کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کوممتاز شخصیات
حیاتیاتی ہتھیار کا حملہ قرار دینے لگی ہے۔ اس نظریئے کو تیزی کے ساتھ فروغ
دیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کوترقی کی جانب گامزن ممالک کی معاشی تباہی
کے لئے استعمال کیا گیا ۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اسباب میں دو نظریاتی
قیاس آرائیاں عروج پر ہیں، کہ کوویڈ19کے پھیلاؤ میں جانوروں کو استعمال کیا
گیا تو دوسری جانب حیاتیاتی ہتھیاروں کی لیبارٹری سے وائرس کے لیک ہوا ۔
امریکی سائنسی جریدے نے دنیا کے ممتاز سیاست دان کی رائے سے نتیجہ اخذ کیا
گیا کہ کورونا روائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے ، تاہم دوسری جانب ماہر امراض
اور حیاتیاتی دفاعی ماہرین اس مفروضے کو یکسر مسترد ررہے ہیں ، ا ن کا
ماننا ہے کہ یہ ایک سازشی نظریہ و پروپیگنڈا ہے جس کا مقصد کورونا وائرس کے
خلاف اقدامات کی کوششوں کو کمزور کرنا ہے۔ جریدے ’’نیچر‘‘کے ایک مضمون کے
مطابق پینگولین سے یہ وائرس پھیلا، ’’بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹز‘‘ کے
مطابق ممتاز سیاست دانوں کے خیال میں کورونا وائرس دراصل ایک’’حیاتیاتی
ہتھیار‘‘ ہے۔ امریکی سینیٹر ٹام کاٹن کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس پھیلانے کے
پیچھے چین کا ہاتھ ہے، برطانوی اخبار ایکسپریس میں شائع ایک مقالے کے مطابق
امریکا کی الینوائزیونیورسٹی کے پروفیسر فرانسس بوائل نے ایک اسموکنگ گن کی
نشاندہی کی جس میں دکھایا گیا کہ کرونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے جو
ووہان کی لیبارٹری سے مبینہ طور پر لیک ہوا۔بوائل نے مبینہ طور پر سائنس
ڈائرکٹ کے ایک مقالے پر اپنے نظریہ کی بنیاد رکھی۔ ایرانی عہدیداروں نے بھی
کرونا وائرس کو حیاتیاتی ہتھیار قرار دیا۔
دوسری جانب اس نظریئے کا رد بھی سامنے آرہا ہے کہ کورونا وائرس چین سے
پھیلا ،امریکا میں وبائی امراض پر قابو پانے اور اس کے انسداد کے مرکز سی
ڈی سی کے ڈائریکٹر رابرٹ ریڈ فیلڈ نے ایوان نمائندگان میں سماعت کے دوران
اعتراف کیا امریکا میں جزیرہ ہوائی کی سیر کرکے آنے والے جوڑے جاپانی جوڑے
میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ21فروری کو جاپان
کے آساہی ٹیلی ویژن میں جب اس امر پر شک کا اظہار کیا گیا کہ امریکا میں
مریضوں کو تشخیص کیا گیا تھا تو سی ڈی سی نے پہلے سختی سے اس دعوے کو مسترد
کیا بعدازاں 20دن بعد ڈائریکٹر نے تسلیم کرلیا۔ چین نے حیاتیاتی ہتھیار کے
مفروضے پر اپنے تحفظات کا بھی باقاعدہ اظہار بھی کردیا ہے کہ اس بیماری کے
وائرس چین میں آنے میں امریکا ملوث ہے۔ علاوہ ازیں چین میں وائرس منظر عام
پر آنے سے قبل ہی امریکا میں وائرس موجود تھا ۔ اس پہلو کو سامنے لایا گیا
کہ امریکہ میں فلو سیزن ستمبر دو ہزار انیس سے شروع ہوا۔اکتوبر میں امریکی
فوجی کھلاڑی ملٹری گیمز میں شرکت کے لیے وو ہان آئے جس کے دوران دیگر
غیرملکی کھلاڑی بیرونِ ملک سے آئی ہوئی وبائی بیماری کا شکار ہوئے۔دسمبر
میں وو ہان میں کووڈ۱۹- کا پہلا کیس سامنے آیا۔ جولائی 2019 میں فورٹ
ڈیٹریک میں امریکی فوج کا وبائی امراض پر تحقیق کرنے والا خفیہ ترین طبی
ادارہ بند کر دیا گیا۔ تائیوان علاقے میں کچھ سائنسدانوں نے چین، ایران اور
اٹلی میں وائرس کے ڈی این اے کے بارے میں تحقیق کی جس سے ظاہرہوا کہ ایران
اور اٹلی میں پھیلنے والے کورونا وائرس کا ڈی این اے چین میں پھیلے وائرس
سے مختلف ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وائرس کا منبع چین میں نہیں۔
کوویڈ 19 کے انفیکشن سے متاثرہ افراد اور اموات میں اضافہ اور اس سے مفلوج
روزمرہ زندگی قیاس آرائیوں کے پھیلنے کا باعث بن رہی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ
ان تمام قیاس آرائیوں کے بعد اب اس مطالبے پر زور دیا جارہا ہے کہ عالمی
ادارے اس اَمر کی تحقیق کریں کہ کورونا وائرس سب سے پہلے کس ملک میں منظر
عام پر آیا ، یہ اَمر بھی غور طلب ہے کہ وائرس سے شدید متاثرہ ممالک میں
کورونا کا ڈی این اے مختلف کیوں ہے ۔کیا ان قیاس آرائیوں کے بنیادی مقاصد
میں چین کی معیشت کو نقصان پہنچانا تھا جو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی
قوت ہے ، یا پھر ایک ایسی عالمی سازش تیار کی گئی جس کے تحت وائرس کے خوف
