بقائے انسانیت پر ہمارے رویے․․․!

ویسے تو کورونا دنیا بھر سے 21ہزار سے زائد جانیں لے چکا ہے،لیکن ابھی تک اس کی پیاسی روح اپنے شکنجے پھیلائے ہوئے باقی ہے۔بلا لحاظ مذہب و ملت کورونا کا خوف طاری ہے،جو خوف خدا سے عاری تھے وہ بھی دہل گئے ہیں،لیکن کورونا نے ایک کام یہ بھی کیا ہے کہ انسانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔جو بے جا اختلافات،تنازعات کی وجہ سے بے یقینی کا شکار تھے،عدم تحفظ اور اندیشوں کے سائے میں زندگیاں گزاری جا رہی تھی،ہر سو نفسانفسی کا عالم اور انسانیت اقدار کی پامالی نے انسان کو اکیلا کر کے رکھ دیا تھا۔کورونا نے تمام اختلافات،خدشات کو پسِ پشت ڈال کر بقائے انسانیت کی خاطر ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔

ہمارا رویہ دنیا سے مختلف ہے ،ہم ان حالات میں کیا کر رہے ہیں؟حکومت پر تنقید کہ عمران خان کے دوست زلفی بخاری کے حکم پر ایران زائرین کا ملک میں واپس آنا اور ان کو قرنطینہ سنٹر میں مقرر وقت تک نہ رکھنا ،کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے کی انکوائری ہونی چاہیے اور جو بھی قصور وار ہے اسے سخت سزا بھی ملنی چاہیے،کیوں کہ جس طرح چائینا کا باڈر کو سیل کیا گیا تھا اگر ایران کا باڈر سفتان بھی سختی سے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا جاتا تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔لیکن یہاں عمران خان کا قصور نہیں ہے۔اب وزیراعظم ہر معاملے پر غور فکر اور مشیران سے گفت و شنید کرتے ہیں،اس میں کافی وقت صرف ہو جاتا ہے،پھر انہوں نے ’’کہیں سے‘‘فیصلے پر مہر بھی لگوانی ہوتی ہے(یہ ان کی مجبوری سمجھ لی جائے)۔اس لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ہمیں ان کی حب الوطنی ،دیانتدار اور خلوص پر شک نہیں کرنا چاہیے،لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری آئین و قانون کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے رفقاء پر آتی ہے۔
اس موقع پر حزب اختلاف کے بڑے قائدین نے نہایت مثبت سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، حکومت سے تمام تر اختلافات اور تحفظات بالائے طاق رکھ کر کورونا وائرس کی وبا کے مقابلے پر ایک صف میں کھڑے ہونے کا اصولی فیصلہ کیاہے،جو کہ خوش آئند ہے،لیکن پھر بھی عمران خان فیصلہ سازی میں اتنے کمزور ہیں کہ ابھی تک کرفیو اور لاک ڈاؤن کی تشریح واضع نہیں کر سکے۔حالاں کہ حکومت سندھ نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے فیصلوں اور عملی اقدامات سے صورت حال واضع کر دی ہے اور بہت دبنگ اوردرست فیصلے کیے ہیں۔جس کی وجہ سے سندھ حکومت نے کورونا جیسی وبا کا با خوبی مقابلہ کیا ہے،مگروزیر اعظم کی اس بات پر تحسین دینا چاہیے کہ انہوں نے گمبھیر صورت حال سے نبٹنے کے لئے غلط فیصلے کرنے یا عجلت سے کام لینے کی بجائے محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ہر جانب سے عمران خان پر دباؤ ہے کہ کرفیو لگانے کے احکامات دیئے جائیں،مگر عمران خان کا مؤقف ہے کہ اگر لوگوں کو زبردستی گھروں میں بند کر دیا،تو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ جن کی ہمارے ملک میں ایککثیر تعداد ہے،وہ کورونا وائرس سے شاید بچ جائیں مگروہ فاقوں سے مر جائیں گے۔اب وزیر اعظم نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ان غریبوں کو زندہ رہنے کے لئے خوراک مہیا کر سکیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔انہیں کورونا وائرس سے خطرہ نہیں بلکہ خوف میں آ کر غلط فیصلے کرنے کا خطرہ ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان پر اﷲ کا ہمیشہ بڑا فضل رہا ہے،ابھی بھی دوسرے تمام ممالک سے پاکستان میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کم ترین ہے۔ورنہ اٹلی اور پاکستان تقریباً پہلا کیس اوپر نیچے رہا ہے ،لیکن اٹلی میں چھ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہمارے چھے سات اموات کی خبر ہے،لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ خزاں رسیدہ ہوائیں ہمارے ہاں بھی آ پہنچی ہیں ۔چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں ۔آزمائش کے سیاہ بادل چھا گئے ہیں،مگر وزیر اعظم کا یہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس ہوتا ہے اور وزیر اعظم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔کس بات کا تکبر اور سریا ہے جو خم نہیں ہونے دیتا۔بچے بچے کو صورت حال کی سنگینی کا علم ہے ۔دنیا کے بڑے دشمن آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔کیا نا گہانی آفات کا مقابلہ اس انداز میں کیا جا سکتا ہے۔حیرت ہے کہ کون انہیں ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔یہ رویے غلط ہیں،جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین اور اسی پارٹی کے وزیر اعظم بن کر سامنے نہ آئیں بلکہ وہ پوری قوم کے وزیر اعظم بنیں ۔اپنی بے روح ،بے جان اور کھوکھلی باتوں پر وقت ضائع نہ کریں،وہ وائرس کے خلاف جنگ کو لیڈ کر رہے ہیں ۔یہ عوام میں خوف کی آگ نہیں بلکہ حوصلے اور امید دینے کا وقت ہے۔ہمیں بھی من حیث القوم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔لاک ڈاؤن کا مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب عوام اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حکومت اور اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ پورا تعاون کرے ۔یہ حفاظتی اقدامات عوام کی زندگیوں کے لئے ہی تو ہیں؛سب سے پہلے خراج تحسین کے مستحق وہ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف ہیں جواپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صف اوّل پر کام کر رہے ہیں۔پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے لائق تحسین ہیں ۔جو دن رات کام کر رہے ہیں ۔اس لئے ہر فرد پر فرض ہے کہ وہ اپنی ،فیملی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کا سبب نہ بنے۔ہر ممکن کوشش کی جائے کہ گھروں میں رہا جائے۔ہاتھوں اور ارد گرد کے ماحول کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔اپنے لباس،بستراور استعمال کی تمام اشیاء کو صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔خاص طور پر اﷲ بزرگ وبرتر سے کثرتِ استغفارکریں۔ہمیں اپنی غلطیوں پر نادم ہوکر اپنی اصلاح کرنے کا موقع مل رہا ہے،جسے فراموش نہ کریں۔صرف اﷲ سبحان تعالیٰ کی ذاتِ واحد ہمیں اس وبا کے چنگل سے نجات دے سکتی ہے۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.