بھارتی آبی جارحیت اور ہماری غفلت؟


حسیب اعجاز عاشر
کبھی سوچا ہے، دریا صرف پانی کا بہاؤ نہیں ہوتے، یہ تہذیبوں کی مائیں، تمدن کی رگیں اور زندگی کے دروازے ہیں۔ دریاؤں کے کنارے بستیاں آباد ہوتی ہیں، کھیت لہلہاتے ہیں، بچے ہنستے ہیں اور نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ لیکن جب یہی دریا غصے میں آ جائیں تو مٹی کے گھروندے، انسانوں کے خواب اور سبز کھیت پلک جھپکتے میں نگل جاتے ہیں۔
موجودہ بارشوں اور بھارت کی آبی پالیسیوں نے ایک بار پھر ہمارے دریاؤں کو خون کے آنسو رلوا دیا ہے۔ ستلج، راوی اور چناب کا پانی، جو کبھی برکت کی علامت تھا، آج خوف کی نشانی بن چکا ہے۔ بھارت نے تھین ڈیم (رنجیت ساگر ڈیم) کے تمام دروازے کھول کر ایسا ریلا چھوڑا ہے جو سرحد پار بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ شاہدرہ، قصور، اوکاڑہ، بہاولنگر اور بیسیوں بستیاں پہلے ہی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔اب چمیرہ ڈیم کے بھی تمام دروازے کھول کر راوی میں پانی کے دباؤ کو بڑھایا جا رہاہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ یہ بند بظاہر ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے جسے آبپاشی، برقی طاقت کی تیاری اور سیلابی ریلوں کے سدباب کے لیے بنایا گیا۔ مگر اب حقائق کچھ بتا رہے ہیں کہ بھارت نے اس بند کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایک ایسا ہتھیار بنا ڈالا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کی بستیوں اور کھیتوں کو سیلاب کی نذر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ درست ہے کہ بھارت برسوں سے سندھ طاس معاہدے کو اپنے سیاسی اور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ کبھی پانی روک لیتا ہے، کبھی اچانک چھوڑ دیتا ہے۔ دشمن کی چالوں میں شک نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کب تک ہر سال ایک ہی کھیل دہرائیں گے؟کیا ہمارا ردعمل صرف نعروں، اعلانات اور دعوؤں تک محدود رہے گا؟کیا ہم نے اپنی سرزمین پر ایسا نظام بنایا ہے جو دشمن کی آبی جارحیت کو بے اثر کر سکے؟دریائے راوی کے بند ٹوٹتے ہیں، بستیوں میں پانی داخل ہوتا ہے، لوگ مکان چھوڑ کر چھتوں پر یا کھلے آسمان تلے پناہ لیتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ اس تباہی کی اصل جڑ ہماری اپنی بے فکری ہے؟ ہماری اپنی زمین پر ''سوسائٹی مافیا'' نے جس طرح ہر ندی نالے، ہر کھیت کھلیان، ہر قدرتی گزرگاہ پر پکی دیواریں کھڑی کر دیں، وہ آج موت کے دروازے بن چکی ہیں۔
سیلاب صرف نقصان نہیں لاتا۔ پانی جب کھیتوں پر بچھتا ہے تو نئی مٹی کی پرت چھوڑ جاتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند کرتا ہے۔ زمین کو تازگی دیتا ہے۔ یہ قدرت کا تحفہ بھی ہے۔مگر افسوس! ہم نے اپنے شہروں کو ایسے تعمیر کیا ہے کہ اب یہ تحفہ آزمائش بن گیا ہے۔ 1988 میں جب ایسا ہی ریلا آیا تو پانی کو کھیتوں کے راستے گزار کر دوبارہ دریا میں شامل کر دیا گیا۔ لیکن آج انہی کھیتوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں، انہی میدانوں میں فیکٹریاں ہیں، اور انہی راستوں پر پختہ سڑکیں ہیں۔ اب اگر پانی آیا تو وہ کھیتوں میں نہیں بلکہ انسانوں کے گھروں میں اترے گا۔نالہ ڈیک اور دیگر قدرتی گزرگاہیں آج پکی بستیوں میں دب چکی ہیں۔ اگر لاہور تک یہ ریلا پہنچا تو پانی کی رفتار سڑکوں پر ویسی ہوگی جیسے گاڑی موٹروے پر دوڑتی ہے۔ یہ قدرت کا انتقام نہیں، ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ہم ہر بار یہی سوچتے ہیں کہ دشمن ہمیں جنگ کے میدان میں شکست نہیں دے سکتا۔ یہ سوچ بجا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگیں صرف بارود اور توپوں سے نہیں جیتی جاتیں۔ ایک اور محاذ بھی ہوتا ہے۔مصلحت کا، عقل کا، پانی کا۔بھارت ہر سال پانی روک کر یا اچانک چھوڑ کر ہمیں اربوں کا نقصان پہنچاتا ہے۔ اور ہم ہر بار وہی پرانا کھیل کھیلتے ہیں: سیاست دان الزامات لگاتے ہیں، ادارے اعلانات کرتے ہیں، عوام روتی ہے، اور چند دن بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف بڑے ڈیم ہی حل نہیں۔ پنجاب کا پورا نہری نظام ازسرِ نو تشکیل دینا ہوگا۔ پانی کے راستے بنانا ہوں گے، بیراج تعمیر کرنے ہوں گے، نہروں کا جال بچھانا ہوگا۔ ہمیں اپنے شہروں کی منصوبہ بندی بدلنی ہوگی۔ یہ ایک طویل مدتی مگر ناگزیر جنگ ہے۔اگر ہم نے آج فیصلہ نہ کیا تو کل کو ہمارے بچے پوچھیں گے:”جب دشمن ہر سال تمہیں پانی سے ڈبوتا تھا، تو تم نے ہماری حفاظت کے لئے کیا کیا؟“
دریا صرف پانی کا بہاؤ نہیں، یہ اللہ کی امانت ہیں۔ اگر ہم نے ان کے راستے بند کیے تو یہ ہمیں بہا لے جائیں گے۔ اگر ہم نے ان کے حقوق ادا کیے تو یہ ہمیں زندگی بخشیں گے۔ دشمن کی آبی جارحیت یقینا ایک چیلنج ہے، مگر اس سے بڑا چیلنج ہماری اپنی بے عملی اور غفلت ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے:کیا ہم اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ مستقبل دینا چاہتے ہیں؟ یا ہر سال انہیں سیلاب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے؟یاد رکھیے۔ دفاع صرف ہتھیاروں سے نہیں ہوتا، دفاع کا ایک نام پانی بھی ہے۔ اور اگر ہم نے اس محاذ پر ہار مان لی تو تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 129 Articles with 148630 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More