سے معاشی کمزور ممالک کی اقتصادیات کو مزید ابتر کرنا مقصود ہے ۔ یہ اَمر
تو طے ہے کہ ترقی یافتہ ممالک مالی نقصانات پر جلد قابو پالیں گے ، تاہم
ترقی پزیر ممالک جو اپنے معاشی دشواریوں کو دور کرنے کی کوششوں میں مصروف
تھے ، انہیں بدترین معاشی حالات کا سامنا ہوگا ۔ جس کا پورا فائدہ عالمی
مالیاتی اداروں کو ملے گا ، جو من پسند شرائط پر قرضوں میں جکڑے ممالک کو
اپنی کالونی بناسکتا ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کو مہلک جراثیم ہتھیار قرار
دیاجاتا ہے ، خفیہ طور پر جراثیمی ہتھیاروں کو بنانے کی پابندی1925سے عائد
ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ جنگی لحاظ سے حیاتیاتی ہتھیار کو
بڑا موثر قرار دیا جاتا ہے جس سے جراثیم تیزی کے ساتھ انسانوں میں پھلتے
ہیں ، تاہم اس قسم کے ہتھیاربنانے والے توڑ بھی بناتے ہیں جو مخصوص حالات و
معاملات کے حصول کے بعد استعمال کئے جاتے ہیں۔ حیاتیاتی ہتھیار سب سے سے
پہلے امریکا اور برطانیہ نے تیار کئے تھے ، اس وقت جراثیمی تحقیقاتی ادارے
کے مطابق 17ممالک جراثیمی ہتھیار بنارہے ہیں، ان میں بھارت ، اسرائیل،
شمالی کوریا ، روس، ایران ، عراق ،شام، مصر ، چین ،ویت نام ، لاوس ، کیوبا
بلغاریہ ، جنوبی افریقہ، لیبیا ، جنوبی کوریا اور تائیوان پر شبہات ہیں۔
حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار کرنا زمانہ قدیم سے استعمال کئے جاتے ہیں، جس
میں دشمن کے پانی کے ذرائع کو زھر آلود کرنا، پانی کے ذرائع میں فنجس اور
ایسے پودے ڈالناکہ پینے والے بیمار ہو جائیں یا مر جائیں۔ طاعون کے مریضوں
کی لاشوں کو دشمن کے علاقے میں پہنچا نا۔) 1710 میں روس نے سویڈن کے ساتھ
جنگ میں ایسا ہی کیا)۔ امریکا میں بھی یورپ نے بیماریاں پھیلائیں جن سے
لاکھوں کی تعداد میں امریکی قدیمی باشندے مرے۔ اس کا تذکرہ لارڈ جیفرے
ایمھرسٹ نے کیا کہ 1756-1763 میں فرانسیسیوں نے امریکا کے قدیمی باشندوں
(ریڈ انڈین) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے یعنی انھیں
ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جن کو خسرہ تھی۔ ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ
ھنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر بیچے۔ بیسویں صدی
میں امریکا میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم
جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے جن میں انتھراکس جیسے جراثیم شامل تھے۔ سرد
جنگ کے دوران امریکا اور روس نے اس میدان میں بہت تحقیق کی اور متعدد
جراثیم اور ان کے توڑ تیار کیے۔ کوریا کی جنگ (1950-1953) کے دوران امریکا
نے ان ہتھیاروں کو استعمال بھی کیا۔ امریکا نے ہمیشہ ایسے الزامات سے انکار
کیا ہے۔ستمبر 2001 میں امریکا خود ایسے ہتھیاروں کا شکار ہونے لگا تھا جب
امریکی کانگرس اور دوسرے مشہور لوگوں اور دفاتر کو ایسے خط ملے جن میں
انتھراکس کے جراثیم پاؤڈر کی شکل میں موجود تھا۔
ایڈز کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ امریکا میں انسانی ہاتھوں نے تیار
کئے تھے۔ایڈز کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ امریکا نے اپنی ایک
فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے تھے۔ یہ فوجی تجربہ گاہ فورٹ ڈسٹرکٹ، میری
لینڈ، امریکا میں واقع ہے۔ اور USAMRIID کہلاتی ہے۔ یہ صرف ایک سازشی نظریہ
نہیں بلکہ امریکا اور مغربی دنیا کے بے شمار لوگ اس کے قائل ہیں اور اس
سلسلے میں ان کی تحقیق بھی موجود ہے مثلاًھیمبولٹ یونیورسٹی، جرمنی کے
پروفیسر جیکب سیگل کی تحقیق کے مطابق امریکی فوجی تجربہ گاہ میں یہ عمل دو
جرثوموں Visna اور HTLV-1 کی مدد سے 1977 میں کیا گیا۔ نوبل انعام یافتہ
ونگاری متھائی ،مصنف ڈاکٹر ایلن کینٹول¡ ڈاکٹر وولف زمونس اورڈاکٹر لیونارڈ
ہوروز نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایڈز کا جرثومہ امریکی فوجی تجربات کی
پیداوار ہے۔ضرورت اس اَمر کی ہے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اصل اسباب کو
دنیا کے سامنے لایا جائے ، تاکہ انسانیت کے خلاف کسی مبینہ سازش کو بے نقاب
کیا جاسکے یا وائرس کے بارے میں ابہام اور بے یقینی کو دور کیا جاسکے۔آئی
سی جے یا آئی سی سی کے زیراہتمام بین الاقوامی تحقیقات میں مطالبہ کیا گیا
ہے کہ حقیقت کا پتہ اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنا
ضروری ہے۔ |