وزیر اعظم نے 19 مارچ2020 کی شب میں قوم سے خطاب کرکے
22مارچ کے دن جنتا کرفیو کا اعلان توکردیا لیکن پارلیمانی اجلاس کے خاتمہ
کا اعلان نہیں کیا۔ یہ عجیب منافقت ہے کہ ملک کے سارے لوگ اپنے گھر میں بند
ہوجائیں اس کے باوجود ان کے نمائندے ایوان پارلیمان میں آئیں ۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا 19 کو پارلیمنٹ کے اندر کورونا وائرس پر بحث و مباحثہ ہوتا۔ اس
میں کچھ اہم فیصلے کیےجاتے ۔ اس کے بعد ایوان کا اجلاس ختم کردیا جاتا اور
شام میں وزیراعظم قوم سے خطاب کرکے ان کا اعلان کرتے لیکن ایسی اعلیٰ ظرفی
ہمارے رہنماوں میں کہاں ؟ وہ تو سارا کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں ۔جو رہنما
اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئےیہ دعویٰ کرتےہیں کہ ان کے کہنے پر سارے ملک نے
تالیاں بجا کر اور تھالیاں پیٹ کورونا کا دیش نکالا کردیا، ایسوں سےکیا
توقع کی جائے ۔ وزیر اعظم کے جنتا کرفیو کی تعریف میں معروف صحافی مکرند
پرانجپے نے پیشگی لکھ دیا کہ جو کام چین کے شی جن پنگ اور امریکہ کے دونلڈ
ٹرمپ نہیں کرسکے وہ مودی نے کردکھایا ۔ یہ فرد(man)، موقع (moment)، پیغام
(message)، ذریعہ (medium)اور بے شک مودی (Modi) کا بہترین امتزاج ہے جس نے
ہندوستانیوں کو حیرت زدہ کردیا ۔
مکرند کے اس دعویٰ کو ملک کے عوام نے سچ کردیا ۔ کورونا کا مقابلہ کرنے کے
لیے مودی جی نے یہ پیغام دیا تھا کہ لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہیں لیکن
دن بھر صبر کرنے کے بعد شام میں اپنےچہیتے پردھان سیوک کی خوشنودی کی
خاطربھکتوں نے جان پر کھیل کر احمد آباد کے سڑکوں پر جلوس نکالا اور سورت
شہر میں تو گربا ناچ بھی کیا ۔ جو شخص خود اپنے صوبے کے لوگوں کو پیغام
پہنچانے میں اس طرح ناکام ہوجائے کہ لوگ اس کے عین مخالف عمل کرنے لگیں تو
اس کی تعریف کرنے والوں کو اندھا بھکت نہ کہا جائے تو کس نام سے یاد کیا
جائے؟ اس طرح کے تماشوں سے عوام کی ذہن سازی نہیں ہوتی بلکہ انہیں بگاڑا
جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں ایسے صحافیوں کی کمی نہیں جو دن رات یہ ڈھول پیٹ
رہے ہیں کہ جنتا کرفیو کے ذریعہ وزیراعظم نے اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت
دوبارہ حاصل کرلی ہے۔ اس بیان یہ اعتراف تو موجود ہے کہ وزیراعظم نے اپنی
مقبولیت گنوادی تھی لیکن وزیراعظم نے اپنی شہرت بڑھانے کے چکر میں کتنے
تالی بجانے والوں کورونا وائرس کے خطرات سے دوچار کردیا، اس سے یہ بھکت بے
نیاز ہیں ۔
اتوا ر کے دن وزیراعظم کو خراج عقیدت پیش کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ خطرہ ٹل
گیا ہے ۔ اگلے دن کورونا سے متاثرین میں 100 سے زیادہ کا اضافہ ہوگیا اور
وہ تعداد 500 سے کے قریب پہنچ گئی۔ ہلاکتوں کی جملہ تعداد بڑھ کر 10 ہو گئی۔
اِ دھر غریب عوام کورونا کے شکار ہورہے تھے اُدھر پارلیمانی اجلاس جاری تھا۔
اس کے اندر کورونا سے مقابلہ کیا جائے ؟ کون کون سئ طبی سہولیات کہاں سے
بہم پہنچائی جائیں ۔ ہر روز کماکر کھانے والوں تک اناج کیسے پہنچایا جائے
یا بگڑتی ہوئی معیشت کو کس طرح سنبھالا جائے جیسے سنجیدہ سوالات کے بجائے
ایوان پارلیمان کے آس پاس کی زمین کے استعمال میں تبدیلی لائی جائے۔ عوامی
اور تفریحی زمینوں کونئی پارلیمان کے عمارت اور صدارتی کے محل کے ارد گرد
