سفیر اقبال
نظریہ پاکستان... حقیقت میں صرف نظریہ ہی نہیں ایک نصب العین ہے... ایک
وعدہ ہے اور ایک یقین ہے. یہی نظریہ تھا جس کی بنیاد پر لاکھوں مسلمانوں نے
قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی... اپنا گھر اپنی مٹی اپنا مال اپنی جائداد
آور اپنے پیاروں کو چھوڑا...اپنے دین کی سلامتی کے لئے.... اپنے ایمان کی
حفاظت کے لیے... اپنی اولاد کے پر یقین مستقبل کے لئے... تپتے صحراؤں میں
ایک پرسکون سجدے کے لیے... اور جنت الفردوس کے میٹھے چشموں کے لیے.
انہیں یقین تھا کہ اگر مسلمان رہنا ہے... مسلمان جینا ہے اور مسلمان مرنا
ہے تو یہ نظریہ اپنانا پڑے گا ورنہ اس نظریے کو چھوڑ کر نہ سعادت کی زندگی
ملے گی اور نہ شہادت کی موت...! نہ دنیا ملے گی اور نہ ہی آخرت. نہ دین
اسلام ملے گا نہ ایمان...! وہ لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گئے اور
اس نظریہ کے محافظ بن گئے. آور اس نظریہ کی ہی بدولت آج وہ اسلامی دنیا کی
قیادت کر رہے ہیں...!
اس نظریہ پر بار بار حملے ہوئے.... بار بار اسے دفن کرنے.... اسے ڈبونے کی
کوشش کی گئی لیکن جتنی کوشش کی گئی اتنا ہی یہ ابھر کر سامنے آتا رہا. اس
نظریہ کا ہر دشمن فنا ہوتا رہا اور یہ نظریہ کبھی نہ فنا ہوا. دہلی کی
یونیورسٹیوں میں تکبیر کے نعروں سے لیکر افغانستان میں روسی اور امریکی
شکست تک... کشمیر کے لالہ زاروں سے لیکر بنگلہ دیش کے مرغزاروں تک.... یہ
نظریہ پوری امت مسلمہ کے لیے راہ نجات بھی ہے، فتح کی امید بھی اور سلامتی
کا ضامن بھی.
اسی نظریہ کی بدولت کل بھی امت مسلمہ کو ایک ملک انعام ملا اور آج بھی یہی
نظریہ اتحاد اور سلامتی کی امید ہے. اس نظریہ نے پہلے افغانستان میں روس
کو... اور پھر امریکہ کو توڑا اور اب بھارت بھی اسی نظریہ کی بیداری سے
خائف اور پریشان ہے.
تاریخ شاہد ہے کہ جس جس نے بھی یہ نظریہ جانا اور مانا... دنیا میں فتح وہ
کامیابی نے اس کے قدم چومے آور جس نے بھی اس سے انکار کیا صرف وہی نہیں
بلکہ اس کی نسلیں بھی ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں.
اگر آج ہم دنیا اور آخرت میں عظمتیں اور بلندیاں چاہتے ہیں تو اس نظریہ کو
اپنائے بغیر کچھر ممکن نہیں. اس لیے ضرورت ہے کہ آج بھی اسی طرح متحد ہو کر
اسی نظریہ پاکستان پر عمل کر کے قیام پاکستان کی طرح ہم سب تکمیل پاکستان
کے لیے کوشش کریں. اور حقیقی معنوں میں پاکستان کو اسلام کا قلعہ ثابت
کریں.
|