حکمرانوں کے بلندو بانگ دعوؤں سے لوگ وقتی طورپر خوش توہو
جاتے ہیں لیکن فقط دعوؤں کی بنیادپر کتنی دیر تک عوام کو بہلایا جا سکتاہے
ہمارے ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس کے باوجودجب بھی ماہ ِ صیام آتاہے
خوانچہ فروش سے دکاندارتک ہر شخص چھریاں تیز کرلیتا ہے ہرچیز کا ڈبل،ٹرپل
ریٹ ۔۔کبھی مہنگائی کا طوفان اور کبھی نا جائز منافع خوری کی سونامی ۔۔مقدس
ماہ صیام ہو عیدین کی آمدآمد ہوشربا مہنگائی سے عوام کے ہاتھوں کے طوطے اڑ
جاتے ہیں دکاندار اس اندازسے چیزیں مہنگی کرتے ہیں جیسے ان کے نزدیک یہ بھی
کوئی مذہبی فریضہ ہو۔ ماہ ِ صیام سے پہلے پیاز25-20روپے کلو تھا اب تگنی
قیمت پر فروخت ہورہاہے ابھی تک اس کے بھاؤ نہیں گرے۔حدہوگئی لہسن اور
ادرک350روپے کلو تک دھڑلے سے بیچا جارہاہے ادرک ،لہسن نہ ہوگئے کستوری
ہوگئی دالوں کاحال بھی مت پوچھئے صرف آلو سستے ہیں باقی دوسری سبزیوں کا
ریٹ اونچا اور عوام کا حال پتلاہے ۔ سیب ،انار اوردیگرفروٹ کا ریٹ اس قدر
بڑھ گیاہے غریب تو صرف حسرت سے دیکھتے گذر جاتے ہیں مباداکمزوردل شاید
قیمتیں سن کر بے ہوش نہ ہو جائیں۔ آٹے کے بحران کے بعدلگتا ہے چینی کا
بحران آئے گا اس آڑمیں نانبائیوں نے روٹی اور ناان کی قیمت بڑھا ڈالی لیکن
ان گراں فروشوں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے لگتاہے حکومت اور پرائس
کنٹرول کمیٹیوں کے کرتادھرتا امبی تان کر سو گئے ہیں اسی لئے گراں فروشوں
نے عوام کا براحال کررکھاہے لوگ ایک دوسرے سے پو چھتے پھررہے ہیں حکومت
کہاں ہے؟ انتظامیہ کہاں خواب خرگوش مزے سے سورہی ہے؟عوام نا جائزمنافع
خوروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں پھربھی ہمارے وزیرِ ِ اعلیٰ کا دعویٰ ہے نا
جائز منافع خوروں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے حالات تو ایسے ہیں وہ کیا
نمٹیں گے عوام گراں فروشوں کے ہاتھوں نمٹے جارہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں
وزیر ِ اعلیٰ عثمان بزدار نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے چھاپے مارنے کی
ہدایت کردی ہے لیکن وہ کہاں کہاں جائیں گے؟ کس کس شہر چھاپے ماریں گے؟ کس
کس کو پکڑیں گے۔پاکستان میں تو آوے کا آوابگڑاہواہے۔ نا جائز منافع خوروں
نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کررکھاہے جس طرح شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں
اور سماج دشمن عناصر کے خلاف اپریشن ردالفسادشروع کیا گیا ہے ملک بھر میں
مہنگائی کرنے والے نا جائز منافع خوروں کے خلاف ایک خوفناک اپریشن ضرب ِ
غضب یا اپریشن ردالفساد شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے ان لوگوں نے عوام سے
خوشیاں چھین لی ہے عام آدمی اور معصوم معصوم بچے فروٹ کو ترستے پھررہے ہیں
مگرمہنگائی کرنے والوں کو ذرا ترس نہیں آتادراصل یہ بڑے زمانہ ساز لوگ ہوتے
ہیں ملک میں جس پارٹی کی حکومت بنتی ہے بڑے بڑے تاجر،صنعتکاراورسرمایہ دار
اس پارٹی میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اب کون مائی کا لال ان کے
خلاف کارروائی کرے حکومت کچھ کرتی بھی ہے تو وہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے
مترادف ہوتاہے بیشتر اوقات ڈسٹری بیوٹر صاف بچ نکلتاہے اور قانون کی زدمیں
چھوٹا دکاندار آجاتاہے سزا اور جرمانے بھی اسی کو ہوتے ہیں سامنے کی بات ہے
اسے چیز جس حساب سے ملے گی فروخت بھی اسی مارجن سے کی جائے گی۔نا جائز
منافع خوری صرف اس صورت ختم کی جا سکتی ہے جب بے رحم اپریشن کی زدمیں جو
بھی آئے اسے معاف نہ کیا جائے دوسراپرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال بنایا
جائے اس میں اچھی شہرت کی حامل نیک نام شخصیات کو نہ صرف نمائیدگی دی جائے
بلکہ انہیں اختیارات بھی دئیے جائیں معیار اور مقدارپرسختی سے عمل کیا جائے
تو کوئی وجہ نہیں عوام کی داد رسی نہ ہو،صارف عدالتوں کا دائرہ کار وسیع
کیا جائے بلندو بانگ دعوے کرنااچھی بات سہی اس سے لوگ وقتی طورپر خوش توہو
جاتے ہیں لیکن فقط دعوؤں کی بنیادپر کتنی دیر تک عوام کو بہلایا جا سکتاہے
ہر قسم کی سیاست سے بالاترہو کر فیصلے کرنے سے ہی عوام کو ریلیف مل سکتاہے
عوام دعوے نہیں عملی اقدامات چاہتے ہیں اور عملی اقدامات کیلئے دعوے کرنے
کی ضرورت نہیں ہوتی۔
|