کی قطعہ اراضی کو وزیراعظم کے نئے محل کے لیے مختص کرنے کی تجاویز منظور ہو
رہی تھیں ۔
یہ حیرت کی بات ہے جبکہ ملک کے لوگ ایک بہت بڑی آفت کا شکار ہیں ان کے
نمائندے اپنے گھر اور دفتر کے لیے فکرمند ہیں ۔ وہ وزیراعظم جو اپنے آپ کو
چائے والا کہنے پر فخر محسوس کرتا ہے اس نے کورونا وائرس کے مریضوں کی فلاح
و بہبود کے لیے ایک نئے پیسے کی مدد کا وعدہ نہیں کیا۔ میں فقیر آدمی ہوں
، میرا کیا ہے جھولا اٹھاوں گا اور چل دوں گا کا ڈھونگی بیان دینے والے
پردھان سیوک کی سرکاراس تنگی کی حالت میں بھی نئی تعمیرات کے لیے 20 ہزار
کروڈ روپئے کی خطیر رقم منظور کردیتی ہے۔ اس بے حسی کے مظاہرے نے وزیراعظم
نریندر مودی کو اس بات کا حقدار بنا دیا ہے کہ ان کا نام تاریخ کے صفحات
میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔
ایک ایسے دن جبکہ ملک کے 30 صوبوں میں تالہ بندی کردی گئی۔ سڑکوں اور
سرحدوں کو بند کردیا گیا۔ ریل گاڑیوں کو منسوخ کردینے کے بعد اندورنِ ملک
ہوائی پروازوں پر بھی پابندی کا اعلان کیا گیا ایسے میں ایوان ِ بالا کے
نادر حزب اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد نے اپنے آبائی وطن کشمیر کی جنت
نشان وادی کو یاد کیا۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے کہا کہ جموں وکشمیر کو
گزشتہ ساڑھےسات مہینے سے سیاسی قرنطینہ میں (political
Quarantine)مقیدکردیا گیا ہے۔ ملک فی الحال جن حالات سے نبردآزما ہے اسمیں
کشمیر کے عوام عرصہ ٔ دراز سے مبتلا ہیں لیکن سب بے انہیں نظر انداز کردیا
۔مظلومین کے ساتھ اس طرح کاستم ساری دنیا میں روا رکھا گیا ۔ بعید نہیں کہ
اس کے جواب میں کورونا وائرس کی وباء ایک تازیانۂ عبرت بن کر آئی ہو؟
غلام نبی آزادی نے راجیہ سبھا میں کہا کہجموں کشمیر کی عوام کو ریاست کے
ساتھ ساتھ زمین اور نوکری کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہ آفت ناگہانی
قدرت کی جانب سے نہیں بلکہ مرکزی حکومت کی مسلط کردہ ہے۔ انہوں نے اس سیاسی
قرنطینہ کو ختم کرنے کے لیے سبھی لیڈروں کی فوری رہا ئی اورجموں وکشمیر کے
ریاستی درجہ کی بحالی کا پرزور مطالبہ کیا۔
اپنے نئے دفاتر کی تعمیر پر دوسال میں 20 ہزار کروڈ خرچ کرنے کا ارادہ
رکھنے والی مرکزی حکومت نےجموں کشمیر کی معاشی فلاح بہبود کے لئے 6 سال میں
80 کروڑ روپے کا پیکج دیا اور ابھی تک صرف 48 فیصد رقم خرچ کی۔ حکومت کی
عدم دلچسپی اور غلط پالیسیوں کے سبب ریاست میں سیاحت اور دستکاری سے جڑے
لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوگیا ہے ۔ حکومت کے ذریعہ جموں وکشمیر
میں سیب کی خریداری کے جھوٹ بھانڈا بھی آزاد نےپجوڑ دیا ۔ انہوں نے بتایا
کہ جو پینتیس ہزار بکسے خریدے گئے ہیں وہ کل پیداوار کا عشاریہ صفر صفر تین
( 0.003) فیصد بھی نہیں ہے۔ ایک پورے صوبے کی معیشت اور تجارت ٹھپ پڑی ہے
مگر اس سے بے نیاز سرکار اپنے محل تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اپنے ملک کے
شہریوں کو اس طرح نظر انداز نہیں کیا جاتا تو بعید نہیں کہ ایوانِ پارلیمان
کے آخری دن شیئر بازار کوچار ہزار پوائنٹ گرنے کے سبب بند نہ کرنا پڑتا۔
جس ملک کے حکمراں اپنی عوام کو نظر انداز کردیتے ہیں ان پر مشیت کا کوڑا
برستا ہے اور اس کا شکار وہ تما م لوگ بھی ہوجاتے ہیں جن کی خاموشی ظلم
عظیم کی تائید کرتی ہے۔ بقول اقبال ؎
فِطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گُناہوں کو معاف
|