مسلمان مر رہے ہیں اور اقوام متحدہ خاموشی سے دیکھ رہی ہے!۔

پوری دنیا میں ایسا منظر صرف کشمیر میں ہی دیکھنے کو ملے گا جہاں ایک ماں، جس کا بیٹا سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوا ہو، سوگواروں سے صبر و تحمل برتنے کی اپیل کرتی ہو۔کیا واقعی ہی ایک ماں اتنی زیادہ جرات مند ہوسکتی ہے ؟۔اب مائیں کرفیو کے باوجود اپنے شہید بیٹوں کے جلوس کی قیادت کرتی ہیں، قبرستان تک لے جاتی ہیں اوران کے جنازے میں شامل ہوتی ہیں۔ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر پتھر دل بھی موم ہوجاتا ہے مگر بھارتی قیادت اور اقوام متحدہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ۔آخر اقوام متحدہ کے اصول، قوانین کہاں گئے۔ 72 سال ہو گئے لیکن کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور وہ اس لئے کہ اقوام متحدہ چاہتی ہی نہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو ۔ مسلمانوں سے متعلق تمام قوانین موم بتیوں کی طرح جل کرپگھل جاتے ہیں۔ فلسطین کی بربریت پر اقوام متحدہ تماشہ دیکھتا آ رہا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد فلسطینیوں ،1لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کردیا گیا لیکن اقوام متحدہ کا انسانی چارٹر معلق رہا۔ عراق میں خون تیل کی طرح بہا دیا گیا اور تیل پانی کی طرح،بغیر ثبوت کے عراق پر چڑھائی کردی گئی اور آج تک امریکہ صرف یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ عراق کا نائن الیون میں ہاتھ تھالیکن مجال ہے کہ اقوام متحدہ کے کان پر جوں رینگی ہو۔ شام میں گزشتہ دو دہائیوں سے جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ بھی انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ لیبیا کے اندر بھی ظلم کا بازار گرم کیا گیا ۔یمن میں بھی مسلسل خون بہایا جا رہا ہے۔کشمیر میں آج جس طرح مسلمانوں کو گولیں کانشانہ بنایا جا رہاہے اور تقسیم کے بعد سے آج تک جتنے کشمیریوں کا خون بہایا گیا ہے اس نے کشمیر کی سرسبز وادی کوسرخ کر دیا ہے۔ خدا کی کسی زمین پراس طرح خون ناحق نہیں بہاجس طرح کشمیر میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے پاس نہ تو ہتھیار ہوتے نہ اسلحہ بارود ہوتاہے۔ پلیٹ گنز سے آئے روز معصوم اور نومولود بچوں اور جوانوں کو اندھا کر دیا جاتا ہے، اس طرح تو جنگل کا قانون بھی نہیں ہوتا جسے ناحق اور نہتے کشمیریوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ کشمیر میں زیادہ تر مسلم آبادی ہے لیکن یہاں ہندو اقلیت میں موجود ہیں اور ایک مختصر ترین تعداد سکھوں، عیسائیوں، پارسیوں کی بھی ہے لیکن ہر بار جب گولی چلتی ہے اس کا نشانہ صرف مسلم کشمیری ہوتا ہے۔ کبھی کوئی ہندو کشمیری کیوں نہیں ہوتا؟۔ بھارتی فوج کی کوئی گولی کسی ہندو سکھ عیسائی پارسی کو کیوں نہیں لگتی؟۔ آخر بھارت کس منہ سے کشمیرکو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے؟ جب کشمیری خود بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو بھارت کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ کشمیرپر زبردستی قبضہ جمالے؟ ۔اگر کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہوتا تو وہ کشمیر پر ظلم اور بربریت کی تاریخ رقم نہ کرتا۔ کوئی بھی سفاک سے سفاک آدمی اپنے انگ کو جلا کر راکھ نہیں کرتا۔ اگر بھارت کو کشمیر سے ہمدردی، محبت یا عشق ہوتا تو وہ کشمیر میں بارود نہ برساتا۔ اس کے حسن کو ملیا میٹ نہ کرتا۔ اس کو خون کے آنسو نہ رلاتا۔کشمیر نہ کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا نہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا ، کشمیرصرف اور صرف پاکستان کی شہ رگ ہے ۔اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ فی الفور کشمیرسے بھارتی تسلط ختم کرے اور کشمیر میں استصواب رائے کروائے ۔ آخر بے قصور اور نہتے کشمیری کب تک پستے رہیں گے؟ کشمیریوں کا آخر کب تک خون بہتا رہے گا؟ تحریک آزادی کشمیر جہد مسلسل اور قربانیوں کی ایک داستان ہے،جس کا ایک ایک حرف خون شہداء کی سرخ روشنائی سے لکھا گیا ہے۔ قربانیوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ساری ریاست آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو کر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی۔آج ایک طرف بھارتی حکومت کے 5اگست2019ء کے اقدام نے بھارتی آئین کے آرٹیکل370 اور35اے کو ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا ہے اور کشمیر کو بھارت کی انتہا پسند حکومت نے بھارتی ریاست ڈکلیئر کر کے80لاکھ سے زائد کشمیریوں کو ان کے اپنے گھروں میں قید کر رکھا ہے۔نریندر مودی نے اسی پر بس نہیں کی، بلکہ بھارت میں شہریت کے قانون میں تبدیلی کر کے بھارت میں بسنے والے بھارتی مسلمانوں کاجینا حرام کر رکھا ہے۔اس وقت وادی کشمیر میں گزشتہ7ماہ سے کرفیو نافذ ہے ، دنیا تو ابھی ابھی لاک ڈاؤن کے گھیرے میں آئی مگر وادی کشمیر میں گزشتہ 7ماہ سے لاک ڈاؤن ہے ،دنیا کو تو ابھی ابھی پتا چلا کہ لاک ڈاؤن کیسا ہوتا ہے مگر کشمیری تو گزشتہ 7ماہ سے لاک ڈاؤن کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور وہ بھی بغیر خوراک اور ادویات کے جہاں مساجدوں کو تالے لگے ہوئے ہیں اور سڑکیں ،دفاتر،سکول ،یونیورسٹیز اور کالجز وغیرہ ویران ہیں ۔اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر بارے بغیر اور دیر کئے کوئی پیشرفت کرنی چاہیے کیونکہ مسئلہ کشمیر گزشتہ 72سالوں سے حل طلب ہے ، اور اب بھی دیر کی گئی تو نتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں اور خطہ جنگ کی طرف جاسکتا ہے ۔
 

Syed Noorul Hassan Gillani
About the Author: Syed Noorul Hassan Gillani Read More Articles by Syed Noorul Hassan Gillani: 44 Articles with 29436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.