CAA، NPR اور NRC کے خلاف دہلی کے شاہین باغ کے طرز پر
خواتین نے جگہ جگہ احتجاجات کئے، جس میں ہر مذہب کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر
حصہ لیا کیونکہ ان قوانین سے لوگ خوف زدہ تھے اور آج بھی ہیں اور عمومی طور
پر لوگ ان قوانین کو ملک کے دستور کے خلاف تسلیم کررہے ہیں۔ سنبھل کے مشہور
محلہ دیپا سرائے کے پکا باغ میں بھی ۲۲ جنوری سے خواتین نے احتجاج شروع کیا
تھا، جو ۲۴ گھنٹے چل رہا تھا، مختلف تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں
نے وقتاً فوقتاً تشریف لاکر اپنے خیالات کا اظہار کرکے اپنی مکمل سپورٹ
دھرنے پر بیٹھی خواتین کے ساتھ ظاہر کی۔ نہ صرف سنبھل کے پارلیمنٹ اور
اسمبلی کے ممبران بلکہ قرب وجوار کے دیگر پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ممبران
بھی احتجاج پر بیٹھی خواتین کے جذبات کو سلام کرنے کے لئے یہاں تشریف لائے۔
نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم حضرات نے بھی دھرنے کی جگہ پر تشریف لاکر اپنی
حمایت کا اعلان کیا۔ بھیم آرمی اور دلت سرکشا منچ کے ذمہ دارانوں نے بھی
یہاں تشریف لاکر CAA قانون کے خلاف احتجاج میں بیٹھی خواتین کے ساتھ مکمل
ہمدردی کا اظہار کیا۔ سخت سردی اور بار بار بارش کے باوجود خواتین کی ہمت
کو سلام پیش ہے کہ وہ تمام تر پریشانیوں کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہیں
کہ جب تک حکومت ان قوانین کو واپس نہیں لیتی ہے یا اس میں ضروری تبدیلی
نہیں کرتی ہے یہ احتجاج جاری رہے گا۔ سنبھل کے پکا باغ میں ہزاروں کی تعداد
میں خواتین ۲۴ گھنٹے احتجاج میں موجود رہ کر ملک میں امن وسکون اور شانتی
کے لئے دعائیں بھی کرتی تھیں۔ ۳ لاکھ سے زیادہ آبادی والے سنبھل شہر کے
نوجوانوں نے خواتین کی جانب سے دھرنے کو کامیاب بنانے کے لئے ۲۴ گھنٹے اپنی
خدمات پیش کیں۔ ملک کی عوام کی طرح سنبھل کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نئے
قوانین ہندوستانی دستور اور دنیا میں مشہور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے
خلاف ہیں اور اس کے بعد مستقبل میں پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس نوعیت
کے فیصلوں کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے مظاہرے یا انتظامیہ کو
میمورنڈم پیش کرنا ہندوستانی قوانین کے خلاف نہیں بلکہ ہندوستانی آئین کے
مطابق ہر شخص کو اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔
مگر اس وقت ملک کو ایک دوسری لڑائی کی ضرورت ہے اور وہ کورونا وائرس سے
اپنے ملک کو محفوظ رکھنا ہے۔ ظاہر ہے ہر ہندوستانی خواہ وہ کسی بھی مذہب کا
ماننے والے ہو یا وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، ملک میں اس بیماری کو پھیلنے
سے روکنے کے لئے ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہے۔ اسی جذبہ کو سامنے رکھتے
ہوئے خواتین کی جانب سے چلنے والے احتجاجات کو ملک اور قوم کے سامنے درپیش
مصیبت کو دور کرنے کے لئے وقتی طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ سنبھل، پکا باغ
میں ۶۲ دن سے جاری احتجاج آج ۲۴ مارچ ۲۰۲۰ کو انتظامیہ اور سنبھل شہر کی
سرکردہ شخصیات کے مشورہ کے بعد وقتی طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ یہ ملک کسی
مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب
کا ہے، اور اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے
کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے، اور آج بھی
اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمارے بڑوں نے اس کو ملک کے لے عظیم
قربانیاں دی ہیں اور آج بھی ہم سب ملک کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے
لئے تیار ہیں۔ اس وقت ملک کو اس وبائی مرض سے محفوظ رکھنے کے لئے قربانیاں
درکار ہیں، لہذا ہماری خواتین نے دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے چل رہے دن رات کے
احتجاج کو وقتی طور پر ختم کردیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس مرض سے بچنے اور
دوسروں کو بچانے کے لئے اجتماعات سے دور رہیں۔ وقتاً فوقتاً ہاتھ دھوتے ہیں،
گھر اور گھر کے باہر کے علاقہ کو حتی الامکان صاف رکھیں۔ اگر کورونا وائرس
کی کوئی علامت پائی جائے تو پہلی فرصت میں ہسپتال کا رخ کریں۔ ہندوستان
زندہ باد، ہمارا ملک پائندہ باد۔۔۔۔
|