بھارتی مسلمانوں پرنریندر مودی کی بربر یت پر چشمِ فلک تو
نم ہو سکتی ہے لیکن مسلم امہ کے قائدین کی آنکھوں میں آنسوؤں کا کوئی شائبہ
نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے ذاتی مفادات ان کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے ہیں
۔کیا بھارت پر ایک ہزار سال تک حکومت کرنے والی قوم پر ایسا وقت بھی آنا
تھا کہ اس کا خون گاؤ ماتا کے خون سے بھی ارزاں ہو جاتا ؟ دہلی کی سڑکوں پر
مسلم خون بہانے کے جو دلخراش مناظر دیکھے گئے ترقی یافتہ دور میں اس کا
تصور بھی محال ہے۔جمہوریت کا راگ الاپنے والی قوم اپنے ہی ہموطنوں کو جس بے
دردی سے ذبح کر رہی ہے وہ انسایت کشی کا ایک ایسا نوحہ ہے جس پر جتنا بھی
ماتم کیا جائے کم ہے۔اختلافِ رائے کی کیا یہی سزا ہے کہ اپنے مخالفین کو
زندہ در گور کر دیا جائے ؟شہریت بل پر اختلاف کوئی اتنا بڑا واقعہ نہیں تھا
جس پر دہلی کی سڑکوں کو لہو سے تر بتر کیا جاتا ۔امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ نے
بھی مسلمانوں کے خلاف ایسا ہی متعصب قانون بنایا تھا لیکن وہاں پر مظاہرہ
کرنے والوں کے ساتھ ایسا سفاکانہ سلوک روا نہیں رکھا گیا تھا۔نائین الیون
کے تناظر اور خلیجی جنگ میں امریکی مداخلت کے خلاف سب سے بڑے جلوس یورپ اور
امریکہ میں نکلے تھے لیکن وہاں کی حکومتوں نے کسی قسم کا تشدد یا خون بہانے
کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ عوام کو پر امن احتجاج کا حق عطا کر کے ان کے جان
و مال کی حفاظت کی تھی۔اختلاف کو برداشت کرنا ہی جمہوریت کی حقیقی روح
ہے۔یہ سچ ہے کہ برِ صغیر اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک ایسا خطہ ہے جہاں پر
غیرت کے نام پر قتل کردینا معمول کے وقعات ہیں حالانکہ یورپ میں غیرت کے
نام پر قتل کرنے کا تصور وہم و گمان سے ماورا ہے لیکن اس کے باوجود انسانی
حرمت تو ہر جگہ مسلمہ ہے۔انسانی خون کی توقیر کسی بھی مہذب معاشرے کا طرہِ
امتیاز ہو تا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یورپ میں احتجاج پر انسانی جان کو
مکرم سمجھا جائے لیکن برِ صغیر میں احتجاج پر اسے تہہ تیغ کرنا باعثِ توقیر
سمجھا جائے۔احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا
دعویدار نریندر مودی احتجاج کرنے والوں کو موت کا تحفہ دے کر یہ ثابت کرنا
چاہتا ہے کہ ریاست کی رٹ انسانی جان سے زیادہ اہم ہے۔،۔
خالصتان تحریک جب اپنے زوروں پر تھی اور بھارتی پنجاب پر تشدد واقعات کی
آماجگاہ بنا ہوا تھا تو اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے بلو اپریشن
سے گولڈن ٹیمپل کے درو ویوار کو خون سے رنگین کر دیا تھا۔جرنیل سنگھ
بھنڈراوالا اپنے ہزاروں ساتھوں سمیت گولڈن ٹمپل میں جان کی بازی ہار گیا
تھا۔اس کی موت پر سکھوں نے مسز اندراگا ندھی کے قتل سے اپنے انتقام کی پیاس
بجھائی تھی۔سکھوں کا مسئلہ ایک آزاد ریاست کے قیام کا تھا جو ریاست سے
بغاوت کے زمرے میں آتا تھا جس پرحکو مت کا خا موش رہنا ممکن نہیں تھا ۔
لیکن بھارتی مسلمان تو ایسی کسی بغاوت کے سزاوار نہیں تو پھر ان پر ریاستی
جبرو تشدد چہ معنی دارد؟مسلمان تو بھارتی آئین کے وفادار ہیں اور آئینی
حدود میں رہ کر اپنے حقو ق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔انھوں نے تو کبھی علیحدہ وطن
کا مطالبہ نہیں کیااور نہ ہی تشدد کی راہ اپنائی ہے ۔وہ پر امن جدو جہد کے
علمبردار ہیں جس کی اجازت آئین قانون کی کتابوں میں مرقوم ہے۔مولانا ابو
الکلام آزاد کے پیرو کاروں پر ریاستی جبرو تشدد کا کوئی جواز نہیں ۔یہ وہ
لوگ ہیں جو تقسیمِ ہند کے مخالف تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے
۔وہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور مہاتما گاندھی کے کاروانِ آزادی
کے بے لوث سپاہی تھے لہذا ان کے ساتھ اس طرح کا سفاکانہ رویہ سمجھ سے بالا
تر ہے۔اگر آج ابو الکلام آزاد زندہ ہوتے تو وہ نریندر مودی کی سفاکانہ روش
کے سب سے بڑے ناقد ہوتے ۔انھوں نے جس فکر کی آبیاری کی تھی وہ وقت کے
طوفانوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی ہے۔وہ جس بھائی چارے کے داعی تھے وقت
نے اس کا خون کر دیا ہے۔تاریخ کے جبر نے عظیم مفکر علامہ محمد اقبال کی
فکری سوچ اور دور نگاہی کی برتری کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان کی چشمِ بینا وہ
سب کچھ دیکھ رہی تھی جس کا مشاہدہ ہم آج کر رہے ہیں۔ان کا دسمبر ۱۹۳۰میں
الہ آباد کا خطبہ انہی واقعات کا احاطہ کرتا ہے جس کا سامنا بھارتی
مسلمانوں کو ہے۔اس وقت علیحدگی کے علمبرداروں کو گاؤ ماتا کے دشمن کہنے
والے اپنے ہی ہموطنوں کی سنگینوں سے ذبح ہو رہے ہیں۔ان کے بچے اور عورتیں
ان وحشی درندوں کی سنگینوں کی نوکوں پر ہیں جھنوں نے انھیں برابری کا
جھانسہ دیا تھا۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام کا منتر ان مسلمان زعماء کو
اپنے سحر میں جکڑ کرنے میں کامیاب ہو گیا جسے ایک نہ ایک دن مسلمانوں کے
قتل پر منتج ہو نا تھا۔ابو الکلام آزاد ،باچہ خان، حسین احمد مدنی،علامہ
عنائیت اﷲ مشرقی اور عطاﷲ شاہ بخاری ہندو کی عیاری کو سمجھنے سے قاصر
تھے۔وہ یہ نہ دیکھ پائے کہ آنے والے زمانوں میں مسلمانوں کا مستقبل کیا
ہوگا؟ کیا ہندوترا کے پجاری ان کے وجود کو برداشت کر پائیں گے ؟ کیا
مسلمانوں کی مذہبی نسبت ان کی بربادی کی داستان بن جائے گی ؟کیا انتقام کی
شمشیر کو نیام میں رکھا جا سکے گا؟ بڑے قائدین کے فیصلے ایک مخصوص وقت کے
لئے نہیں ہوتے انھیں کسی خاص دور تک مقید نہیں کیا جا سکتا۔ان کے فیصلے آنے
والی نسلوں کے مقدر سے جڑے ہوتے ہیں۔علامہ اقبال نے جو فکری جست لگائی تھی
اس کا مقصد بھی مسلمانوں کا مستقبل محفوظ کرنا تھا۔فلسفے اور تاریخ کے ایک
سچے پیرو کار کی حیثیت سے انھیں یقین تھا کہ برِ صغیر کے مسلمانوں کا
مستقبل ایک آزاد اسلامی ریاست میں ہی محفوظ ہو سکتا ہے۔ان کے دئے گئے
تاریخی خطبہ کی روح کو کئی سالوں تک تو سمجھا ہی نہ گیا۔اس خطبہ کو وہ مقام
ہی نہ دیا گیا جس کا وہ مستحق تھا ۔ ۱۹۳۷کے انتخابات نہ ہوتے تو شائد یہ
خطبہ اپنی موت آپ مر جاتا ۔یہ تو ان انتخابات کا کمال تھا کہ مسلمانوں کو
ہندو ازم کا اصلی چہرہ دیکھنا نصیب ہوا۔ کانگریسی حکومتوں نے جس طرح
مسلمانوں کو ہندوترا کے سفاک جال میں پھانسا تھا اس نے مسلمانوں کی آنکھیں
کھول دیں ۔ یہ الگ بات کے مسلمان زعماء کو پھر بھی ہندو کی مکاری نظر نہ
آئی اور وہ تسلسل سے علامہ اقبال کی فکر کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔
چشمِ بینا کر خدا سے طلب ۔،۔، آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
قد آور شخصیات میں عصری مسابقت کا عنصر بڑا جاندار ہو تا ہے لہذا ذاتی
چپقلش کی بناء پر علامہ اقبال کی عظمت کو سرِ عام تسلیم کرنا ان زعماء کے
پندارِ نفس کیلئے ممکن نہیں تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ الہ آباد کا خطبہ
سیاسی توجہ کا مستحق نہ ٹھہرا۔لیکن جب تاریکی بڑھ جائے اور اندھیرے سب کو
دبوچ لیں تو پھر روشنی کی کرن وقت کی آواز بن جاتی ہے۔علامہ اقبال کا خطبہ
بھی روشنی کی ایک ایسی ہی کرن تھاجو مسلمانوں کو تاریکی سے نجات دلانے کی
سب سے بڑی کاوش تھی ۔ اندھیروں کو کافور کرناا س خطبہ کے بغیر ممکن نہیں
تھا لہذا مسلم لیگ کو بھی اس خطبہ کی جانب راغب ہونا پڑا ۔قائدِ اعظم محمد
علی جناح کی عظمت کیلئے یہی کافی ہے کہ انھوں نے الہ آباد کے خطبہ میں چھپی
سچائی اور علامہ اقبال کی ادبی عظمت کا بر وقت ادراک کر کے ان کے سامنے سرِ
تسلیم خم کر دیا۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو قرار دادِ پاکستان علامہ اقبال کی عظمت
کو سلام پیش کرنے کا اظہار تھا۔خوش قسمت ہے وہ قوم جسے علامہ اقبال جیسا
دانشور اور قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسا قائد میسر آیا۔ جب تک پاک قوم
زندہ ہے اس کی گردن اپنے ان دونوں محسنوں کے سامنے عقیدت و احترام کے ساتھ
جھکی رہیگی جبکہ بھارت کے وہ زعماء جھنوں نے ان ہستیوں سے اختلاف کیا ان کے
پیروکاروں کی گردنیں ان کے اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں کاٹی جا رہی ہیں ۔وقت
خطبہ کی صداقت کاخاموش گواہ ہے۔
|