روشنی اور تاریکی میں سے ایک کا انتخاب ضروری ہے، خاک سے
لے کر افلاک تک اور نفوس سے لے کر آفاق تک یہ انتخاب ناگزیر ہے، انسان
اپنی فطرت، میلان اور رجحان کے مطابق بہتے ہوئے پانی کے بہاو کی طرح روشنی
یا تاریکی کی طرف خود بخود چلا جاتا ہے۔ کسی بھی طرف انسان کا جھکاو اگر
دلیل کے بغیر ہو تو تعصب ہے اور اگر دلیل کے ہمراہ ہو تو عین عدل ہے۔ علم،
حقیقت، سچائی اور روشنی کی طرف جھکاو یہ کسی مذہب، مسلک اور ملک کی میراث
نہیں بلکہ مطالعے، تحقیق، جستجو، تعقل، تفکر، تدبر اور بصیرت کا ثمر ہے.
بہت جرات چاہیئے روشنی کو روشنی اور تاریکی کو تاریکی کہنے کیلئے۔ مثلاً
اگر میں مسلمان ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام انسان کو سیاسی و
جمہوری حقوق دیتا ہے۔ میرے یہ سمجھنے سے کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔
تبدیلی اس وقت آئے گی، جب میں اپنی سوچ پر قائم رہتے ہوئے جرات کے ساتھ
عملی فیصلے بھی کروں گا۔ عملی فیصلے کرنے کیلے صرف قوت فیصلہ کا ہونا کافی
نہیں ہے بلکہ حقائق سے آگاہی اور درست معیار کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر
قوتِ فیصلہ بہت ہی مضبوط ہو، لیکن معلومات یا معیارات غلط ہوں تو فیصلہ بھی
غلط ہی ہوگا۔
آج دنیائے اسلام مختلف غلط فہمیوں میں تقسیم اور ان گنت ٹکڑوں میں بٹی
ہوئی ہے۔ اس تقسیم در تقسیم کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تجزیہ و
تحلیل کرتا ہے تو ہم اس کی معلومات، اسکے معیار اور اس کی قوت فیصلہ کو
پرکھنے کے بجائے، فوراً اس پر یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ اس کا جھکاو فلاں
کی طرف ہے۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ اگر کوئی تجزیہ کار ہمارے علاوہ
کسی اور دین، فرقے یا ملک میں پیدا ہوگیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم
نے خواہ مخواہ اس کی مخالفت ہی کرنی ہے۔ تجزیہ و تحلیل چاہے کافر اور مشرک
ہی کرے، ہمیں اس کی دی گئی معلومات کو سب سے پہلے پرکھنا چاہیئے کہ یہ
معلومات درست بھی ہیں یا نہیں، پھر اس کے معیارات کو دیکھنا چاہیئے کہ وہ
جو معیارات بیان کر رہا ہے، وہ بھی صحیح ہیں یا نہیں، اس کے بعد یہ دیکھنا
چاہیئے کہ وہ اپنی معلومات اور معیارات کے مطابق ہی فیصلہ کر رہا ہے یا
اپنے ہی معیارات کو روند رہا ہے۔ اگر ایک آدمی درست معلومات اور صحیح
معیار کے ساتھ ایک فیصلہ کرتا ہے تو اس پر یہ الزام لگانے کے بجائے کہ اس
کا جھکاو فلاں کی طرف ہے، ہمیں متبادل میں معلومات فراہم کرکے درست معیار
کے مطابق جواب دینا چاہیئے۔
آج دنیا میں مسلمان ممالک اور حکمران کیا کر رہے ہیں!؟ اس سوال کے جواب
کیلئے ہمیں کسی مسلکی عینک یا کسی ملک کے ترازو کی ضرورت نہیں، کسی مسلک کی
عینک کے بجائے تحقیق کی عینک پہنیے اور کسی ملک کو ترازو بنانے کے بجائے
عدل و انصاف کا ترازو اٹھائیے۔ آج ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں
زندگی گزار رہے ہیں، تحقیق کی دنیا میں ہم کسی ملک یا مسلک کے محتاج نہیں
ہیں۔ ہمیں اگر ساری دنیا کے نہ سہی تو کم از کم عالم اسلام کے مسائل کا تو
صحیح علم ہونا چاہیئے۔ ہمیں درست معلومات کے ساتھ اتنا تو پتہ ہونا چاہیئے
کہ آج مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ کس کی ایما پر ہو رہا ہے!؟
کون کس کے حصے کی جنگ لڑ رہا ہے!؟ آخر ہمارے ہاں یہ جاننا اور بیان کرنا
کیوں جرم بن گیا ہے کہ بشارالاسد کا قصور کیا ہے اور کیوں ساری دنیا اس کے
پیچھے پڑی ہوئی ہے!؟ کیا سعودی عرب کے بادشاہ امریکی و اسرائیلی اسلحے کے
ساتھ یمن اور شام میں جمہوریت قائم کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں۔؟
کیا بشار الاسد کا جرم اور گناہ یہ ہے کہ وہ ایک آمر اور ڈکٹیٹر ہے!؟ اگر
آمریت کی قباحت کی وجہ سے بشار الاسد کی تبدیلی ضروری ہے تو یہ قباحت تو
سعودی عرب و امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کے بادشاہوں میں بدرجہ اولیٰ
پائی جاتی ہے۔ کیا بشار الاسد کا جرم یہ ہے کہ اس نے اہل سنت پر کوئی ظلم
کیا ہے، جیسا کہ اس کے مخالفین کہتے ہیں!؟ اگر مخالفین کا یہ بے بنیاد
الزام مان بھی لیا جائے تو پھر بھی سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے جتنا
ظلم اہلِ سنت پر کیا ہے، اتنا تو بشار الاسد نے نہیں کیا!؟ خلافت عثمانیہ
کے خاتمے سے لے کر مکے اور مدینے میں اہلِ سنت کے اکابرین اور صحابہ کرام
کے تاریخی و ثقافتی مقامات اور مقدس مزارات کو سعودری عرب نے مٹا کر رکھ
دیا ہے۔ آج بھی سعودی عرب سمیت ان ساری عرب ریاستوں میں عیاشی کے اڈے،
جوئے کے مراکز، شراب خانے، مندر اور چرچ تو تعمیر ہوسکتے ہیں، لیکن اہل سنت
کسی صحابی یا ولیِ خدا کی درگاہ، مزار یا یادگار نہیں تعمیر کروا سکتے۔ کیا
بشارالاسد نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کیا ہے اور یا پھر
کیا آج تک اہل سنت کے اکابرین کے مزارات اور تاریخی مقامات کو نعوذباللہ
منہدم کروایا ہے!؟
تحقیق کرنے اور لائبریریوں میں وقت صرف کرنے والے احباب کو صرف اتنا سوچنے
کی دعوت دیتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہیں تو دونوں طرف بادشاہ، آمر اور
ڈکٹیٹر، اگر شام کا حکمران بشارالاسد ڈکٹیٹر ہے تو مدقابل میں عرب ریاستوں
کے حکمران بھی تو آمر اور ڈکٹیٹر ہیں!؟ پھر کیا وجہ ہے کہ امریکہ و
اسرائیل بشار الاسد کے تو مخالف ہیں، لیکن دیگر عرب بادشاہوں کے اتحادی اور
سرپرست ہیں!؟ کوئی بھی باشعور مسلمان خواہ کسی بھی ملک اور مسلک سے تعلق
رکھتا ہو، وہ اتنا ضرور سمجھتا ہے کہ جو بھی امریکہ و اسرائیل کا آلہ کار
اور مددگار ہے، وہ سو فیصد غلط، باطل اور ملتِ اسلامیہ کا غدار ہے۔ اگر
کوئی یہ سوالات پوچھے تو اس پر بشار الاسد کی طرف جھکاو کا الزام لگانے کے
بجائے ہمیں خلیجی بادشاہوں اور بشار الاسد کی تاریخ اور دونوں کے اہل سنت
پر جو مظالم ہیں، انہیں سامنے رکھ کے خود یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ اہل سنت
کا دشمن کون ہے! ہمیں خود یہ تحقیق کرنی چاہیے کہ اسرائیل کی آنکھ میں
کانٹے کی طرح بشار الاسد کھٹک رہا ہے یا سعودی عرب اور اس کے اتحادی!؟
بشارالاسد تو آئے روز اسرائیلی حملوں کا سامنا کرتا ہے اور انہیں جواب بھی
دیتا ہے، لیکن کیا سعودی عرب کے بنائے ہوئے اس فوجی اتحاد نے کبھی اسرائیل
کی طرف ایک پتھر بھی پھینکا ہے! کیا ہم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اگر امریکی
و اسرائیلی لابی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام کو شکست دے دیتی ہے تو
پھر اسرائیل خود بخود گریٹر اسرائیل میں تبدیل ہو جائے گا۔
قارئین محترم! موازنے کے بغیر تحقیق کا کوئی ثمر نہیں نکلتا! آپ تحقیق کے
بعد سعودی عرب اور شام کا موازنہ کرکے خود فیصلہ کیجئے کہ آج مشرقِ وسطیٰ
کو تباہ کرنے کیلئے کون لڑ رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے دفاع کیلئے اسرائیل کے
سامنے کون چٹان بن کر کھڑا ہے!؟ آج اگر ترکی اور شام کی لڑائی ہے تو پھر
بھی میزان وہی ہے! آپ ترکی اور شام کے اختلافات کی وجہ کو تحقیق کے ساتھ
جانیے، پھر امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ترکی اور شام کے تعلقات کا موازنہ
کیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ شام کے خلاف سعودی عرب اور ترکی کس کے مفاد کی
جنگ لڑ رہے ہیں!؟ میں آخر میں اپنے قارئین کیلئے یہ جملہ پھر دہرا دینا
چاہتا ہوں کہ علم، حقیقت، سچائی اور روشنی کی طرف جھکاو یہ کسی مذہب، مسلک
اور ملک کی میراث نہیں ہے بلکہ مطالعے، تحقیق، جستجو، تعقل، تفکر، تدبر اور
بصیرت کا ثمر ہے۔ یاد رکھئے کہ جھکاو اگر دلیل کے بغیر ہو تو تعصب ہے اور
اگر دلیل کے ہمراہ ہو تو عین عدل ہے۔ آج ہمارے بچے بچے کے لئے تحقیق اور
آگاہی کے ساتھ یہ جاننا ضروری ہے کہ گریٹر اسرائیل کے مقابلے میں ہمارا
جھکاو کس طرف ہونا چاہیئے۔ |