بی جے پی ہر دس سال میں ایک مردِ آہن ایجاد کرلیتی ہے۔
یہ سلسلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل سے شروع ہوا اور پھر لال کرشن اڈوانی تک
پہنچا ۔ راجناتھ سنگھ کو یہ اعزاز نہیں ملا اس لیے کہ ان کا گجرات سےکوئی
دور کا بھی تعلق نہیں تھا اوپر سےوہ مودی جی کے سیاسی حریف بھی تھے ۔ فی
الحال امیت شاہ جدید مردِ آہن ہیں ۔ اپنے آپ کو اس مقام پر لانے کے لیے
ان کو ایوان پارلیمان میں کئی سخت قوانین نافذ کرنے پڑے لیکن کورونا وائرس
نے ان کو نرم کردیا ہے۔دیش بندی (لاک ڈاون) کے چوتھے دن انہوں نے ملک بھرکی
ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے بات کرکے مزدوروں کی نقل مکانی روکنے کی ہدایات
دیں۔ عوام جس طرح وزیراعظم کی درخواست کو پامال کرکے لاکھوں کی تعداد میں
اپنے گھروں کو نکل پڑے اسی طرح وزرائے اعلیٰ نے وزیرداخلہ کے حکم کو ماننے
سے نکار کردیا ۔ اس لیے کہ نہ تو ملک شاہی فرمان سے چلتا اور نہ بھوک معافی
نامہ سے مٹتی ہے۔
وزیرداخلہ کی نافرمانی کرنے والوں میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ
ناتھ بھی شامل تھے جنھوں نے 1000 بسوں کا انتظام کیاتاکہ پیدل چلنے والے
مزدوروں کو یوپی کے ایٹہ، اٹاوہ، بلند شہر، بدایوں وغیرہ پہنچایا جاسکے۔
یوگی نے غالباً پہلی بار عقل کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں کو نہ
صرف گھر پہنچایا جائے گا، بلکہ ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی کیاجائے گا۔
اس طرح بغیر تیاری اور منصوبہ بندی کے کی گئی نوٹ بندی کی طرح دیش بندی کی
بھی ہوا اکھڑ گئی لیکن افسوس کہ اس کا فیصلہ کرنے والے عیش کررہے ہیں اور
غریب عوام اس کی قیمت چکارہے ہیں ۔ سڑک پر بھوک اور پولس کی زیادتی کا شکار
ہونے والے ۲۰ لوگ دو دن میں ہلاک ہوگئے جبکہ پچھلے دوہفتوں سے کورونا وائرس
نے صرف ۲۹ لوگوں کو لقمۂ اجل بنایا ۔ اس طرح لاک ڈاون اوربھوک کا خوف
کرونا وائرس سے زیادہ بھیانک ثابت ہوا۔ ان اموات کا صحیح اندازہ بھی نہیں
لایا جاسکتا کیونکہ کورونا وائرس کے شکار کی تو علامات ظاہر ہوتی ہیں مگر
بھوک کا شکار تو چہ چاپ گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتا ہے۔
ہندوستان میں کورونا وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے سے قبل مریضوں سے زیادہ
تعداد ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والے نت نئے علاجوں اور ٹوٹکوں کی تھی ۔
اُن کوپڑھ کر ہنسی اور رونادونوں آتا تھا۔ مثلاً ہریانہ حکومت کے برانڈ
ایمبیسیڈر بابا رام دیو نے جڑی بوٹیوں کے ذریعے گھر پر ہینڈ سینیٹائزر
بنانے کا مشورہ دیا تھاجبکہ لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی
پروفیسر سیلی بلوم فیلڈ کے مطابق سارے گھریلو ہینڈ سینیٹائزر بے فائدہ ہیں
۔بابا رام دیو جیسے جاہل کو قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال تقریبات میں
مدعو کرتے ہیں،انھوں نے جیلوئے نامی آیورویدک جڑی بوٹی، ہلدی اور تلسی کے
پتے کے ذریعہ بھی کورونا وائرس سے بچاو کا انکشاف کیاتھا ۔ہریانہ کے وزیرِ
صحت انیل وِج نے کورونا سے بچنے کے لیے سبزی خوری اختیار کرنے کی ترغیب دی
توانہیں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے اس کی
تردید کردی تھی۔ گری راج نے کہا تھاکہ اس طرح کی افواہوں کے سبب انڈوں اور
مرغی کی فروخت میں کمی ہو رہی ہے، انڈین حکومت کی فیکٹ چیکنگ سروس نے بھی
اس دعوے کو مسترد کردیا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکنِ پارلیمان سمن ہریپریا نے بابا رام دیو اور انیل
وِج سے آگے نکل کر کہا تھاکہ ’گائے کے گوبر سے کئی فوائد ہیں۔ مجھے لگتا
ہے کہ کورونا وائرس کو یہ ختم کر سکتا ہے۔ گائے کا پیشاب بھی مفید ثابت
ہوسکتا ہے۔‘جبکہ انڈین وائرولوجیکل سوسائٹی کے ڈاکٹر شیلندر سکسینا کے
مطابق ’گائے کے پیشاب میں وائرس مخالف خصوصیات موجود ہونے کے حوالے سے کوئی
طبی ثبوت موجود نہیں ہیں۔اس کے برعکس گوبر میں خود کورونا وائرس موجود ہو
سکتا ہے اس لیے وہ خطرناک ہے۔ ملک کے پڑھے لکھے عوام بھی طبی ماہرین کے
مقابلے سیاستدانوں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اس لیے’مقامی گائے سے حاصل
کردہ صاف کیے پیشاب‘ کا حامل ہینڈ سینیٹائزر آن لائن فروخت ہونے لگا تھا۔
اس کی گھپت کا اندازہ ویب پیج پر لکھے کمپنی کےاس اعلان سے لگایا جا سکتا
ہے کہ ’طلب میں اضافے کے سبب ہم فی صارف تعداد کو محدود کر رہے ہیں تاکہ
زیادہ سے زیادہ گاہکوں تک یہ پروڈکٹ پہنچا سکیں۔‘ ملک کا پڑھا لکھا طبقہ
اگر ان خرافات میں اس قدر فریفتہ ہے تو عام لوگوں کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں ۔
ذرائع ابلاغ میں گئوموتر اور گوبر کے ۵۰۰روپیہ کلو کے بھاو سے فروخت ہونے
کی خبر آچکی ہے۔ اب یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کتنے کورونا کا
شکار ہوئے ہیں؟
اس طرح کی توہم پرستی کو فروغ دینے کی غرض سے ’اکھل بھارت ہندو مہاسبھا‘ نے
دارالحکومت نئی دہلی میں’گائے کا پیشاب پینے‘ کی پارٹی کا انعقاد بھی کرچکی
ہے ۔ہندو مہا سبھا کے سربراہ سوامی چکرپانی مہاراج نے 4 مارچ کو دعویٰ کیا
تھا کہ ’گائے کا پیشاب پینے اور گوبر کھانے‘ سے ’کورونا وائرس‘ ختم ہوجاتا
ہے ۔ ہولی کے بعد ملک بھر میں ’گائے کے پیشاب‘کی پارٹیوں کے انعقاد کے وعدے
پر عمل کرتے ہوئے پارٹی کا انعقاد کیا گیا جس میں 200 مرد و خواتین نے شرکت
کی۔اس تقریب میں شریک لوگوں نے نہ صرف ’گائے کا پیشاب‘ پیا بلکہ یہ حیران
کن دعویٰ کیا کہ ان میں سے اکثرگزشتہ 21 سال سے گائے کے گوبر سے نہاتے بھی
ہیں اور اس کی وجہ سے انہیں کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی‘۔ اس طرح کے ماحول
میں بعید نہیں کہ 2024کے انتخاب سے قبل چائے کے بجائے گائے پر چرچا ہو اور
اس میں چائے کے بجائے گئوموتر سے ضیافت کی جائے۔
مغربی بنگال بی جے پی کے مقامی رہنما نارائن چٹر جی کو گائے کا پیشاب پینے
کی تقریب سجانا مہنگا پڑ گیا کیونکہ وہاں نہ تو دہلی کی طرح شاہ جی کے تحت
کام کرنے والی پولس ہے اور نہ کیجریوال جیسا بزدل وزیراعلیٰ ہے۔ بدقسمتی سے
نارائن چٹرجی کے جشن ِ گئو موتر میں شریک ایک رضا کار گئو موتر پی کر بیمار
پڑ گیا۔ اس نے اس پر صبر کرنے کے بجائے تھانے میں جاکر شکایت کردی اور چٹر
جی کو پولس نے حراست میں لے لیا ۔ مغربی بنگال کوایک ترقی یافتہ صوبہ سمجھا
جاتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہیں سے اپنے تسلط کا آغاز کیا تھا۔
انگریزوں نے پہلی یونیورسٹی اس صوبے میں بنائی ۔ آزادی کے بعد یہاں پر ایک
طویل عرصہ تک اشتراکیوں کی صوبائی حکومت رہی پھر بھی اگر یہ حال ہے تویوپی
جیسے پسماندہ صوبوں کی حالت زار کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ان
حرکتوں کے مقابلےمرکزی وزیر رام داس اٹھاولے کی’گو کرونا گو‘ والی مضحکہ
خیز ویڈیو بے ضرر ہونے کے سبب بہتر لگتی ہے۔
کورونا کے پھیل جانے کے بعد سارے چھوٹے موٹے بابا غائب ہوگئےاور بڑے بابا
مودی جی میدان میں آئے۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کے دوران باہر نکلنے کی بجائے
اپنے اندر جھانک کرخاندانی تعلقات کو مضبوط کرنے کی صلاح دی ۔’ من کی بات‘
میں کہا کہ لوگ اس موقع پر پرانے شوق اور پرانی یادوں کودوبارہ تازہ کریں ۔
انہوں نے کہا سوشل ڈسٹنسنگ کا مطلب سماجی تعلقات کو ختم کرنا نہیں ہے ۔ یہ
وقت پرانے سماجی تعلقات میں نئی جان پھونکنے کا ہے، ان رشتوں کو استوار
کرنے کا ہے ۔ انہوں نے کوٹہ سے یش وردھن کےردعمل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ
وہ لاک ڈاؤن میں خاندانی تعلقات کو مضبوط کر رہے ہیں ۔ جھارکھنڈ کے سورج جی
اپنے اسکول کے دوستوں کی ای - ری یونین کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم نے لوگوں سے
اس خیال کو آزما نےکی تلقین کی ۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ خود اپنے
ماضی میں جھانک کردھرم پتنی جسودھا بین کو دیکھیں اور ان پر کرونا کی درشٹی
ڈال کر مدھرملن (ری یونین ) کریں۔ اس لیے کہ دوسروں کو نصیحت اور خود فضیحت
بہت ہوچکی ۔ اپنے من کی بات پرانسان کو خود بھی عمل کرنا چاہیے۔
|