کرونا وائرس کی تازہ ترین صورتحال اور اس کے شکار مریضوں
سے تقریباََ تمام لوگ بخوبی آگاہ ہیں، اگرچہ اس موذی وائرس کی وجہ سے شرح
اموات کم لیکن اس کا پھیلاؤ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وائرس کی بڑھوتری
کا کلیدی سبب وائرس کو پنپنے کیلئے ہوسٹ یعنی انسانی جسم کی عام دستیابی ہے۔
یہ وائرس انسانی جسم یا کسی بھی جاندار کے جسم سے باہر 48 گھنٹے سے زیادہ
دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ عام الفاظ میں کھانسنے ، چھینکے یا تھوکنے سے یہ
وائرس زمین یا کسی اور تہہ پر کم از کم تین روز تک زندہ رہتا ہے اور اگر
انسانی جسم میں داخل نہ ہو پائے تو ختم ہو جاتا ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ کی اس
صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام ماہرین،حکومت اور میڈیا عوامی آگاہی
کیلئے جان توڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن اطالوی عوام کی طرح پاکستانیوں کی بڑی
تعداد اس مہلک وبا کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور آپ اس بات کا اندازہ اس طرح
لگا لیں کہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر لاہور اس وقت بھی اپنی تمام تر
رعنائیوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ لاہور کی مصروف ترین مارکیٹیں آباد اور لاہوری
کھابے سجے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرس کو لیکر میمز اور لطائف بنائے
اوردھڑا دھڑ شیئر کیے جا رہے ہیں، سکولوں، کالجز اور دفاتر سے چھٹیوں کو
سماجی بیٹھک اور سیر و تفریح کا سنہری موقع سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم
اطالوی قوم سے بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں، اٹلی میں بھی ابتداََ صورتحال
پاکستان جیسی تھی اور لوگ ایک دوسرے سے فاصلے اور احتیاطی تدابیر کو اختیار
کرنے سے انکاری تھے جس کا نتیجہ انتہائی بھیانک نکلا اور انتہائی کم وقت
میں 60 ہزار سے زائد اطالوی افراد اس خطرناک وائرس کا شکار ہوئے اور ان میں
سے 5ہزارچھ سو چھپن افراد اب تک زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ حالات کی
سنگینی کو دیکھتے ہوئے اٹلی میں کئی لوگوں کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں اور
مایوسیوں نے شہریوں کو بد دل کر دیا ہے۔
تازہ ترین خبر کے مطابق ملتان میں قائم پاکستان کے سب سے بڑے قرنطینہ میں
زائرین نے فرمائشیں کر کے انتظامیہ کو تنگی کا ناچ نچا دیا ہے۔ لڈو، تاش
اور کیرم کی فراہمی جیسے مطالبے دیکھنے میں آئے ہیں، اسی پر بس نہیں بلکہ
16 افراد نے اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ قرنطینہ میں رکھنے کی اجازت دینے کا
بھی مطالبہ کیا ہے۔سکھر میں زائرین کا قرنطینہ توڑ کر باہر نکل آنا اور
احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے بازاروں میں داخل ہونے کی کوشش کرنا بھی ہماری
سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر پاکستانیوں نے غیر سنجیدہ ، شغلیہ رویہ اسی
طرح اختیار کیے رکھا تو خدا نخواستہ کرونا ہمارے قابو سے باہر ہو کر لاکھوں
افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔سوشل میڈیا اور سنجیدہ حلقوں میں حکومت سے ملک
کو لاک ڈاؤن کرنے کے مطالبے کیے بھی کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت ذمہ دار
پاکستانی حکومت سے لاک ڈاؤن کے مطالبے کی بجائے خود کو لاک ڈاؤن کرتے ہوئے
سیلف آئسولیشن اختیار کرنی ہوگی۔ اگر ہم ان ہنگامی حالات میں انتظامیہ،
حکومت، ڈاکٹرز اور دیگر افراد و اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون نہیں کریں گے
تو بھیانک نتائج کی ذمہ داری ہم پر پہلے عائد ہوگی۔ اس وقت زیادہ تر لوگ
کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی، حفاظتی تدابیرکے بارے میں جانتے ہیں
لیکن فی الوقت خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنے سے قاصر دکھائی دے
رہے ہیں، یہ طرز عمل ہمارے لیے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارا رویہ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر پیرا میڈیکل
سٹاف کے ساتھ ناروا رہا ہے حالانکہ یہ وہ مسیحا ہیں جو اپنی جان جوکھم میں
ڈال کر ہمیں زندہ اور صحت مند رکھنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر
رہے ہیں، ہمیں ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے غم و غصے پر قابو پاتے ہوئے مثبت
رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ میں بحیثیت صحافی، قلمکار کرونا کیخلاف خود کو
رضاکارانہ طور پر پیش کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو سرخ سلام پیش کرتا
ہوں۔ گلگت بلتستان کے محکمہ صحت نے تصدیق کی ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف جنگ
میں اہم کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ اس
کے ساتھ ہی ملک میں اس موذی وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد چھ ہوگئی
ہے جبکہ مریضوں کی تعداد نو سو سے تجاوز کر چکی ہے۔محکمہ صحت گلگت بلتستان
کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغام میں کہا گیا کہ ڈاکٹر اسامہ کو
'قومی ہیرو' کا درجہ دیا جائے گا۔ڈاکٹر اسامہ بنیادی طور پر مانسہرہ کے
تیمر خیل قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جن کی مادری زبان ہندکو ہے، تاہم ان کے
آبا و اجداد کافی عرصہ قبل گلگت کے علاقے چیلاس آکر آباد ہوگئے تھے۔وہ
جگلوٹ کے مقام پر کرونا وائرس کے مریضوں کے سکریننگ پر تعینات تھے۔ڈاکٹر
اسامہ ریاض جیسے جان کی بازی لگانے والے افراد کا قرض اس وقت ادا ہوگا جب
ہم مل کر کرونا وائرس کو شکست دے دیں گے۔ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم احتیاطی
تدابیر سے پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی کروائیں۔ اپنے ہاتھوں کو
بار بار دھوئیں اور ہاتھ ملانے سے گریز کریں، گھر سے باہر موجود اشخاص بیشک
وہ تندرست ہوں ان سے مناسب فاصلہ اختیار کریں، ماسک کا استعمال کریں ۔ کوشش
کریں کہ اپنے گھروں میں رہیں اپنے لیے اور اپنے پیاروں کیلئے۔ اگر ہم خود
اعتمادی اور مصمم ارادے سے حکومت، انتظامیہ اور دیگر افراد و اداروں کے
ساتھ تعاون کریں تو ہم بھی عظیم چینی قوم کی طرح اس وبا کو شکست دے سکتے
ہیں۔ آخر میں برادرم ڈاکٹر اسحاق وردگ کا ایک شعر کہ
بازار ہیں خاموش تو گلیوں پہ ہے سکتا
اب شہر میں تنہائی کا ڈر بول رہا ہے!! |