امریکا کی بہادر فوج نے القاعدہ کے سربراہ
اور ہزاروں امریکیوں کے قاتل اسامہ بن لادن کو پاکستان کہ علاقے ایبٹ آباد
میں کامیاب کاروائی کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ 2 مئی رات سوا ایک بجے یہ
کاروائی کی گئی جس میں 4 امریکی ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا، اسامہ بن لادن
سمیت چار افراد ہلاک کیے گئے، ان کی دو بیویاں، 6 بچے اور 4 ساتھ بھی
گرفتار کر لیے گئے۔ عمارت کو بارود سے تباہ کیا گیا، یہ عمارت پانچ سال
پہلے تعمیر کی گئی اور ہمیں چار سال قبل یہ اطلاع ملی تھی کہ اس عمارت میں
کوئی اہم شخصیت رہ رہی ہے۔ اگست 2010 میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہاں
رہنے والے شخصیت اسامہ بن لادن ہے۔ 28 اپریل 2011 کو صدر بارک اوباما نے
اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کی ہدایت دی۔
یہ بیانات امریکی دفتر خارجہ اور صدر بارک اوباما نے اسامہ بن لادن کی
شہادت کے بعد جاری کیے۔ امریکی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی حکومت
اور ادارے اس کاروائی سے لاعلم تھے۔ اس من گھڑت کہانی کے بعد بہت سے سوالات
ذہنو ں میں جنم لیتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے
اُس علاقے میں جہاں کاکول اکیڈمی جیسا عسکری ادارہ ہے، پچھلے چار سال سے
مقیم تھے ؟ وہ بھی اپنے بیوی بچوں اور چند ساتھیوں کے ساتھ بغیر کسی
سیکیورٹی کے؟ جبکہ وہ جانتے تھے کہ ساری دنیا ان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ وہ
چار سال سے پاکستانی افواج کے پہلو میں موجود تھے لیکن پاکستانی افواج کو
خبر تک نہ ہوئی؟ دوسرا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی دفتر خارجہ نے
کہا ہے چار سال قبل انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ یہاں کوئی اہم شخصیت موجود
ہے اور اگست 2010 میں اسامہ بن لادن کے موجودگی کی تصدیق ہوئی تو امریکا نے
اس نو ماہ کے عرصے میں کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟ ایک طرف امریکی دفتر
خارجہ یہ کہنا کہ پاکستانی اداروں اور حکومت اس کاروائی سے لاعلم تھے اور
دوسری طرف صدر اوباما کا کہنا انہوں نے آپریشن سے متعلق پاکستان حکام سے
تبادلہ خیال کیا اور ان سے مدد مانگی، امریکی حکام کے بیانات میں یہ تضاد
سمجھ میں نہیں آتا۔۔
تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہ من گھڑت کہانی پاکستان کے خلاف بہت بڑی
سازش کا حصہ نظر آتی ہے۔ اسامہ کی پاکستان میں چار سال سے موجودگی کو ظاہر
کرنا اور یہ کہنا کہ پاکستان ہی دہشت گردوں کا اصل ٹھکانہ ہے ۔ افغانستان
میں لڑی جانے والی جنگ بے معنی ہے لہٰذا اصل جنگ پاکستان میں لڑی جائے اور
یوں امریکی جنگ پاکستان کی گلیوں اور شہروں میں منتقل کر دی جائے گی۔ یہ
جنگ پاکستان منتقل کرنے کے لیے یہ جواز بھی بنایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی
ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بھی اسامہ بن لادن تک نہ پہنچ پائی اور پاکستانی
افواج اتنی نااہل تھی کہ امریکا کی اسپیشل فورسز کو یہاں آکر کاروائی کرنی
پڑی۔ یہ جواز بھی بنایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی افواج ، ادارے اور خفیہ
ایجنسیاں ناکام ہوچکی ہیں لہٰذا پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا دنیا کے لیے
خطرناک ہے ، اس لیے پاکستان کے ایٹمی اثا ثوں کو کنٹرول میں لیا جائے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکا کی افغانستان میں شکست یقینی ہوگئی تھی اور
امریکا وہاں سے اپنی فوجوں کا انخلاء چاہتا تھا مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
ایک سامراجی سُپر پاور شکست تسلیم کر لے؟ لہٰذا یہ ڈرامہ ر چایا گیا تاکہ
امریکا باعزت طور پر واپسی کا راستہ اختیار کرے اور دہشت گردی کے خلاف لڑی
جانے والے جنگ کا رخ پاکستان کی طرف کر دے۔
اسامہ بن لادن کے ساتھ جو ہوا اس کا علم تو اللہ کو ہی ہے لیکن اس واقعہ کا
سہارا لے کر امریکی اداروں نے یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا ہے کہ پاکستان ہی
القاعدہ کا گڑھ ہے اور پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں ہے۔
پاکستان کے ادارے اس حد تک ناکام ہوگئے ہیں کہ ان کے حساس ترین مقام کے
قریب القاعدہ کے سربراہ اور کارکن کئی سال سے رہ رہے ہیں اور ان کو خبر تک
نہیں ہے اور یہ ان کی نااہلی ہے یا پھر یہ سب کچھ ان ادروں کی سر پرستی میں
ہو رہا ہے لہٰذا ان اداروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔
بحرحال آنے والا وقت پاکستان کے لیے انتہائی کٹھن ہے، یوں تو امریکا کے پاس
پاکستان پر حملوں کا جواز پہلے بھی موجود تھا لیکن اس واقعہ نے مزید راہیں
کھول دی ہیں اور پاکستانی قوم کو اپنی تباہی کے لیے تیار ہوجا نا چاہیے
کیونکہ بہت جلد پاکستان امریکی کالونی کی شکل اختیار کرنے والا ہے جیسا کہ
میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ اگر غلامی کہ یہ سنہرا طوق اگر
اب بھی نہ اتارا گیا تو پاکستان ایک امریکی کالونی کی شکل اختیار کر لے گا۔
جہاں ڈرون حملوں کی طرح امریکی قتل و غارت گری اور اس پر نازاں امریکی حملے
بھی معمول کی بات بن جائیں گے۔ تب شائد آپ کو یہ احساس ہو کہ کاش غلامی کا
طوق اس وقت اتار پھینکا ہوتا مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ |