چین نے ایک قوم بن کر اس پر قابو پا لیا۔ کورونا نے
198ممالک اور خطوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے 21ہزار 300افراد کو لقمہ اجل
بنا دیا ہے ، متاثرین کی تعداد پونے پانچ لاکھ ہو گئی ہے ۔باہمی تعاون،
احتیاطی تدابیر سے صحتیاب ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھ کرایک لاکھ پندرہ
ہزار تک پہنچ چکی ہے۔یہ مثبت اشارہ سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ امریکہ کے ایک
سینیئر سائنس دان کا انتباہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے
کہ نیا کرونا وائرس موسمی بن جائے اور ہر سال ایک خاص موسم میں سر اٹھائے۔
اس خدشے کے پیش نظر وائرس کی ویکسین اور موثر علاج دریافت کرنے کی فوری
ضرورت ہے۔امریکہ کی نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں وبائی امراض پر تحقیق
کرنے والی ٹیم کے سربراہ انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس جنوبی
نصف کرے میں جڑیں مضبوط کر رہا ہے جہاں اس وقت موسم سرد ہے۔خدشہ ہے کہ
کرونا وائرس دوبارہ حملہ کرے گا۔موجودہ صورت حال اس ضرورت پر زور دیتی ہے
کہ ہم ویکسین تیار کرنے، اسے تیزی سے ٹیسٹ کرنے اور اسے قابل استعمال بنانے
کے لیے کیا کر رہے ہیں تاکہ کرونا وائرس کے اگلے حملے تک ہمارے پاس ویکسین
موجود ہو۔اس وقت دو ویکسینز انسانوں پر آزمائشی استعمال کے مرحلے میں ہیں۔
ان میں سے ایک ویکیسن امریکہ اور دوسری چین میں بنائی گئی ہے۔ ان ویکسینز
کا استعمال عام ہونے میں ایک ڈیڑھ سال لگ جائے گا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ
(آئی ایم ایف) اور عالمی بینک نے ترقی یافتہ ممالک سے دنیا کی غریب ترین
اقوام کے قرضوں کی ادائیگیاں موخر کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ کورونا
وائرس کی وبا کا مقابلہ کرسکیں۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک کو عالمی سطح پر
ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ گرتی ہوئی مالیاتی منڈیوں کو ایک مثبت پیغام دینا
ضروری ہے۔اس اقدام کی ہدایت 'آئی ڈی اے' کے رکن ممالک کو کی گئی ہے جو دنیا
میں سب سے زیادہ فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی عالمی
مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ممالک سے کورونا وبا کے تناظر میں غریب
ممالک کے قرضے معاف کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ جہاں اسپین
میں 500سال بعد اذانیں گونج رہی ہیں ، وہیں مساجد کی بندش یا باجماعت نماز
کی ادائیگی کے بارے میں بھی بحث جاری ہے۔ سعودی شاہ سلمان نے مکہ، مدینہ
اور دارالحکومت ریاض کو لاک ڈاؤن کرنے کا فرمان جاری کر دیاہے۔سعودی عرب کی
سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے
لیے ان تین شہروں میں لاک ڈاؤن کا شاہی فرمان جاری کیا ہے۔ شاہ سلمان نے
مکہ اور ریاض میں کرفیو کے اوقات بھی بڑھا دیئے ہیں۔ پہلے کرفیو کے اوقات
مقامی وقت کے مطابق شام سات بجے سے صبح چھ بجے تک تھے جو اب سہ پہر تین بجے
سے شروع ہو جائے گا۔سعودی شاہ کی جانب سے یہ نئے احکامات اس وقت سامنے آئے
جب سلطنت میں بدھ کو کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 767 تک جا
پہنچی۔ اس وائرس سے ملک میں ایک ہلاکت بھی رپورٹ ہو چکی ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی علماء سے درخواست کی ہے کہ وہ قرآن اور
سنت کے اصولوں کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے فوری
اقدامات کریں۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ایران، الجزائر، تیونسا، اردن،
کویت، فلسطین، ترکی، شام، لبنان، مصر جیسے ممالک نے مساجد میں با جماعت
نمازیں روک دی ہیں۔ صدر مملکت کی درخواست پر جامعہ الازہر مصر نے فتویٰ دیا
ہے کہ باجماعت نماز اور نماز جمعہ کی منسوخی کا اختیار سرکاری حکام کو ہے۔
جامعہ الازہر کے مطابق عوامی اجتماعات، باجماعت نماز کورونا کے پھیلاؤ کا
باعث بنتے ہیں۔ سپریم کونسل جامعہ الازہر کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں درپیش
حالات کو مدنظر رکھا جائے۔ اہلخانہ اپنے گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام
کرسکتے ہیں، بحران میں طبی احتیاطی تدابیر پر ریاستی حکام کے احکامات کی
پیروی کریں۔
اس وبا کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا میں بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔
فیکٹریوں اور ملز کی بندش ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے نجی سیکٹر کے ہزاروں
ملازمین بے روزگار ہو کر گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ جیسا ملک
بھی پریشان ہے۔ امریکہ کے مرکزی بینک 'فیڈرل ریزرو بینک آف سینٹ لوئس' کے
صدر جیمز بلارڈ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث امریکہ
میں کم سے کم چار کروڑ 60 لاکھ افراد قلیل مدت میں بے روزگار ہو جائیں گے۔
بلارڈ کا کہنا ہے کہ کورونا کی پھیلتی ہوئی وبا سے کئی کمپنیاں عوامی سروسز
بند کرچکی ہیں ،جس سے کروڑوں افراد کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑیں
گے۔انہوں نے کہا کہ اگر پالیسی بنانے والے انکم سپورٹ اور دیگر پروگراموں
میں تیزی سے آگے بڑھتے ہیں تو آنے والے ہفتوں میں معیشت کو سہارا مل سکتا
ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ نے وزیراعظم عمران خان
کے مطالبہ کے بعد کہا ہے کہ کورونا وائرس کا سامنا کرنے والے ایران اور
دیگر ممالک پر عائد پابندیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے تاکہ کمزور طبی
نظاموں کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے
انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے ایک بیان میں کہاکہ اس نازک موڑ پر جب عالمی
سطح پر عوام کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان ممالک میں لاکھوں افراد
کے حقوق اور ان کی زندگیوں کو بچانے کی خاطر پابندیوں کی شدت کو کم یا معطل
کیا جائے۔کئی ممالک وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگی نوعیت کی مشقیں کر رہے
ہیں۔ روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ صدر ولادی میر پوٹن کے حکم پر فوج
کورونا کی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے مشقیں انجام دے رہی ہے۔ روسی صدر کا
یہ حکم اس وقت جاری کیا گیا جب ملک میں کورونا کے انفیکشن سے متاثرہ افراد
کی تعداد 658 تک جا پہنچی۔ماسکو کے میئر نے صدر پوتن کو بتایا کہ
دارالحکومت میں اس وبا کا اصل پھیلاؤ سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ
ہے۔روس میں 25 سے 28 مارچ تک جاری رہنے والی ان مشقوں میں روسی فوج کے طبی
یونٹ، جوہری، حیاتیاتی اور کیمیائی تحفظ کے دستے حصہ لے رہے ہیں۔یہاں اسلام
آباد میں سی ڈی اے انتظامیہ، ضلعی انتظامیہ اور میٹروپولیٹن کارپوریشن
اسلام آباد کو اسلام آباد کی بڑی مارکیٹوں مراکز بڑی شاہراوں اور مصروف
ترین علاقوں کو کیمیکل سے دھونے اور صاف ستھرا کرنے کی ہدایات جاری کر دی
گئی ہیں۔ تمام شعبے باہم مل کر صفائی کی اس خصوصی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
یہ اقدام اسلام آباد میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اٹھایا
گیا ہے تاکہ اسلام آباد میں ماحول کو صاف ستھرا رکھ کر کرونا وائرس کے
پھیلاؤ کا سد باب ممکن ہوسکے۔ ضلعی انتظامیہ نے اٹک کی ایک کیمیکل فیکٹری
سے کیمیکل حاصل کر لیا ہے اور وزارت صحت سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔ سی ڈی اے
انتظامیہ کی ہدایت کی روشنی میں سی ڈی اے کیپیٹل ہاسپیٹل میں موجود
چارونٹیلیٹرز کو فنکشنل کردیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں
مریضوں کو فوری طبی امداد بہم پہنچائی جاسکے۔ کیپیٹل ھسپتال میں کسی بھی
ایمرجنسی کی صورت سے نبرد آزما ہونے کے لیے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف
کو الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے اور کیپیٹل ھسپتال میں کیمپ آفس
قائم کردیا گیا ہے۔ ہیلتھ ایڈوائزری پر مکمل عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا
جا رہا ہے۔ ملک بھر، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان میں انتظامیہ نے شہریوں سے
درخواست کی ہے کی وہ کورونا وائرس سے تحفظ اور مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے
انتظامیہ سے بھرپور تعاون کریں اور بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں اور
حکومت کی طرف سے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے دی جانے والی ہدایات پر عمل
کریں نیز اپنے آپ کو گھروں تک محدود رکھیں۔چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں
عوام نے حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اب چین کے صوبے ہوبائی میں دو ماہ
بعد لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے اور آخرکار لوگوں کی آمد و رفت پر سے
پابندی اٹھا لی گئی ہے۔پابندی اٹھائے جانے کو غنیمت جانتے ہوئے بسیں اور
ٹرینیں لوگوں سے کھچا کھچ بھر گئی ہیں۔صحت مند افراد اپنے گھروں کو جا رہے
ہیں ۔ لوگ اپنے پیاروں سے ہفتوں پہلے جدا ہونے کے بعد ملنے کے خوہش مند
ہیں۔جس طرح افریقہ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں ایئر برج اور مراکز قائم
ہو رہے ہیں تاکہ رضاکار، انسان دوست کارکن رسد کو ضرورت مندوں میں تقسیم
کریں۔اسی طرح یہاں کے ضرورت مندوں کو اپنی قسمت پر چھوڑنا ظالمانہ اور غیر
دانشمندانہ ہوگا۔ یہ وائرس اب ان ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس میں صحت
کے کمزور نظام موجود ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کو پہلے ہی انسانی
بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان ممالک کو یکجہتی کے بجائے عالمی تعاون کی ضرورت
ہے۔یہ بھی درست ہے کہ بچے اس وبائی مرض کا پوشیدہ شکار ہیں۔ لاک ڈاؤن اور
اسکولوں کی بندش سے ان کی تعلیم، دماغی صحت اور بنیادی صحت کی خدمات تک
رسائی متاثر ہورہی ہے۔چین کی طرح یہاں بھی عوام اور حکومتیں باہمی تعاون سے
اس وبا پر آخر کار قابو پانے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اس کے لئے چین کا
ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ دین اسلام بھی ہمیں وباکا پھیلاؤ روکنے، ناداراور
مستحقین کی امداد کی ہدایت دیتا ہے۔ ہم بھی ایک قوم بن کر اس پر قابو پا
لیں گے۔
|