دہلی پولیس نے آج قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی
اور این پی آر کے خلا ف شاہین باغ خاتون مظاہرین کے احتجاج کو طاقت کے زور
پر ختم کرادیا اور تمام سامان اٹھاکر لے گئی شاہین باغ خاتون مظاہرے کو کل
ہی سو دن پورے ہوئے تھے اور سپریم کورٹ کے مذاکرات کار نے یقین دلایا تھا
کہ مظاہرہ کرنا آپ کا حق ہے اور غیر ضروری طور پر راستہ بند کرنے کے لئے
دہلی پولیس کو پھٹکا ربھی لگائی تھی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت
تھا اور سپریم کورٹ کا اس پر فیصلہ آنا باقی تھا ۔ اس طرح کے معاملے میں
حکومت اور پولیس کہتی ہے کہ یہ معاملہ کورٹ کے زیر غور ہے اس پر کچھ نہیں
کہیں گے اور نہ ہی کارروائی کریں گے اور حکومت اور پولیس کورٹ کے فیصلے کا
انتظار کرتی ہے۔ اس کے باوجود پولیس نے پورے علاقے میں دہشت ماحول پیدا
کردیا۔ چھاؤنی میں تبدیل کردیا اور پورے علاقے کو سیل کرکے اور بریکیڈ
لگاکر لوگوں کو ہٹادیا۔ پورے علاقے میں پولیس کو بھر دیا۔یہ پولیس کی
بربریت کی تازہ ترین مثال ہے۔ بہانہ کورونا وائرس کو بنایا گیا۔ کورونا
وائرس کے درمیان پارلیمنٹ کے اجلاس ہوسکتے ہیں، بی جے پی کی میٹنگ ہوسکتی
ہے، مدھیہ پردیش کے سابق اور موجودہ وزیر اعلی کانگریسی حکومت کے پیسہ بل
پر ختم کرکے جشن مناسکتے ہیں اور اسمبلی اجلاس چلاسکتے ہیں،پورے ملک میں بی
جے پی کے ورکر گھنٹہ اور تالی تھالی جلوس نکال سکتے ہیں۔ حکومت کے وزرائے ،
اراکین پارلیمنٹ اور عہدیداران اجتماعی طور پر تھالی پیٹ سکتے ہیں گھنٹہ
اور تالی بجاسکتے ہیں، اس سے کوئی بھی کورونا سے متاثر نہیں ہوگا اور نہ ہی
پھیلے گا۔ سیکڑوں لوگوں کے ساتھ ریلی نکال کر پیلی بھیت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ
اور ایس پی گھنٹہ اور سنکھ بجا سکتے ہیں لیکن مسلمان اپنے حق کے لئے مظاہرہ
نہیں کرسکتے۔ امید یہی ہے کہ شاہین باغ ہٹنے سے دہلی سے کورونا ختم ہوجائے
گا۔اب دہلی ہی نہیں پورے ملک میں کسی کو کورونا نہیں ہوگا۔ ہندوستان کے
سارے مسئلے اب حل ہوگئے ہوں گے۔ شام کو وزیر اعظم قوم کے نام خطاب کرنے
والے ہیں جس میں شاید کہیں گے کہ اب کورونا ختم ہوگیا ہے۔
شاہین باغ مظاہرین میں رضاکارانہ طور پر صرف پانچ عورتیں بیٹھنے لگی تھیں
تاکہ حکومت کو کورونا کا بہانہ نہ ملے۔ صفائی ستھرائی، سنیٹائزر کا استعمال
کر رہی تھیں۔ احتیاط کے سارے کام کررہی تھیں لیکن حکومت کو شاہین باغ کانٹے
کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اسے دشمن کا مظاہرہ سمجھ رہی تھی۔ پوری دنیا میں
شاہین باغ کی تعریف ہورہی تھی اور اس مظاہرے کرنے کے اسٹائل اور طریقہ کار
کو اپنایا جارہا تھا لیکن ملک کے سارے ہندی چینل (ایک دو کو چھوڑکر) اس کے
خلاف پروپیگنڈہ کررہے تھے۔ بدنام کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے اپنا رہے تھے
اور حکومت ، آر ایس ایس اور دیگر فسطائی طاقتیں طرح طرح کی دھمکیاں دے رہی
تھیں۔ ان سب کے درمیان شاہین باغ اپنا قدم مضبوطی سے بڑھاتا گیا، شاہین باغ
کی موت کبھی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی شاہین باغ کا دھرنا کبھی ختم ہوگا ،
جسمانی طور پر ختم ہوگیا ہے روحانی طور پر جاری رہے گا۔ہندوستان کی تاریخ
میں شاہین باغ دھرنے کو جہاں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا وہیں ، دہلی پولیس
کی بربریت، حکومت کی غنڈہ گردی، دہلی حکومت کے سنگھی چہرے اور حکومت کی
منشا کو بدترین الفاظ میں ذکر کیا جائے گا۔
جس طرح دہلی پولیس نے پورے شاہین باغ کی گلیوں کو بند کیا اور پولیس فورس
