کرونا وائرس دنیا بھر میں پھیل چکا،امریکا بھی محفوظ نہیں
رہا، چین کا مذاق اڑانے والا امریکی صدر آج امریکہ میں دنیا کے سب ممالک
میں سب سے زیادہ مریض ہونے پر چین سے مدد مانگنے پر مجبور ہوگیا، امریکی
صدر ٹرمپ نے چینی ہم منصب سے بات کی اور کرونا کے لئے ملکر نمٹنے کا عزم
کیا، کرونا نے دنیا کی معیشت کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا، لاک ڈاون، کرفیو
سے عام آدمی کا بھی برا حال ہے، پاکستان میں بھی لاک ڈاون ہے لیکن شہری
حکومت کی بات ماننے کو تیار ہی نہیں،پولیس سختی کرتی ہے پھر بھی پاکستانی
قوم باز آنے والی نہیں،میڈیا پر خبریں چلتی رہتی ہیں، آگاہی مہم دی جارہی
ہے اس کے باوجود شہریوں نے سب کچھ نظر انداز کرنا شروع کر دیا جس کے بعد
سندھ میں خصوصی طور پر کرفیو مزید سخت کرنے کے امکانات ہیں کرونا وائرس کو
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے عالمی وبا قرار دیا گیا ہے اور ماہرین کی جانب
سے لوگوں کوسماجی دوری اختیار رکھنے اور مصافحہ نہ کرنے کی ہدایت کی گئی
ہے،چین سے پھیلنے والی وبا کے بعد سے دنیا بھر میں سائنسدان کورونا وائرس
سے متعلق تحقیقات کررہے ہیں اور اب حال ہی میں ماہرین نے وائرس کی نئی
علامات بھی بتائی ہیں،ماہرین کا کہنا ہے کہ ذائقہ محسوس نہ ہونا جب کہ
سونگھنے کی حس ختم ہوجانا بھی وائرس کی ابتدائی علامت ہوسکتی ہے۔سونگھنے کی
حس ختم ہونا انفیکشن کی علامات ہوسکتی ہے کیونکہ سانس کے وائرل انفیکشن میں
بھی سونگھنے اور ذائقے کی حس متاثر ہوتی ہے۔ جنوبی کوریا میں 30 فیصد ایسے
مریض ہیں جن میں کورونا وائرس کے مثبت نتائج سامنے آئے، ان مریضوں میں
سونگھنے اور ذائقہ محسوس کرنے کی حس متاثر تھی۔ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا
وائرس کے مریضوں میں تیز بخار، خشک کھانسی، سانس لینے میں دشواری کے ساتھ
ساتھ سونگھنے اور ذائقہ محسوس کرنے کی حس متاثر ہونے کی علامات بھی ظاہر
ہوسکتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس گرمی کے خلاف مزاحمت نہیں کرسکتا، یہ وائرس
26 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ میں اپنا وجود کھونا شروع کردیتا ہے۔ جن بھی
ممالک میں کورونا وائرس کی وجہ سے اموات ہورہی ہیں وہاں منفی سے 10 سے 12
ڈگری کے درمیان درجہ حرارت ہے، پاکستان میں اموات کی شرح اس لیے کم ہے
کیونکہ یہاں درجہ حرارت زیادہ ہے۔ ووہان میں بھی جس وقت بہت زیادہ اموات
ہورہی تھیں اس وقت وہاں درجہ حرارت 10 سے بھی کم تھا لیکن اب وہاں درجہ
حرارت بڑھا ہے تو شرح اموات تیزی سے نیچے آئی ہے۔ امریکہ، اٹلی، ایران سمیت
جہاں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے اموات کی شرح زیادہ ہے وہاں درجہ حرارت
انتہائی کم ہے، قم اور مشہد کا درجہ حرارت 10 سے 12 تک ہے جس کی وجہ سے
ایران میں ہلاکتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ لاہور میں 23 سے 24 درجہ حرارت ہوتا
ہے، پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے شرح
اموات کم ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں درجہ حرارت بڑھے گا تو
کورونا وائرس کی اثر پذیری بھی کم ہوجائے گی۔
پاکستان سمیت بھارت اور دیگر افریقی ممالک میں کرونا وائرس نے اس شدت سے
حملہ نہیں کیا جو شدت یورپ اور امریکا میں دیکھی گئی ہے، قدرتی طورپر یہ
ممالک دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہیں جہاں کورونا کے اثرات فطری طور پر کم
ہیں یا یہاں کے باشندے ملیریا کی وجہ سے متاثر چکے ہیں جس کے علاج اور
ویکسین نے ان کے اندر کورونا کے خلاف ایسی مدافعت پیدا کردی ہے جو کورونا
کو زیادہ اثر دکھانے نہیں دیتی . برصغیر یعنی پاک و بھارت اور افریقی ممالک
میں کورونا متاثرین کی تعداد اس قدر زیادہ نہیں ہے جیسا کہ یورپ اور امریکہ
کے اندر ہے .اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ پاک بھارت اور افریقی ممالک میں
ملیریا زیادہ ہے اور ملیریا سے متاثرہ تمام ممالک میں کورونا کے مقابلے قوت
مدافعت زیادہ ہے اور اسی وجہ سے اموات کی شرح بھی کم ہے۔ ایک یہ بھی وجہ ہو
سکتی ہے کہ کلوروکین بطور علاج کام کر رہی ہے، ان ممالک میں ملیریا کے لیے
کلوروکین کااستعمال ہوتا ہے اور اس کلوروکین نے اپنا اثر دکھاتے ہوئے
ایشیائی اور افریقی ممالک میں کورونا وائرس کے اثر کو کم کردیا ہے ۔
پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیااور 28 مارچ تک
13 سو سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں، کرونا وائرس سے پاکستان میں دس
ہلاکتیں ہو چکی ہیں، سو اس طرح اموات کی شرح 7 فیصد ہے. اسی طرح ایک عام
انفلوئنزا کی وبا میں اموات کی شرح 1فیصد ہے۔پاکستان میں اب تک کورونا
مریضوں کی اموات اتنی کم کیوں ہے جبکہ یہ شرح اموات چین کے مقابلے 3.5 فیصد
کم ہے۔ اٹلی سے 9فیصد؛ اسپین میں 7فیصد کم ہے ، پاکستان کے اندر دیگر ممالک
کے مقابلے کرونا سے کم متاثر ہونے اور شرح اموات بھی کم ہونے کی کچھ وجوہا
ہیں، ملیریا کے دباؤ نے کورونا کی شدت اور اموات کی شرح کو کم کیا۔. مغربی
کیسز کے مقابلے میں پاکستان میں کورونا کے کیسز کم عمر افراد میں پائے جاتے
ہیں،مغربی اور سرد علاقوں میں ماحولیاتی اثر و رسوخ بہت اہم ہے پاکستان اور
بھارت میں موسم کم سرد ہے ..پاک بھارت دنیا کے اس حصے میں واقع ہیں جہاں
فطری طور پر قوت مدافعت بار بار فلو کے انفیکشن کی وجہ کورونا کے خلاف
زیادہ ہوگئی ہے.اس نے ویکسین کی طرح کام کیا ہے.. پاک بھارت اور ملیریا زدہ
علاقوں میں ریکوری اور بازیابی کی شرح بہتر ہے،ان مفروضات کی بنیاد پر ہم
یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ یہاں خطرہ زیادہ نہیں ہے اور قدرت نے ہمیں جیو
گرافک طور پر قدرے محفوظ خطے میں پیدا کیا ہے،عالمی ادارہ صحت، امریکی صحت
سے متعلق اداروں اور دیگر ممالک کی حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و
شمار کے مطابق کورونا کے کیسز کے ہر وقت اپڈیٹ رہنے والے آن لائن میپ کے
مطابق دنیا بھر میں کورونا وائرس کے 5 لاکھ 37 ہزار سے زائد کیسز میں سے
تین لاکھ سے زائد کیسز یورپ میں رپورٹ ہوئے۔کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے
والی 27 مارچ کی صبح تک مجموعی ہلاکتوں 24 ہزار 110 میں سے نصف سے زیادہ
ہلاکتیں یورپ میں ہوچکی تھیں، جہاں ہلاکتوں کی تعداد 18 ہزار تک ہے۔اعداد و
شمار کے حساب سے اس وقت بھی یورپ ہی کورونا وائرس کا مرکز ہے اور مجموعی
طور پر یورپ کے ایک درجن سے کم ممالک ہی اس وبا سے زیادہ متاثر ہیں۔تاہم
اعداد و شمار سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ خطرے سے دوچار ایک درجن یورپی
ممالک کے مقابلے امریکا کورونا وائرس کا بڑا اور نیا مرکز ہے، جہاں تین دن
میں کورونا کے 35 ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ امریکا میں مزید
تیزی سے کیس سامنے آئیں اور اس کی ایک وجہ امریکا میں ٹیسٹ کے عمل کو تیز
کیا جانا بھی ہے، جہاں گزشتہ ہفتے سے کورونا کے ٹیسٹ میں خاطر خواہ تیزی
دیکھی گئی، جس کے بعد ہی نئے کیسز بھی تیزی سے آنا شروع ہوئے۔
کرونا وائرس سے بچاو کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی
ہدایات پر عمل کیا جائے، گھر رہیں اور کرونا سے محفوظ رہیں یہی کرونا سے
بچنے کا واحد حل اور علاج ہے۔حکومت لاک ڈاون کرتی ہے یا جو بھی احکامات
دیتی ہے انکو ماننا ہی عوام کے لئے سود مند ہے، احتیاط کریں گے تو کرونا سے
بچیں گے بصورت دیگر کرونا کسی کو بھی نہیں چھوڑتا، ایران میں اہم ترین
عہدوں پر فائز دس سے زائد شخصیات کی کرونا سے ہلاکت ہو چکی ہے، مصر میں فوج
کے جنرل کی ہلاکت ہو چکی ہے، برطانوی وزیراعظم میں کرونا کی تشخیص ہو چکی
ہے،ٹرمپ بھی ٹیسٹ کروا چکا ہے، ان حالات میں جب دنیا کرونا سے ڈر رہی ہے
ہمیں ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے اور ایک ذمہ دار شخص کی حیثیت سے حکومتی
ہدایات کو فالو کرنا ہے ۔
|