مکتی باہنی کا حملہ ایک دن میں
نے مولانا طیب صاحب سے اسرار کر کے پوچھا کہ جس روز آپ کے گاؤں میں کھانے
گئے تھے اس روز کیا بات تھی جس کی وجہ سے آپ گھبرائے ہوئے تھے اور جلدی میں
آپ نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا ۔ میری بات کا جواب دینے سے پہلے انہوں
کلمہ شُکر پڑھا پھر بولے لطیف بھائی آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ اس دن ہم لوگ
صحیح سلامت آ گئے، ہمارے جانے سے پہلے ” دو مکتی باہنی“ کے آدمی جو ہمارے
رشتہ دار بھی ہوتے ہیں گاﺅں میں موجود تھے ان کو جب پتہ چلا کہ کوئی پنجابی
میرے ساتھ آیا ہے تو وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے جبکہ میں پریشان اس لیے تھا کہ
وہ لوگ کہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس آ کر ہم پر حملہ نہ کر دیں اور میں
اپنے مہمان کے لیے کچھ بھی نہ کر سکوں، مگر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ وہ
لوگ واپس نہیں آئے ، اسی لیے میں جلدی میں آپ کو لے کر وہاں سے نکل آیا۔یہ
سن کر میں مطمئین سا ہو گیا اور اس دن میرے دل میں مولانا کے متعلق جو بد
گمانی سی پیدا ہوئی تھی وہ بھی دور ہو گئی۔
لاہوری دوستوں کے ساتھ مل کر دن تو اچھے گزرنے لگے مگر کام کی ابھی تک کوئی
شکل بنتی دکھائی نہیں دے رہی تھی ،اگست کا پورا مہینہ بارشوں کی نذر ہو گیا
،آخر خدا کر کے ستمبر میں کچھ برسات میں کمی ہوئی تو میں نے مولانا طیب
صاحب سے فون کر کے جنگل جانے کا پروگرام بنایا ، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ
ابھی اور آٹھ دس روز کے بعد بانس کی کٹائی شروع ہو گی،دل پر یہ بات گراں تو
گزری مگر پھر یہی سوچ کر خاموش رہا کہ جہاں اتنے دن گزرے ہیں دس دن اور سہی
، اور ہم بذل سوداگر کو تاکید کر کے واپس آ ئے کہ آئندہ کوئی بہا نہ نہیں
چلے گا۔
کچھ فوجی بھائیوں سے دوستی ہو گئی تھی اس لیے ہر چھُٹی کے دن ہم کچھ دوست
مل کر چٹاگانگ کینٹ میں فوجی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے چلے جاتے ، میں
حیران تھا کہ بس میں کرایہ لینے کوئی نہ آتا ،ایک دفعہ میں نے دینا بھی
چاہا تو کنڈیکٹر ہنس کر آگے بڑھ گیا، دوپہر کا کھانا بھی کینٹ میں کھاتے
غرض کہ سارا دن ہنستے کھیلتے اچھا گزر جاتا ۔ایک لطیفہ جو فوجی محمد خاں نے
سنایا ، مجھے آج بھی جب یاد آتا ہے تو ہنسی آنے لگتی ہے ۔انہوں نے جس انداز
سے سنایا تھا وہ تصور کر کے ہی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ انہوں بتایا کہ ایک
بنگالی درزی سے میں کپڑے سلوانے گیا ،درزی بنگالی لہجے میں اردو بولتا تھا
مجھے دیکھ کر سلام کیا تو میں نے پوچھا ،کیا کرہے ہو بھئی، درزی جو ہاتھ
میں قینچی لیے کپڑے کاٹنے کی ٹیبل پر جھُکا ہوا تھا، سیدھا ہوتے ہوئے
بولا”پنجابی کاٹ رہا ہے شاب“ یاد رہے کہ کُرتے کو بنگالی زبان میں ’پنجابی‘
کہتے ہیں۔ محمد خان کو اس بات کا علم نہیں تھا ، ان کا منہ حیرت سے کھلا کا
کھلا رہ گیا، انہوں بندوق درزی پر تان کر غُصے سے بولا ، کون ہے جو پنجابی
کو کاٹ رہا ہے تو ؟ درزی بیچارے نے سہم کر ٹیبل پر پڑے کپڑے کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا ”شاب یہ کپڑے سے پنجابی بنا رہا ہے“ ادھر ایک صاحب جو اس
درزی کا مطلب سمجھتے تھے انہوں نے محمد خان کو جب سمجھایا تو وہ خوب ہنسے
اور کہنے لگے ، بھئی میں تو یہ سمجھا کہ کہیں یہ بھی مکتی باہنی کی طرح
پنجابیوں کو کاٹنے کی باتیں کر رہا ہے۔
|
چھٹی کے دن مصنف اپنے دوستوں کے ہمراہ چاٹگام چھاؤنی میں جا کر اپنے
پاکستانی فوجی بھائیوں کے ساتھ گپ شپ کرتے اور تاش بازی لگتی اکثر دوپہر کا
کھانا بھی وہیں ہوتا٬ جو لوگ پاکستانی فوج پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ
انہوں نے اکتہر میں مارچ سے دسمبر تک روزانہ چھ سے بارہ ہزار بنگالی مارے
انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے اتنے بندے مارنے والے چھاؤنی میں اتنے سکون سے
نہیں رہتے- یہ تصویر اگست 1971ﺀ کی ہے اور اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ پاک
فوج کو بدنام کرنے کے لیے تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام کا الزام من گھڑت
اور بے بنیاد ہے-
اگر کہیں پر کسی فوجی نے کوئی زیادتی کی تو اس کا کورٹ مارشل بھی ہوا جس کی
گواہی ہمیں بنگال رجمٹ والوں نے بھی دی کہ ٹکا خان کے زمانے میں بہت سے
مغربی پاکستانی فوجیوں کا کورٹ مارشل ہوا باقی اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے
ہیں بنگالیوں میں بھی سب فرشتے نہیں تھے جہاں ان کا بس چلا انہوں نے بھی سب
کچھ کیا مگر بدنامی پاکستانیوں کے حصے میں ڈال دی جاتی تھی- |
ستمبر میں مکتی باہنی کی سرگرمیاں دن بدن تیز ہوتی جا رہی تھیں دور دراز کے
واقعے تو بہت سننے کو ملتے تھے جیسے جودھے پور کا بجلی گھر بم سے اُڑا دیا
گیا اور اس کی مرمت کرنے والوں کو جان سے مارنے کی دھمکیا ں ملنے کی وجہ سے
کو ئی مر مت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا جب مغربی پاکستان سے جا کر کچھ
ماہروں نے ٹھیک کرنے کی کوشش کی تو اُن کو مار کر پانچ میں سے ایک کی لاش
کھمبے پر لٹکا دی گئی اور باقی چار کی لاشیں بھی غائب کر دی گئیں ، گورنر
عبدلمنعم خان کو دن دیہاڑے ان کی رہاش گاہ پر شہید کر دیا گیا۔ ادھر ٹکا
خان کے واپس جانے اور اُن کی جگہ جنرل نیازی کے آنے سے حالات بہت بگڑ گئے
جس کا اندازہ ہمیں ایسے ہوا کہ ہم لوگ حسبِ دستور چھٹی کے دن بس میں کینٹ
جا رہے تھے تو بس کنڈیکٹر مسکراتے ہوئے ہمارے پاس آکر کہنے لگا ۔”شاب ٹِکا
خان چولے گے سے“ (صاحب ٹکا خان چلا گیا ہے) اس سے ہمیں اندازہ ہو ا کہ ٹکا
خان کی ایک اپنی دہشت تھی ، یہ کہنے کا اُس کا مقصد تھا اب ٹکٹ لے لیں،
بہرحال ہم میں سے زلفی نے اسے غصے میں اکڑ کر جواب دیا ، ” اوئے ۔۔۔۔۔۔ ہم
سب ٹکا خان ہیں ۔
اُسی رات کو تقریباً ایک بجے ہماری رہائش پر دستی بم پھینکا گیا ۔ اسے ہم
سب کی خوش قسمتی سمجھیے کہ بم پہاڑی کے نیچے سڑک پر گر کر پھٹا ایک زوردار
دھماکہ ہوا ہم سب لوگ ہڑبڑا کر اٹھے لائٹ بھی ساتھ ہی چلی گئی اندھیرے میں
آہستہ آہستہ ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے دھماکہ اتنا زبردست تھا کہ
کھڑکیوں دروازوں کے سب شیشے چکنا چور ہوگئے۔زلفی خورشید کو آواز دے کر کہہ
رہا تھا ، ”اوئے حملہ ہو گیا ای اپنی پستول کڈ لے آ“(ارے حملہ ہو گیا ہے
اپنی پستول نکال لاﺅ) دوسری طرف ریاض عزیز صاحب کو کہہ رہا تھا، بندوق کہاں
ہے جلدی کرو ۔اتنے میں کسی نے ٹارچ کی تیز روشنی ہماری طرف ماری جس سے
آنکھیں تھوڑی دیر کے لیے چندھیا سی گئیں۔
(جاری ہے) |