اقوام عالم کے عروج وزوال کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات
روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قوموں کو سرفرازی، کامیابی وکامرانی،عظمت
وسربلندی اورعزت وافتخارکے بام عروج تک پہنچانے میں اتحادواتفاق،جذبہ
خیرسگالی اوراخوت وبھائی چارگی نے نہائت اہم کرداراداکیاہے۔عزت وافتخارکی
فلک بوس چوٹیوں سے ذلت ورسوائی،نکبت وپستی اورا نحطاط وتنزل کی رسواکن
وادیوں میں قومیں اس وقت جاگرتی ہیں جب باہمی اخوت و اتحادکی رسی
کمزورپڑجاتی ہے اورمعاشرے میں نااتفاقی،خود غرضی،ناانصافی اورعدم تعاون
جیسی مہلک بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں،جوقومی وسماجی بنیاد کودیمک کی طرح
چاٹ کر کھوکھلاکردیتی ہیں اورپورامعا شرہ عدم توازن سے دوچارہوکرانحطاط
وتنزل کی گہرائیوں میں گرپڑتا ہے ۔نتیجتاًپوری قوم بدامنی و
انارکی،انتشارولامرکزیت کاشکارہوکرذلت ورسوائی اوربے یقینی کی زندگی
بسرکرنے پرمجبور ہو جاتی ہے۔
اسلام نے اپنے پیروکاروں کوجن اہم امورکی طرف توجہ دلائی ہے اوران کوعملی
جامہ پہنانے کی ترغیب دی ہے ان میں باہمی اتحاد،قومی یکجہتی اور معاشرتی
اتفاق کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ایک قابل قدرمعاشرہ اورسماج اسی وقت وجودمیں آ
سکتاہے جب اسے ملک وقوم اورنسل ورنگ سے ہٹ کرایسے جامع اصول پرتشکیل
دیاجائے جس کواپنانے سےلوگوں کے دلوں میں یگانگت اوراپنائیت کاجذبہ
پیداہواورجس کے سامنے دیگرتمام ناقابل عمل امتیازات وخصوصیات معدوم ہوکررہ
جائیں۔ربِّ کریم نے اسی حقیقت کی طرف اپنی مقدس کتاب”قرآن کریم”میں خاص
اندازسے رہنمائی کی ہے:
؟اے لوگو!ہم نے تم کو ایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے اورتم کومختلف قوموں
اورمختلف خاندا نوں میں بنایاتاکہ ایک دوسرے کی شناخت کرسکو اللہ کے نزدیک
تم میں بڑا(شریف اورعزت دار)وہ ہے جوسب سے زیادہ پرہیزگارہو،اللہ خوب جا
ننے والا،باخبرہے۔(الحجرات:13)
اسلام چونکہ مساوات اوربھائی چارے کاپیغام دیتاہے،اس لئے اس دین میں بڑائی
اورعظمت کامعیارحسب ونسب پرنہیں،بلکہ تقویٰ اوراعمال صالحہ پر
رکھاگیاہے۔اسی مضمون کوقرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اللہ رب العزت نے
یوں بیان فرمایا ہے! “وہی ذات ہے جس نے تم کوپیدا کیا،تم میں بعض
کافراوربعض مومن ہیں”۔
اس آیت کریمہ کی تفسیرکرتے ہوئے مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں”اولادآدم علیہ
السلام سب ایک برادری ہیں اور پو ری دنیا کے انسان اسی برادری کے افراد
ہیں۔اس برادری کو الگ کرنے اور الگ گروہ بنانے بنانے والی چیز صرف
کفرہے۔رنگ اورزبان ، نسب اورخاندان،وطن اورملک میں سے کوئی چیزایسی نہیں
جوانسانی برادری کومختلف گروہوں میں بانٹ دے،ایک باپ کی اولاداگرمختلف
شہروں میں رہنے لگے اورمختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت
ہوتووہ الگ الگ گروہ نہیں بن جاتے،اختلاف رنگ وزبان اوروطن وملک کے
باوجودیہ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں،کوئی سمجھ دارانسان ان کومختلف گروہ
قرارنہیں دے سکتا۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیت اس پربھی شاہدہے کہ اللہ رب العزت نے تما م بنی
آدم کوصرف کافرومومن دوگروہوں میں تقسیم فرمایا ،اختلاف رنگ وزبان کوقرآن
کریم نے اللہ کی قدرت کاملہ کی نشانی اورانسان کیلئے بہت سے معاشی
فوائدپرمشتمل ہونے کی بناء پرایک عظیم نعمت توقراردیا،مگراسے بنی آدم میں
گروہ بندی کاذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی”(معارف القرآن4638)
اسلام نے جس ہمہ گیرپیمانے پرباہمی تعا ون کی اہمیت کااحساس دلایاہے،اس کی
بنیادپرقائم ہونے والامعاشرہ ایک صالح اور مستحکم معا شرہ ہوگا۔جس میں ملک
وقوم،رنگ ونسل،زبان ووطن اورخاندان کی بجائے ایمان ویقین،اخوت
ومساوات،تعاون و حمایت،ہمدردی وخیرخواہی اورصدق وامانت کے اعتراف اوراس
کوبرتنے کاجذبہ کارفرماہوگا۔قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے ان اصول وضوابط
پرجومعاشرہ تشکیل دیاتھاوہ ایک صالح اورمنظم معا شرہ تھا جس کاہرفرددوسرے
سے اس قدرمربوط تھا کہ حاکم ومحکوم،آقاوغلام کے مابین امتیازکرنامشکل
نظرآتا تھا۔کسی کودوسرے سے ممتازکرنے والی اگرکوئی صفت تھی تووہ اطاعت
خداوندی اورتقویٰ کی صفت تھی اوریہی اوصاف آج ہم میں مفقودہیں جس کی
بناءپرمسلمان قعرمذلت میں گرتاچلاجارہاہے،جبکہ آقائے نامدارتاجدارمدینہ
جناب محمد ﷺنے مختلف مواقع پر اس حقیقت کا اظہارفرمایاہے اورامّت کواطاعت
وتقویٰ کادرس دیاہے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرکی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول ﷺنے اپنی
اونٹنی پرسوارہوکرطواف فرمایا،طواف سے فارغ ہو کرآپۖﷺ نے یہ خطبہ
ارشادفرمایا “شکرہے اللہ کاجس نے رسوم جاہلیت اوراس کے تکبّرکوتم سے
دورکردیا،اب تمام انسا نوں کی دو قسمیں ہیں،ایک نیک اورمتقی،وہ اللہ کے
نزدیک شریف اورمحترم ہے، دوسرا فاجراورشقی،وہ اللہ کے نزدیک ذلیل اور حقیر
ہے،اس کے بعد یہ تلاوت فرمائی جو اوپر مذکورہے۔
ایک دوسری حدیث میں سرکاردوعالم ﷺنے نہائت ہی تہدیدآمیزکلمات اس سلسلے میں
ارشادفرمائے کہ”ہمارے زمرے سے خارج ہے جوعصبیت کی دعوت دے،وہ ہم سے نہیں
جوعصبیت کی بناءپرجدال وقتال کرے،وہ ہماری جماعت سے نہیں جس کاخاتمہ عصبیت
پرہو”(سنن ابوداؤد)
ایک اورحدیث میں آپ ﷺکاارشادگرامی ہے”کسی عربی کوعجمی پراورکسی عجمی کوکسی
عربی پر،نہ کسی گورے کوکالے پر اورنہ کسی کالے کوکسی گورے پرفضیلت ہے،تم سب
آدم کی اولادہواورآدم کومٹی سے پیداکیاگیاتھا”(مسند احمد)
مسلمانوں کی پستی اورذلت کی اصل وجہ جہاں احکام اسلام کی پیروی سے انحراف
ہے وہیں ایک بڑاسبب باہمی اختلاف وانتشار بھی ہے حالانکہ اتحادمیں وہ
فولادی قوت مضمرہے جس کے ذریعے پہا ڑوں سے ٹکرانے،طوفان کے مقابلے میں ڈٹ
جانے اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرمیں کودپڑنے کاجوش وولولہ
پیداہوتاہے،ہرمحاذپرپامردی اورثابت قدمی کانمونہ پیش کرنے کاجذبہ دل میں
موجزن رہتاہے اورجب اتحادکی جگہ انتشارلے لیتاہے تودلوں میں بزدلی آجاتی
ہے،پیروں میں جنبش آجاتی ہے،مقابلے کی قوت سلب ہوجاتی ہے۔اقبال نے بڑی اچھی
منظرکشی کی ہے!
ایک ہوجائیں توبن سکتے ہیں خورشیدمبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیابات بنے
کاش عصرحاضرکے مسلمان خصو صاًپاکستانی حکمران اپنی تنزلی اورپستی کے اسباب
پرغورکریں اوراپنے آپ کواسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کو شش کریں۔ اس روشن
خیالی سے جلدتائب ہوکراپنے اللہ کے حضورسچے دل سے توبہ واستغفارکیلئے جھک
جائیں،کیونکہ مسلمانوں کی بقاءصرف اورصرف اسلام کے پرچم تلے ہے نہ کہ
قصرسفیدکے فرعون کے احکام کی تعمیل میں۔ کامیابی اسلاف کی اتّباع اورماضی
کی روشنی میں حال تعمیرکرنے میں ہے۔دورماضی سے اس قدرقریب ہوں کہ قرون
اولیٰ کے مسلمانوں کی یادآئے۔پھرجومعاشرہ یاسماج وجودمیں آئے گاوہی
دنیاکاصالح اورمستحکم ترین معاشرہ ہوگااوراسی سے آپس میں بھائی چارگی
اوردوسروں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنے کاجذبہ پیداہوگااوریہی معاشرہ دنیا
کیلئے نجات دہندہ ثابت ہوگاانشاءاللہ
کیٹاگری میں : آج کاکالم، اسلام
|