بے وقوف بنانے والی رسم اپریل فول

یہ سورج کی طرح عیاں ہے کہ مسلمانوں کے لیے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور روحانی دین ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے اپنے ماننے والوں کو بہترین اور عمدہ اصول وقوانین پیش کیے ہیں۔ اخلاقی زندگی ہو یا سیاسی، معاشرتی ہو یا اجتماعی یا سماجی ہو ہر قسم کی زندگی کے ہر گوشہ کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور یقینا اسی مذہب میں ہماری نجات مضمر ہے۔

امن وسلامتی کا علمبردار مذہب اسلام ہمیشہ ایسی برائیوں سے معاشرہ کو روکنے کی تعلیم دیتا ہے جو معاشرہ کے لیے ناسور ہوں، مگر آج ہمیں یورپ اور یہودونصاریٰ کی تقلید کا اتنا شوق ہے کہ ہم مغربی تہذیب کے دلدادہ بنتے جا رہے ہیں۔ یورپی تہذیب وتمدن اور طرز معاشرت نے مسلمانوں کی زندگی کے مختلف شعبوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں انگریزی تہذیب کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہوگئے ہیں، جن کی اصلیت وماہیت پر مطلع ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے قطعاً خلاف ہے؛ مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے؛ حالانکہ قوموں کا اپنی تہذیب وتمدن کو کھودینا اور دوسروں کے طریقہ رہائش کو اختیار کرلینا ان کے زوال اور خاتمہ کا سبب ہوا کرتا ہے۔ مذہبِ اسلام کا تو اپنے متبعین سے یہ مطالبہ ہے : ترجمہ:" اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم پر مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔" (البقرہ آیت۲۰۸)

مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات، واہیات اور بد اخلاقی وبے حیائی کو پھیلانے کے منصوبے بنائیں جارہے ہیں،جب تک ہم اس کی جڑ کو نہیں کاٹے گئے اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوسکتا؛ کیونکہ ہمارے معاشرے میں رسم و رواج اور مذہبی اور قومی تہواروں سے ہٹ کر من گھڑت تہواروں کو جوش و خروش سے منانے کی بہت پرانی بیماری ہے، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم ورواج کو جنم دیا اور بد تہذیبی اور بد کرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا، جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا ہے اور خاص طور پر مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ یہود ونصاریٰ کی جو رسومات آہستہ آہستہ ہمارے معاشرہ میں رائج ہوتی جارہی ہیں، انھیں میں سے ایک رسم ”اپریل فول“ یعنی جھوٹ بول کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی رسم اور تہوار کا نام دیا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا، مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف جائز سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے۔ جو شخص جتنی صفائی اور چابک دستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے، اُتنا ہی اُس کو ذہین، قابلِ تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔ یہ رسم اخلاقی، شرعی اور تاریخی ہر اعتبار سے خلافِ مروت، خلافِ تہذیب اور انتہائی شرمناک ہے۔ نیز عقل ونقل کے بھی خلاف ہے۔

اگر ہم قرآن و حدیث کا طائرانہ بھی مطالعہ کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائے گی کہ قرآن وحدیث میں تو بار بار سچ بولنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں معاشرہ کی مہلک بیماری جھوٹ سے بچنے کی نہ صرف تعلیم دی گئی بلکہ جھوٹ بولنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے، ان کے لئے جہنم تیار کی ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں ایمان والوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ" اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کہا کرو۔"( آیت 80,81)
اور مسلمانوں کو تو اللّٰہ تعالٰی نے کھلم کھلا اعلان کیا ہے کہ :
ترجمہ: اے لوگو! جوایمان لائے ہو! اسلا م میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
( سورہ البقرہ آیت 208)
ایک حدیث کے مطابق:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ( تو دیکھا کہ ) ان کے لیے ( سال میں ) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ تو ان لوگوں نے کہا: جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں، ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن” (ابوداؤد 1135)
اس اپریل فول کی تہوار کو منانے میں سب سے بڑی خرابیاں تین پیش آتی ہیں :
دوسری قوموں سے مشابہت، جھوٹ اور مسخرہ، دھوکہ دینا، کسی انسان کو اذیت دینا۔
لہذا اس تہوار کو مسلمانوں کے لیے منانا تو اسلامی روایات کے تضاد میں ہے؛ لیکن ایک باشعور معاشرہ اسے کیونکر منائے جب اسمیں معاشرے اور انسانیت کے لیے اتنی خامیاں موجود ہیں۔

دوسری قوموں سے مشابہت:-
ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے۔” (ابوداؤد4031).

جھوٹ اور مسخرہ:
بعض حضرات یہ کہہ کر یکم اپریل کو جھوٹ بولتے ہیں اور دوسروں کو بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ صرف دوسروں کو ہنسانے کی خاطر کررہے ہیں، تو وہ حضرات اس تعلق سے اپنے نبی کا فرمان سن لیں، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تباہی ہے ایسے شخص کے لیے جو دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اس کے لیے بربادی ہے، اس کے لیے بربادی ہے۔ (ابوداود، ترمذی، مسند احمد)

اپریل فول میں نہ صرف جھوٹ بولا جاتا ہے بلکہ دوسروں کو دھوکہ بھی دیا جاتا ہے۔ اور تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ مسلمان نہیں ہے۔ (مسلم)
یعنی وہ شخص مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے جو دھوکہ دیتا ہو۔

جی بالکل یہ سچی ہے کہ اسلام تفریح اور مذاق کی اجازت دیتا ہے مگر بشرطیکہ کہ اس میں جھوٹ یا کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہتے، ”اے دو کانوں والے“ ابواسامہ کہتے ہیں، یعنی آپ ان سے یہ مذاق کے طور پر فرماتے (ترمذی۔3828 )
• دوسری روایت میں ہے۔
حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں ( خوش طبعی اور مزاح میں بھی ) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا“ (ترمذی1990)

دھوکہ دینا:-
اس تہوار کا بڑا گناہ ہے دھوکہ اور فریب کے ذریعے لوگوں کو بےوقوف بنانا۔
ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے "نجش”(فریب، دھوکہ) سے منع فرمایا تھا (البخاری2142)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- "ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔ (البخاری 6966)

کسی انسان کو اذیت دینا:-
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
ترجمہ:- اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیتے ہیں اس کے بغیر ہی کہ انہوں نے کوئی گناہ کمایا ہو تو بلاشبہ انہوں نے ایک بڑے بہتان اور کھلم کھلا گناہ کا بوجھ اُٹھایا ہے۔ (احزاب58)
اﷲ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں۔‘‘
( سورۃ المؤمن )

چوں کہ جھوٹ کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اسی لیے آپؐ نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بیان فرمائیں۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا : ’’سچائی کو لازم پکڑو کیوں کہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یک ساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ کی نظر میں اس کا نام سچّوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچتے رہو اس لیے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
(بخاری و مسلم)

چونکہ جھوٹ بولنے اور دوسروں کو بے وقوف بنانے کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اس لئے ہمیں ہمیشہ جھوٹ بولنے سے بچنا چاہئے۔ اگر کسی شخص نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اللہ تعالیٰ سے پہلی فرصت میں معافی مانگے کیونکہ کبیرہ گناہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے مستقل توبہ ضروری ہے۔ اگر جھوٹ بول کر کسی شخص کو دھوکہ دیا گیا ہے تو اس کا گناہ حقوق العباد ہونے کی وجہ سے اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
اوپر بیان کی گئی احادیث اور قرآنی آیات کی روشنی میں اپریل فول نہ صرف اسلامی روایت کے خلاف ہے بلکہ معاشرے کے لئے بھی ایک اذیت ناک اور احمقانہ تہوار ہیں دور حاضر کے باصلاحیت اور علم و فنون کے بانی سمجھنے والی قوم اگر اس تہوار کو مناتے ہیں تو یہ عقل سے بعید ہے ایک اچھے مسلمان اور ایک اچھے انسان کے یہ فرائض ہیں کہ وہ معاشرے کی بہتری کے لئے اپنی بہترین خدمات سر انجام دیں۔ بس یہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ محض رسومات منالینے سے قوموں کا وقار بلند نہیں ہوتا۔

پوری دنیا جو کرونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہے ان کے لیے اور ہمارے پاکستان کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں، اللہ تعالیٰ اس وبا سے سب لوگوں کو محفوظ رکھیں اور جلد از جلد اس بیماری سے لوگوں کو نجات نصیب فرمائے آمین ۔

 

Nafees Danish
About the Author: Nafees Danish Read More Articles by Nafees Danish: 43 Articles with 28049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.