کیا چٹّی سنگھ پورہ میں سکھوں کے قتل عام میں
بھارتی فوج ملوث تھی اور پتھریبل جعلی مقابلے میں بھی بھارتی فوج کا ہاتھ
تھا جسکی رپورٹ یونین منسٹر ایل کے ایڈوانی کو پیش کی گئی تھی اور مقصد
پاکستان و حریّت پسندوں کو بدنام کرنا تھا، بل کلنٹن نے اس وقت کہا تھا کہ
"افسوس اس کی وجہ سے بہت سی جانیں گئیں" لیکن افسوس اصلیت سامنے آنے کے
باوجود امریکہ نے بھارت کو لگام نہ دیا جس کے بعد ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں
جانیں بھارتی ظلم و جبر کی چکی میں پِس گئیں، پلوامہ حملہ بھی ایسی ہی ایک
سازش تھی جسے اہلیان مغرب نے فقط اپنے اسلاموفوبیا کے مرض کا شکار ہونے کی
وجہ سے تسلیم کرلیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھارتی ایجنسی را کا رچایا ہوا
ناکام منصوبہ تھا، سانحہ چٹّی سنگھ پورہ، پتھریبل جعلی مقابلہ جیسی بہت سی
مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں ہزاروں نہیں لاکھوں لوکل کشمیری بھارتی مکاری
کے عینی شاہد ہیں کہ کشمیر میں بھارتی فوج کھلی دہشتگردی کا ننگا ناچ لگائے
بیٹھی ہے اور ایسے جھوٹے ہتھکنڈے استعمال کرکے الزام پاکستان پر لگادیتے
ہیں، تُلسی گوبرڈ جیسی بہت سی ایسی آسامیاں ہیں جنکو بھارتی ریاست اور
ہندوتوا دہشتگردوں نے فنانس و سپورٹ کرکے بیرون ممالک میں بھارتی پروپیگنڈے
کے طور پر استعمال کررہے ہیں، نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار تُلسی
گوبرڈ دہلی میں ریاستی سرپرستی میں مسلم جینوسائڈ پر حرف تک نہ کہا جس کے
بعد اس کی مقروہ اصلیت دنیا کے سامنے آگئی ہے۔ سانحہ چٹّی سنگھ پورہ کے
متاثرین کی طرح لاکھوں افراد بھارتی دہشتگرد فوج اور ہندوتوا دہشتگردوں کی
ظلم و بربریت پر آج بھی انصاف کے منتظر ہیں جس کا بھارتی ریاست و عدلیہ سے
ملنا تو ناممکن ہے اب لازم ہے کہ بھارتی دہشتگردی کا مقدمہ انٹرنیشنل کرمنل
کورٹ میں لایا جائے تاکہ بیلگام بھیڑیوں کو نتھ ڈالی جاسکے۔
|