کو بھر دیا اگر اسی طرح اس نے شمالی مشرقی دہلی میں پولیس اور فورس کو بھر
دیا ہوتا پچاس سے زائد جانیں جاتیں اور 25ہزار کروڑ کا نقصان نہیں ہوتا۔
پوری دنیا میں ملک کی اس قدر بدنامی نہیں ہوتی، پوری دنیا تھو تھو نہیں
کرتی۔ یہ دنیا کی واحد بدترین اور ذلیل ترین حکومت ہے جو کورونا کو مواقع
کے طور پر دیکھتی ہے اور مواقع کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس کو کورورنا
سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے۔اﷲ کرے․․․․․․ دہلی پولیس نے خاتون مظاہرین میں سے
چھ اور تین مرد کو حراست میں لیا ہے جو مزاحمت کر رہے تھے۔ پولیس نے ان
لوگوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی بات کہی ہے اور ہوسکتا
ہے ان کو گرفتار کرلیا جائے۔
شاہین باغ کسی ٹینٹ، تخت، ترپال، پلاسٹک، لاؤڈ اسپیکر ، تخت، پیٹنگ، کسی
دیواریا کسی فرد یا کسی جلسے جلوس کا نام نہیں ہے اور یہ مضبوط عیر مفتوح
نظریہ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس سے محبت کرنے والے کروڑوں لوگ ہیں جن میں
ہندو بھی ہے، مسلم بھی ہے، سکھ بھی ہے، عیسائی بھی ہے، پارسی بھی ہے ، سبھی
ذات اور دھرم و مذہب کے لوگ ہیں۔ جنہوں نے اس نظریہ کو سینچا ہے سنوارا ہے
اور پروان چڑھایا ہے۔ واحد ایسی تحریک ہے جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی،
پوری دنیا کی یونیورسٹی کے طلبہ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی حمایت کی اور
اظہار یکجہتی کے لئے جلوس نکالا اور مظاہرے کئے۔ یہ ایسا مظاہرہ تھا جس کو
دیکھنے کے لئے پورے ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لوگ آئے تھے۔
کورورنا وائرس کے پھیلنے سے پہلے ۔اس شاہین باغ کے نظریے کو اتنی وسعت ملی
کہ ملک میں تقریباَ چھو سو سے زائد مقامات پر خواتین کے مظاہرے شروع ہوگئے۔
وزارت داخلہ نے اپنی رپورٹ میں 291جگہ بتایا اور اسے پرامن قرار دیا۔
شاہین باغ مظاہرہ دنیا کا واحد مظاہرہ تھا جس میں ہر رنگ تھا۔ بھگوا بھی
تھا، سبز بھی، سکھوں کا مذہبی رنگ بھی، عیسائیت کی ملائمت بھی تھی۔ دہلی
پولیس اور مرکزی حکومت اسے اکھاڑ کر اگر یہ سوچ رہی ہے تو اس کی خام خیالی
ہے۔ ہندومسلم بچوں کے بنائی گئی پینتگس اور مختلف علامات کو مٹاکر یہ سمجھ
رہی ہے کہ وہ شاہین باغ کو مٹادیں گے یہ ان کی زبردست بھول ہے۔شاہین باغ
لوگوں کے دل و ماغ میں بستا ہے۔ ان کے ارمانوں میں جاگزیں ہے،روم روم میں
پیوست ہے، اس کو کیسے پولیس نکالے گی۔
جب کورونا وائرس کا خطرہ بڑھا تھا اس وقت سے ہی احتیاط کے طور پر ، 2 میٹر
کے فاصلے پر لگ بھگ 100 تختیاں لگائی گئی تھیں۔ ہر ایک پر دو خواتین بیٹھی
تھیں ، 100 پلے کارڈ یا چوکیاں لگا دی گئیں ہیں۔بزرگوں اور بچوں کو احتجاج
کی جگہ سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ منتظمین نے صرف دو لوگوں سے ہر
ایک پر بیٹھنے کو کہا ہے۔ احتیاط کے طور پر ، عمائدین نے نقاب پوش باندھ
رکھے ہیں اور بچوں سے احتجاج کے مقام سے دور رہنے کو کہا گیا ہے۔ بیشتر
مظاہرین نے 50 سے زائد افراد کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے حکم کی
نافرمانی کی بات کی ہے۔انڈین فیڈریشن آف ٹریڈ یونین کی جانب سے احتجاج میں
شامل ہونے والی اپرنا نے کہا تھا کہ 50 نمبر کی طبی بنیاد کیا ہے؟ یہ
(فیصلہ) سیاسی ہے۔ پوری نگہداشت کی جارہی ہے۔ یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ پہلے
فسادات اب شاہین باغ کو کورونا کے نام پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔
دہلی میں شاہین باغ کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ،حضرت نظام الدین، قریش نگر
عیدگاہ، اندر لوک،سیلم پور فروٹ مارکیٹ،جامع مسجد،،ترکمان گیٹ،،ترکمان گیٹ،
بلی ماران، بیری والا باغ، وغیرہ،رانی باغ سمری بختیارپورضلع سہرسہ ،سبزی
باغ پٹنہ،، ہارون نگر،پٹنہ’شانتی باغ گیا ، مظفرپور، ارریہ سیمانچل
،بیگوسرائے ،پکڑی برواں نوادہ ،مزار چوک،چوڑی پٹی کشن گنج،مگلا کھار‘
انصارنگر نوادہ،مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، دربھنگہ میں تین جگہ،
مدھوبنی،سیتامڑھی، سمستی پور‘ تاج پور، سیوان،گوپال گنج،کلکٹریٹ بتیا‘ہردیا
چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، رکسول، کبیر نگر بھاگلپور،سہسرام، شیوہر، رفیع گنج،
مہارشٹر میں دھولیہ، ناندیڑ، ہنگولی،پرمانی، آکولہ، سلوڑ،
پوسد،کونڈوا،۔پونہ،ستیہ نند ہاسپٹل، مالیگاؤں‘ جلگاؤں، نانڈیڑ، پونے،
شولاپور، اور ممبئی میں مختلف مقامات، مغربی بنگال میں پارک سرکس کلکتہ‘
مٹیا برج، فیل خانہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پور، مرشدآباد، مالدہ، شمالی
دیناجپور، بیربھوم، داراجلنگ، پرولیا۔ علی پور دوار،اسلامیہ میدان الہ
آبادیوپی،روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی۔محمد علی پارک چمن گنج
کانپوریوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور،،کوٹہ،
اودے پور، جودھپور اور ٹونک،اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش، جامع مسجد
گراونڈ اندور،مانک باغ، امروکا،پراکی، اندور، اجین،دیواس، کھنڈوہ،مندسور،
گجرات کے بڑودہ، احمد آباد، جوہاپورہ، بنگلورمیں بلال باغ، منگلور، شاہ
گارڈن، میسور، پیربنگالی گرؤنڈ، یادگیر کرناٹک، آسام کے گوہاٹی، تین سکھیا۔
ڈبرو گڑھ، آمن گاؤں کامروپ۔ کریم گنج، تلنگانہ میں حیدرآباد، نظام آباد‘
عادل آباد۔ آصف آباد، شمس آباد، وقارآباد، محبوب آباد، محبوب نگر، کریم
نگر، آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم‘ اننت پور،سریکاکولم‘ کیرالہ میں کالی
کٹ، ایرناکولم، اویڈوکی،، ہریانہ کے میوات اور یمنانگرفتح آباد،فریدآباد،
راجستھان میں کوٹہ، ٹونگ امروکا کا باغ، جے پور، اودے پور اور دیگر مقامات
پر،جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو،لوہر دگا، بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع
پور، گریڈیہہ،جمشید پورتمل ناڈو کے وانم باڑی سمیت 20 جگہ وغیرہ میں بھی
خواتین مظاہرہ کررہی تھیں۔
شاہین باغ کا مظاہرہ ختم ہونا ہمارے لئے یقینا ایک بڑا جھٹکا ہے لیکن تحریک
چلانے کے دوران اس طرح کے واقعات و سانحات پیش آتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات
کے بعد ہمیں اس کی کامیابی اور ناکامی کا جائزہ لینے کے ساتھ ازسرنو حکمت
عملی وضع کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ ہمیں اگلے قدم کے لئے تیار ہوجانا
چاہئے جب تک کورورنا وائرس کا خطرہ ہے اس وقت تک مظاہرہ سے گریز کرنا
چاہئے۔اس دوران ہمیں ظالموں کی ہدایت یا ان کے خاتمہ کے لئے دعا کرنا چاہئے
دعا کا متبادل تو ہر جگہ کھلا ہوا ہے۔ دو قدم پیچھے ہٹنے کا مطلب ناکامی
قطعی نہیں ہوتا۔اس سے مایوس نہ ہوں اور اپنی قوت کو مجتمع کریں اور اگلی
حکمت کے لئے تیاری کریں کیوں کہ جنگ ابھی باقی ہے اور اس وقت تک جنگ باقی
ہے جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔ ہمیں حکومت نے ذلیل
کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن اﷲ بہترین کارساز ہے۔ظالموں کو ڈھیل ضرور
دیتا ہے لیکن ان کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔
|