میں دل سے بددعا دے رہا ہوں تم لوگوں کو۔۔۔پاکستانی کامیڈینز کی بدحالی

image


ہم کبھی بچپن میں سنتے تھے کہ جو بہت زیادہ ہنستا ہے اسے رونا پڑتا ہے۔۔۔پاکستانی کامیڈینز میں سے اکثریت کی زندگی دیکھ کر یہ مقولہ بالکل صحیح نظر آتا ہے۔۔۔زندگی بھر عوام کو ہنسانے اور خود کو منوانے کی اس جنگ میں یہ کبھی جیت نہیں پاتے۔۔۔کچھ کامیڈینز کے آخری ایام دیکھ کر تو انسان اپنی ہنسی ہی بھول جاتا ہے اور کچھ کی زندگی بھی رلا دیتی ہے۔۔۔

جاوید کوڈو
پاکستانی ڈرامہ اور تھیٹر کی تاریخ میں جاوید کوڈو کو ایک مقام حاصل ہے۔۔۔اپنے پستہ قد ہونے کی وجہ سے بلا شبہ انہوں نے زندگی میں کئی مشکلات دیکھیں لیکن ان کی پرفارمنس نے کبھی ان کے قد کو چھوٹا نہیں ہونے دیا۔۔۔انتہائی غربت میں آنکھ کھولنے والے جاوید کوڈو نے تعلیم حاصل نہیں کی اور تھوڑے بڑے ہوئے تو محنت مزدوری شروع کردی۔۔۔ان کو اداکاری کا بہت شوق تھا ۔۔۔اس لئے موٹر سائکل کی دکان پر کام ختم کرنے کے بعد وہ الحمرا آرٹس کونسل چلے جاتے اور چھوٹے موٹے کردار کر کے واپس آجاتے۔۔۔وقت نے ہاتھ پکڑا اور جاوید کوڈو کو تھیٹر کی دنیا میں مقام مل ہی گیا۔۔۔پھر انہوں نے ڈراموں میں بھی کام کیا اور فلموں میں بھی اپنی جگہ بنائی۔۔۔سلطان راہی کے ساتھ تیرہ سال کی عمر میں آگئے ۔۔۔انہیں بھارت سے بھی کام کرنے کی بہت آفرز ہوئیں لیکن ان کی حب الوطنی نے انہیں کبھی ایسا کرنے نا دیا۔۔۔پھر وہ بیمار پڑگئے۔۔۔برین ہیمرج ہوا، انہیں دل کی بیماری لاحق ہوگئی لیکن کسمپرسی کے باوجود وہ اپنی زندگی کی اس جنگ کو تنہا لڑتے رہے۔۔ان کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک انہی کی طرح قد کے مسائل سے دو چار ہے۔۔۔وہ اپنے بچوں کو بھی غربت کی وجہ سے پڑھا نا سکے۔۔۔آج تک وہ انتہائی مفلسی میں اپنے ماں باپ کے مکان میں رہ رہے ہیں جہاں برین ہیمرج کے بعد وہ فالج زدہ ٹانگ کے باعث خود سے کوئی کام نہی کر سکتے۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ وہ جس حال میں اس وقت ہیں کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔۔۔وہ فاقوں اور تکلیفوں سے دو چار ہیں لیکن ان کی زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ وہ کبھی کسی سے مدد نہیں مانگیں گے۔۔۔پچھلے دنوں ان کی ایک ویڈیو آئی جس میں وہ چیخ چیخ کر حکومت کو بد دعائیں دینے لگے کہ مجھ غریب کا سوئی گیس کا بل ہی چوبیس پچیس ہزار کا آتا ہے۔۔۔بجائے میری قدر کرنے کے مجھے اس حال میں پہنچا رہے ہو۔۔۔وہ بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوچکے ہیں معاشی حالات اور تکالیف کے باعث کہ اب ہنسی بھی ان سے روٹھ گئی ہے

image


مرتضی حسن عرف مستانہ ( انکل کیوں)
وہ تمام لوگ جنہوں نے ڈرامہ ’’شب دیگ‘‘ کے انکل کیوں سے ملاقات کی ہے وہ کبھی بھی اس انسان کو فراموش نہیں کرسکتے۔۔۔مستانہ ایک بہت ہی شریف النفس اور انتہائی معصوم انسان تھے۔۔ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے اور چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔۔۔اداکاری کے شوق میں اکثر گجرانوالہ کے تھیٹر میں پہنچ کر چھوٹے موٹے کردار کرتے تھے۔۔۔والد صاحب کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کیونکہ گھر بھی دیر سے آتے تھے۔۔پھر مستانہ صاحب اپنے شوق کی خاطر لاہور پہنچ گئے ۔۔۔دل میں لگن تھی منور ظریف سے ملنے کی کیونکہ وہ ان کے آئیڈیل تھے۔۔۔لاہور تھیٹر میں بہت عرصہ تک چھوٹے موٹے ہی کردار کئے اور زیادہ تر اسٹیج والوں کی خدمت کی۔۔۔پھر ایک وقت آیا کہ انہیں لگا کہ کیونکہ میرے والد اس کے خلاف ہیں اسی لئے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔۔۔وہ واپس اپنے والد کے پاس گئے اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر اجازت مانگی۔۔اجازت ملتے ہی واپس آئے اور پھر سے تھیٹر میں کام کیا۔۔۔کامیابی نے ہاتھ پکڑ لیا اور اسٹیج، فلموں اور تھیٹر میں مقام بنالیا۔۔۔ڈرامہ ’’شب دیگ‘‘ کے انکل کیوں والے کردار نے راتوں رات کامیابی کے آسمان تک پہنچا دیا۔۔۔ایک کے بعد ایک تھیٹر کی دنیا میں کامیابیاں ملتی رہیں۔۔۔اور ایک دن جلن میں ڈوبے کچھ ساتھی اداکاروں کی وجہ سے وہ جیل جا پہنچے ۔۔۔ان پر الزام تھا کہ وہ ایک فحش تھیٹر میں تھے۔۔۔مستانہ صاحب بہت شرمندہ تھے جبکہ یہ جھوٹ تھا۔۔۔انہیں پھنسوایا گیا تھا ۔۔لیکن وہ اتنا شرمندہ ہوئے کہ اداکاری سے منہ موڑ لیا۔۔۔ان کے دوست اداکار سہیل احمد نے ضد کی اور انہیں واپس لے آئے۔۔۔وہ واپس تو آگئے لیکن ابھی بھی کچھ لوگ انہیں یہی کہہ کر چھیڑتے کہ مستانہ پھر جیل مت چلے جانا۔۔۔ایک دن وہ دلبرداشتہ ہوئے اور سب کچھ چھوڑ کر تنہائی اختیار کرلی اور سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔۔۔ایک ہی بیٹا ہے جسے حافظ قرآن بنایا۔۔۔ایک مفلسی کی زندگی تھی جسے صبر شکر کرکے کاٹتے رہے۔۔۔پھر انہیں ہیپیٹائٹس سی کی آخری اسٹیج میں ہسپتال لے آئے۔۔۔۔انہوں نے سختی سے کہا تھا کہ کسی سے مدد نا مانگنا۔۔۔وہ بہت غیرتمند تھے۔۔۔لیکن اداکار سہیل احمد کو پتہ چلا تو وہ پہنچ گئے اور ایک حد تک مدد بھی کی۔۔۔لیکن یہ عظیم اداکار ۲۰۱۱ میں خاموشی سے کسمپرسی کی حالت میں دنیا سے چلا گیا

image
YOU MAY ALSO LIKE: