لاک ڈاؤن اور عمران خان۔

وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ملک ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کی سوچ کو مسترد کر دیا اور گڈز ٹرانسپورٹرز اور غریب عوام کے لیے ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا۔ملک کے چند بڑے میڈیا کے نمائندوں اور چند سیاست دانوں کا خیال تھا کہ لاک ڈاؤن کیا جائے جس کرونا وائرس کی روک تھام ممکن ہو سکے۔یہ دو آرا ملک میں پائی جاتی ہیں لیکن وزیر اعظم نے ایک بات وضاحت سے کہی کہ حکمت اور تجزیے کے بعد روز کی بنیادوں پر فیصلہ کیا جائے گا ۔ھم دونوں آراء کو ایک طرف رکھ کر تجزیہ کریں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کا نہایت برے نتائج نکلنے ھیں۔ کیونکہ تقریباً 30 فیصد ابادی کا انحصار روزمرہ کی مزدوری پر ھے جبکہ اتنی ہی ابادی مکمل لاک ڈاؤن سے بھوک میں مبتلا ہو جائے گی۔ان حالات میں یہ سارے لوگ تمام رکاوٹیں توڑ کر ھجوم کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئیں گے۔اس سے کورونا وائرس بھی وسیع پیمانے پر پھیلے گا اور افراتفری اور فساد بھی جنم لے گا۔کیا پولیس یا فوج ان پر گولی چلائےگی۔؟ دوسرا صوبہ سندھ میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا مگر آج کراچی اور بڑے شہروں میں بھوک نے اپنا آپ دیکھنا شروع کر دیا ۔لوگ جم غفیر کی صورت میں دو وقت کی روٹی کے لئے گھیراؤ پر مجبور ہو گئے ہیں جس پر حکومت سندھ کو نرمی کرنی پڑی اسی طرح بھارت میں مکمل لاک ڈاؤن نے سڑکیں عوام کے جم غفیر نے بھر دیں غربت اور افلاس کسی بیماری ،وائرس یا حب الوطنی کی پابند نہیں ہوتی۔البتہ جزوی طور پر لاک ڈاؤن خوراک کی ترسیل اور غریب عوام تک اناج پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور موجودہ حکومت وہ کر رہی ہے اگر حکومت سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ تفتان بارڈر پر ھوئی ھے 78 فیصد وائرس کی آمد اسی بارڈر سے ھوئی یہ غلطی شاید اب بھی موجود ہے اور تفتان بارڈر سے مسلسل زائرین کی آمد جاری ھے۔پاکستانی ھونے کے ناطے آن کو قبول کرنا ھمارا فرض ہے مگر جو کام کیا جانا چاہیے تھا کہ تفتان بارڈر سے مکمل قرنطینہ کی جامع سہولت ھونی چاہیے تھی اس پر سختی کی جاتی اور دوسرا ائیرپورٹس پر آغاز میں سکریننگ درست نہیں کی گئی اور تیسری غفلت یہ ہے کہ ھمارے علماء کرام نے اس کے نقصانات پر سنجیدگی اختیار نہیں کی وہ شعور اور حفاظت دونوں میں اھم کردار ادا کر سکتے تھے مگر آج تک وہ پوری طرح سے تعاون نہیں کر رہے! البتہ بڑے شہروں میں لوگ خود ھی حفاظت اور احتیاط کیے ھوئے ھیں۔اج دنیا کے دو سو سے زائد ممالک اس آفت کا شکار اور پریشان ھیں اور 40 ھزار تک لوگ جان سے جا چکے ہیں جبکہ لاکھوں متاثرین ھیں تیزی سے سائنسی تحقیق بھی جاری ہے۔البتہ پاکستان جیسے ممالک میں یہ زحمت ،رحمت بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ ھم اپنی صحت آلات، تحقیق اور انجنئیرنگ سیکٹر کو آگے لے جا سکتے ہیں فوکس کرنے کا موقع ملا ھے جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔دوسری اھم بات ایک سوال کی صورت میں عمران خان سے پوچھی گئی کہ اپوزیشن سے مل بیٹھیں وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ تیس برسوں میں حکومت کرنے والے آج صحت کی سہولیات پر جس طرح بات کر رہے ہیں۔وہ ھزاروں وینٹلیٹرز کہاں ھیں جو شہباز شریف یا مریم نواز شریف چھوڑ گئی تھیں وہ چالیس اسٹیٹ آف دی آرٹ ھسپتال کدھر گئے جو بنائے گئے تھے۔خود تو وہ نسلوں سے باھر علاج کرواتے رہے اور کروا رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ صحت کا شعبہ ترقی کرتا؟ یہ سوال عوام ضرور آن سے پوچھے اور پانچ سال بعد عمران خان سے بھی پوچھا جائے,۔ ابھی وزیر اعظم نے سماجی سطح پر نوجوانوں کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ ڈیڑھ سال پہلے ھی کرنا چاہیے تھا یہ پاکستان کی ترقی کا بڑا وسیلہ ھیں تاھم دیر آید درست آید،شاید یہ ٹائیگر فورس اس مشکل سے لڑنے، سماجی بیداری اور جدوجہد میں کوئی کردار ادا کریں۔بارہ سو ارب روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا گیا یہ اگر ضرورت مندوں تک پہنچ گیا تو بڑا ریلیف ملے گا پھر لاک ڈاؤن بھی ممکن ہو گا اللہ نہ کرے کہ کرونا وائرس تیزی سے پھیلے ورنہ ایسے حالات میں بھوک اور بیماری سے لڑنا مشکل ھو گا۔اج بھی جزوی لاک ڈاؤن سے لاکھوں لوگ گھر۔ یٹھ چکے ہیں ان سب حالات کو دیکھا جائے تو لاک ث کا فیصلہ نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ھمیں نا امیدی سے نکلنا ھے اور مقابلہ تو بہرحال کرنا ہے۔۔

 

Prof Khursheed Akhtar
About the Author: Prof Khursheed Akhtar Read More Articles by Prof Khursheed Akhtar: 89 Articles with 68523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.