مشہور پاکستانی ڈراموں کی کہانیوں کے ایسے جھول جو دیکھنے والوں کو سر پیٹنے پر مجبور کردیں

image


پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت ہم سب کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے ہمارے ڈرامے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں نہ صرف دیکھے جاتے ہیں بلکہ سرحد پار ان ڈراموں کو بہت پسند بھی کیا جاتا ہے- ان ڈراموں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کا مضبوط پلاٹ ہوتا ہے ۔ ہمارے ڈراموں کی کہانیاں عام طور پر معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں اور حقیقت سے اس حد تک قریب ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے کو اپنے گھر کی کہانی لگتی ہے- مگر جیسے جیسے چینلز میں اضافہ ہوا ہے اس اعتبار سے بننے والے ڈراموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور مقدار کے اضافے کے سبب معیار میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے- اور یہ کمی واضح طور پر دیکھنے والوں کو نہ صرف نظر آتی ہے بلکہ ڈراموں کی کہانیوں میں ہونے والے بے وقوفانہ جھول کے سبب دیکھنے والے بھی تنقید کیے بنا نہیں رہ سکتے ایسے ہی کچھ مشہور ڈراموں کے بارے میں آج ہم آپ کو بتائيں گے جنہوں نے دیکھنے والوں کو بے وقوف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے-

1: ڈرامہ رسوائی
اس ڈرامے کے آغاز میں اس کی کہانی ایک بہت بڑے معاشرتی مسئلے کی جانب بتاتی نظر آئی- جس میں ایک ایسی لڑکی کی کہانی بیان کی گئی جو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے اور اس کے نتیجے میں جن جذباتی اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہے- اس کو اس کہانی میں اس کی مصنف نائلہ انصاری نے اس کرب کو بہت بہتر انداز میں بیان کیا اس کے ساتھ ساتھ اس حادثے کے شکار گھر والوں کا ردعمل بھی ہمارے معاشرے کے حوالے سے صحیح بیان کیا گیا- مگر جیسے جیسے اقساط آگے جاتی گئیں اس ڈرامے پر سے ڈرامہ نگار کی گرفت کمزور ہوتی گئی اور اس کہانی نے وٹے سٹے کی شادی کے مسائل کی شکل اختیار کر لی- جس میں اگر ایک لڑکی کے ساتھ جسمانی زیادتی کر کے اس کو اذیت دی گئی تو دوسری جانب دوسری لڑکی کا جرم یہ تھا کہ اس کی شادی بدلے میں ہوئی تھی اور یہ تمام ظلم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ عورتیں ہی تھیں- دوسرے لفظوں میں مصنفہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ جن مردوں نے زیادتی کی وہ ایک طرف مگر عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے کو اس سے زیادہ دکھ دیتی ہیں اس کے بعد سمیرا جو کہ اس ڈرامے میں اس لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اپنے ساتھ ہونے والے جرم کی سراسر ذمہ دار اپنے والد کو ہی سمجھتی رہی اور اسی دکھ میں اس کے والد موت کے منہ تک جا پہنچے- مگر سمیرا کے بھائی کو اپنی بہن کا رویہ نظر نہیں آتا اور وہ اپنے والد کی موت کی ذمہ داری اپنی بیوی پر ڈال کر بہن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یہ تمام رویے غیر فطری ہیں اور ان کو دیکھ کر ناظرین ایک کنفیوژن کا شکار ہیں کہ آخر مصنفہ چاہتی کیا ہیں-

image


2: ڈرامہ یہ دل میرا
ڈرامہ یہ دل میرا مشہور افسانہ نگار فرحت اشتیاق کا تحریر کردہ ہے اس ڈرامے کی کہانی ایک رومینٹک تھرل اسٹوری پر مبنی ہے- جس کی سب سے قابل توجہ چیز احد رضا میر اور سجل علی کی جوڑی تھی اس ڈرامے کی کہانی میں میر فاروق کا کردار ایک ایسے جرائم پیشہ امیر آدمی کا ہے جس نے ڈرامے کے ہیرو امان کے والدین کو قتل کیا تھا اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی بیوی کو بھی قتل کیا تھا ۔ میر فاروق کی بیٹی نے اپنی ماں کی موت کا منظر اپنی آنکھوں سے اپنی کم عمری میں دیکھا تھا جس کی یادیں اس کو اکثر آتی رہتی تھی- ڈرامے میں میر فاروق کو ایک ایسا محتاط انسان دکھایا گیا ہے جو کہ اپنے سایہ پر بھی یقین نہیں کرتا ہے جبکہ وہی میر فاروق اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے یہ بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتا ہے کہ امان کا خاندانی پس منظر کیا ہے اس کا ماضی کیا ہے- اس حوالے سے اس نے کسی بھی قسم کی تحقیق کرنا بھی گوارہ نہیں کیا اور اپنی بیٹی کو ایک اجنبی کے ساتھ روانہ کر دیا اس کے بعد شادی کے بعد بھی جس طرح ایک باپ اپنی بیٹی کی خیر خبر رکھتا ہے- ایسا بھی کچھ دیکھنے میں نہیں آرہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میر فاروق نے اپنے سر پر سے بیٹی کی صورت میں ایک بوجھ اتار دیا ہے جب کہ ڈرامے کے شروع میں یہ دکھایا گیا تھا کہ میر فاروق اپنی بیٹی کے حوالے سے بہت زیادہ حساس باپ ہیں-

image


3: ڈرامہ جھوٹی
ڈرامہ جھوٹی کے مصنف علی معین ہیں انہوں نے اس کہانی میں دو انتہائی درجے کے کردار پیش کیے ہیں جو عام طور پر ہمارے معاشرے میں دیکھنے میں نہیں آتے ہیں- ایک کردار جو کہ اقرا عزیز ادا کر رہی ہیں ایسی لڑکی کا کردار ہے جس میں لالچ جھوٹ بدتمیزی سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے جبکہ اس کے شوہر کا کردار ادا کرنے والے احمد علی بٹ شرافت اور محبت کے اعلی درجے پر فائز نظر آتے ہیں جو کہ اپنی اچھائی کے سبب اپنی بیوی کے ناجائز مطالبات بھی برداشت کر رہے ہیں سوال یہ ہے کہ ایسا مرد معاشرے میں ہمیں تو کہیں نظر نہیں آتا ہے- اس کے علاوہ ایک بچے کو اس کے ماں باپ پال پوس کر جوان کرتے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ انہیں اپنی اس بیٹی کے جھوٹ کا اندازہ نہیں ہوتا ہے اور وہ اس کے اپنے سسرال کے بارے میں بولے گئے- تمام جھوٹ پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف لکھنے والوں کو بے وقوف سمجھتا ہے-

image
YOU MAY ALSO LIKE: