قرار داد مقاصد ..... عہد کی تجدید کا دن

یوں ہر سال قرار داد مقاصد میں شامل نکات کو ہم فخریہ انداز میں دھراتے ہیں اور 23مارچ کے گزرتے ہی ان مقاصد کو ایک بار پھر بھول کر اسی ڈگر پر رواں ہوجاتے ہیں جو آجکل ہمارے حکمرانوں ‘ سیاست دانوں اور عوام کا مطمع نظر بن چکی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی قوم اپنے حقیقی مقاصد سے ہٹ کر نہ تو ترقی کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتی ہے ۔ یہ بات نہایت افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ اتنی تاریخی جدوجہد اور لازوال قربانیوں کا یہ ثمر"پاکستان"آج گوناگوں مسائل کی دلدل میں اترا ہوا دکھائی دیتا ہے ‘ کرپشن ‘ لوٹ مار اور نااہلیت کی وجہ سے اصل مقاصد اپنی اہمیت کھوتے چلے جارہے ہیں ‘ آزادی کی قیمت کیا ہے اس کے بارے میں پوچھنا ہو تو مقبوضہ وادی کشمیر کے مسلمانوں سے پوچھیں جو 232دن سے اجتماعی طور پر اپنے ہی گھروں میں قید وبند کی صعوبتیں نہ صرف برداشت کررہے ہیں بلکہ قابض بھارتی فوج کے ہاتھ ان کی عزت ‘ جان و مال ہر لمحے خطرے میں پڑے دکھائی دیتے ہیں ‘ کتنی ہی مائیں اپنے بیٹوں کو آزادی خاطر کھو چکی ہیں ‘ کتنے ہی سہاگ لٹ چکے ہیں ‘ بے گناہ اور معصوم مسلمان کشمیری بیٹیوں کے ساتھ بھارتی فوجی جو انتہائی توہین آمیز سلوک کررہے ہیں انکے بارے میں جان کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے ۔آزادی کی قدر اب ان بھارتی مسلمانوں سے بھی پوچھی جاسکتی ہے جن کا مودی حکومت نے جینا ہی دشوار کررکھا ہے ‘ نئے قانون کی آڑمیں بھارت میں صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں کی حیثیت کو ہی خطرے میں ڈال کر ایک ایسی راہ گامزن کردیا ہے جہاں سوائے آزادی حاصل کیے بغیر زندہ نہیں رہا جاسکتا ‘ بھارت کی تمام ریاستوں میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں ‘ وہ تعلیمی ادارے جو مسلمانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں بھارتی پولیس آئے روز وہاں ظلم و تشدد کی نئی داستان رقم کررہی ہے ۔رہی سہی کسر بھارتی انتہا ء پسند ہندووں نے بطور خاص دہلی کے مسلمانوں پر حملہ آور ہوا کر ان کے کاروبار اورگھروں کو اس طرح جلا کر راکھ کر دیا جیسے وہ مسلمان بھارت کے شہری نہ ہوں ۔ بھارتی پولیس حملہ آور غنڈوں کو روکنے کی بجائے خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی اور مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کی عزتوں کو گھر میں گھس کر پامال کیاجاتا رہا ۔ وہ آگ جس کے شعلے بھارتی دارالحکومت دہلی سے اٹھ رہے تھے اس کا دھواں آج بھی اٹھتا دکھائی دے رہا ہے ۔ متعصب بھارتی تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں مسلمان ‘ پاکستان کے ایجنٹ ہیں انہیں 1947ء میں ہی پاکستان چلے جانا چاہیئے تھا۔پاکستان کے حکمران اپنے دینی بھائیوں پر ہونے والے مظالم اور کھلے عام تشدد پر رنجیدہ ہیں لیکن ایٹمی جنگ سے بچنے کے لیے صبر کا گھونٹ پی کر صرف چند احتجاجی مراسلوں اور بیانات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ مشرقی پاکستان‘ نام تبدیل کرکے بنگلہ دیش تو بن چکا ہے لیکن وہاں کی عوام کے خون میں اب بھی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان سے محبت کے اثرات باقی ہیں انہوں نے اپنے احتجاج سے پورے بنگلہ دیش کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ‘مجبوری کے طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا ۔اور حسینہ واجد کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

اﷲ کے فضل و کرم ‘ قائد اعظم کی مسلسل اور پرعزم جدوجہد کے نتیجے میں بالاخر 14اگست 1947کو پاکستان ایک آزاد وطن کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آگیا یہ آزادی قرار داد مقاصد کی مرہون منت ہی تھی ۔ چلتے چلتے قرار داد مقاصد پر بھی مختصر روشنی ڈالتا چلوں ۔اس کے باوجود کہ پاکستان کی تحریک بہت پہلے شروع ہوچکی تھی مگر حقیقت میں 23مارچ 1940ء کے تاریخ ساز دن ہی پہلی بار لاکھوں کے اجتماع میں مسلمانان ہند کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل باضابطہ طور پرایک آزاد وطن کامطالبہ کیا گیا ۔منٹو پارک لاہور میں ہونے والا یہ اجتماع آل انڈیا مسلم لیگ کا 34واں سالانہ اجلاس تھا جو 22 سے 23مارچ 1940ء تک جاری رہا ۔ اس عظیم الشان اجلاس کی صدارت حضر ت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمائی جس میں نواب سرشاہ نواز ممدوٹ نے استقبالیہ خطبہ دیا اور اے کے فضل حق نے تاریخ ساز قرار داد لاہور پیش کی ۔ اسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا کہ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کاہرگز نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ بین الاقوامی ہے ۔جب تک اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھاجاتا ‘ جو بھی دستور بنا وہ چل نہیں سکتا ۔اسی اجلاس میں منظور ہونے والی قراردادکانام "قرار داد پاکستان "رکھاگیا ۔اسی قرار داد کی روشنی میں آگے چل کر مشرقی اور مغربی پاکستان معرض وجودمیں آئے ۔بے شک ان دونوں میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھالیکن دونوں حصوں کی عوام ایک مضبوط رشتے ( اسلام ) میں بندھے ہوئے تھے اور یہ رشتہ آج بھی ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں ممد و معاون ثابت ہورہا ہے ۔آج کے دن میں اس عہد کی تجدید کرتے ہوئے صرف یہی کہوں گا کہ جس جذبے ‘ ولولے اور خلوص کو مدنظر رکھ کر آزاد وطن حاصل کیاگیا تھا ‘ حضرت قائداعظم ؒ اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد جتنے بھی حکمران وطن عزیزکو نصیب ہوئے ‘سب اپنے اپنے مقاصد اور ذاتی ایجنڈا لے کر برسراقتدار آتے رہے اور اپنی تجوریوں کو بھر کر رخصت ہوتے رہے‘ کسی نے قرار داد مقاصد کے نکات کو پیش نظر نہیں رکھا۔ ‘ قائداعظم کی تصویر اور نام کو تو ہم نے اپنی شہرت کے لیے بہت استعمال کرلیا لیکن قائداعظم کے ارشادات ‘ اقوال زریں پر عمل کرنے کی نوبت نہ آسکی ۔ 1947میں ہم پہلے مسلمان پھر پاکستانی تھے لیکن آج ہم سندھی ‘ پنجابی ‘ پٹھان ‘ بلوچ قوموں میں تقسیم ہوکر اپنے اتحاد ‘ یقین محکم اور بھائی چارہ کے قلعے میں خود دراڑیں پیدا کرچکے ہیں ‘ انہی اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے دشمن ہمارے ذہنوں میں تفرقہ بازی اور قومیت کا زہر گھولنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ قرار داد مقاصد کو مدنظر رکھ کر ہی پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک غیرت مند ‘ آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ رکھا جاسکتاہے ۔


 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 662299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.