کورونا اور غرباء کا رونا

جہاں کورونا نے غرباء کو مشکل میں ڈالا ہے وہاں اس نے مخیر حضرات کو بھی خدمت کا موقع دیا ہے اور نام نہاد عوامی نمائندوں کا پردہ فاش بھی کیا ہے. جو کہ الیکشن سے ایک دن قبل آتے ہیں اور ووٹ لے جاتے ہیں. لیکن جب ان کے حلقہ کی عوام مشکل میں ہوتی ہے تو وہ نظر بھی نہیں آتے. اور یہی نام نہاد عوامی نمائندے الیکشن کی تیاری میں کروڑوں  روپے سرف کردیتے ہیں. لیکن ان حالات میں وہ اپنی انویسمنٹ کا بال بھی بیکا نہیں کرتے. ایسے سب کردار قابل مذمت ہیں.

عموماً یوں معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کی آنکھ نہیں ہے کیونکہ جہاں اس نے غریبوں کو مشکل میں ڈالا ہے وہاں یہ امیروں کے لئے بھی وبالِ جان بن گیا ہے. لہٰذا امیر ہو یا غریب اس کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے. کیونکہ یہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا ہے. لہٰذا تب ہی یہ امیر اور غریب کی تفریق سے عاری ہے. کیونکہ جانوروں کے ہاں امیر اور غریب کی کوئی اختراع سرے سے ہی موجود نا ہے. یہ سب تو بنی نوع کی اپنی اصطلاح ہے. لہٰذا کورونا نے جہاں غریب ممالک کا سفر کیا وہاں دنیاوی طاقتوں کو بھی اس نے شدید متاثر کیا اور یہاں تک کہ آج وہی دنیاوی طاقتیں جو کہ کبھی اپنی ٹیکنالوجی اور سائنس پر فخر کرتی تھیں اور خدا کی طاقت کو محض دکھاوا تسلیم کرتی تھیں آج وہ اسی خدا(ﷲ) سے رحم طلب کر رہی ہیں. کیونکہ بیشک ساری کائنات کا خالق تو وہ ہی ہے. اور یہ ذرہ برابر جو کہ دکھائی بھی نہیں دیتا جیسے جراثیم کے خوف میں مبتلا کر کے وہ اپنی ربائیت کا مظاہرہ کررہا ہے. اور بنی نوع کو اس کی اوقات دکھا رہا ہے. اور یہ سمجھا رہا ہے کہ بیشک سائنس کتنی بھی ترقی کرلے یا ٹیکنالوجی کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو جائے وہ آج بھی چھوٹی سی چیز کے خوف میں مبتلا کرکے یہ نظام درہم برہم کرسکتا ہے. اور بیشک وہ ایسا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے. رہی بات اس خوف کی جس میں غریب تو غریب امیر زیادہ مبتلا ہے یہ ہم پر مسلط کیوں کیا گیا؟ تو اس کا جواب سادہ سا ہے کہ تمام بنی نوع انسان چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کے سب ﷲ سے دور ہوگئے تھے. لہٰذا اس نے یہ ہلکا سا جھٹکا دیا ہے کہ شائد میرے بندے توبہ کرکے میرے قریب ہوجائیں. لہٰذا اس مشکل وقت کو ﷲ کی طرف سے اپنی درستی کا اشارہ سمجھا جائے. تو جیسے ہم بات کر رہے تھے کہ اس کی زد میں امیر ہویا غریب سب آئے ہیں. لیکن غریب کا سفر امیر کی نسبت زیادہ کٹھن ہے. کیونکہ جو غریب دن رات محنت کر کے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلاتا تھا اب وہ اس روٹی سے بھی محروم ہوگیا ہے. کیونکہ یہ کورونا جس ملک بھی گیا ہے اس نے وہاں کے نظام کو جیسے منجمند کردیا ہے اور وہاں کی معیشت، صنعت، کھیل، روز مرہ گویا ہر چیز کو متاثر کیا ہے اور ترقی کے پہیے کو تو جیسے پنکچر کردیا ہے. لیکن یہ وائرس یہاں ہی نہیں رکتا بلکہ انسانی جانوں کا نقصان بھی اس کی تباہی کی اول قسم ہے. جس کی وجہ سے حکومتوں کو لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑ رہا ہے. کیونکہ اس وائرس میں چھونے سے پھیلنے کی طاقت ہے لہذا انسانوں کو معاشرتی دوری اور گھروں میں محصور ہو کر رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے. لیکن جیسے کہ پاکستان جوکہ معاشی حوالے سے زیادہ امیر ملک نہیں ہے اور جہاں پیسہ چند خاندانوں کی میراث ہے. وہاں اس صورتحال میں دردناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں. کیونکہ محنت کش طبقہ صنعتوں کی بندش کی وجہ سے گھر بیٹھا ہے اور ایک وقت کی روٹی کے لئے تگ و دو کررہا ہے. یہاں ایک واقعہ تو مجھ خاکسار کی نظر سے بھی گزرا ہے جو کہ سفید پوش خاتون کے متعلق ہے جو کہ کئی دنوں سے اپنے بچوں کو مرچ تل کر روٹی کھلا رہی تھی. ایسے انگنت واقعات روز رونما ہورہے ہیں جوکہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں. لہٰذا اس سلسلے میں حکومت بھی کوشش کررہی ہے کہ جتنی اس کی بساط ہے وہ غریب طبقے کی معاونت کرسکے. لیکن پاکستان میں پانچ کروڑ کی آبادی خط غربت سے نیچے ہے جو کہ بہت بڑی تعداد ہے. اسلئے اس تعداد کو راشن کی مکمل فراہمی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے. لیکن اس صورتحال میں مخیر حضرات بھی حکومت کے ساتھ ساتھ مدد کررہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو راشن کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں. لیکن یہ سب پھر بھی کم ہے کیونکہ لینے والے ہاتھ زیادہ ہیں اور دینے والے کم ہیں. لہذا یہ خلا جب ہی پورا ہو سکتا ہے جب سب مخیر حضرات مل کر غرباء کو کندھا دیں. کیونکہ ہم سب مردہ کو ہی کندھا دیتے آئے ہیں لیکن اس وقت زندہ ہمارے کندھے کے منتظر ہیں . لہٰذا اس سلسلے میں ہم سب کو مل کر کندھا دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس سسکتی اور بلکتی انسانیت کو سہارا مل سکے. اس سلسلے میں بہاولنگر میں کندھا کے نام سے ایک انسانی خدمت سے لبریز چند لوگوں کی جماعت بھوک اور افلاس میں مبتلا سسکتی انسانیت کی خدمت کے لئے سامنے آئی ہے . جن کا شعلہ جوالہ احساس اور ہمدردی اور ان کا بنیادی مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے اور کسی بھی انسان کی تذلیل کیے بغیر خدمت کرنا ان کے جذبے کی عکاسی ہے. لہذا ایسی ہی سینکڑوں تنظیمیں دکھی انسانیت کے درد کا مداوا کر رہی ہیں. جن میں ایدھی، خدمت خلق، بحریہ ٹاؤن اور دیگر کا شمار ہوتا ہے. اس لئے جہاں کورونا نے غرباء کو مشکل میں ڈالا ہے وہاں اس نے مخیر حضرات کو بھی خدمت کا موقع دیا ہے اور نام نہاد عوامی نمائندوں کا پردہ فاش بھی کیا ہے. جو کہ الیکشن سے ایک دن قبل آتے ہیں اور ووٹ لے جاتے ہیں. لیکن جب ان کے حلقہ کی عوام مشکل میں ہوتی ہے تو وہ نظر بھی نہیں آتے. اور یہی نام نہاد عوامی نمائندے الیکشن کی تیاری میں کروڑوں روپے سرف کردیتے ہیں. لیکن ان حالات میں وہ اپنی انویسمنٹ کا بال بھی بیکا نہیں کرتے. ایسے سب کردار قابل مذمت ہیں. لہٰذا اگر ہم سب ایک دوسرے کو کندھا دیں تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہم کورونا کے خوف سے بھی نجات پالیں گے. کیونکہ کسی بھی خوف کا تدارک یوں ہوسکتا ہے کہ انسان میں خدا کا خوف آجائے. یہ خوف، ہر خوف سے نجات دلاتا ہے. اگر انسان اپنے آپ کو ﷲ کے سپرد کردے تو ہر خوف ختم ہوجاتا ہے. لہٰذا اگر ہم نیت کی پاکیزگی کے ساتھ غرباء کو کندھا دیں تو ہم ﷲ کے خاص بندے بن سکتے ہیں اور ﷲ کے خاص بندوں کو خوف و حزن نہیں ہوتا. شاعر نے بھی کیا خوب ﷲ کے خاص بندوں کی تصویر کشی کی ہے، ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ؛
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

Muhammad Humayun Shahid
About the Author: Muhammad Humayun Shahid Read More Articles by Muhammad Humayun Shahid: 34 Articles with 31513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.