اُسامہ کا قصہ تمام ہوا اور،ڈرا،سہما امریکا خوشی سے کِھل اُٹھا

اُسامہ کی کہانی ختم ، پیسہ ہضم......؟؟
آج کا علی بابا اُسامہ اور40 منٹ کی کاروائی اور 40 امریکی فوجی...
دنیا بتائے اُسامہ کو کیا لکھا جائے ہلاک یا شہید کیا ....؟

موجودہ حالات میں ڈرے ، سہمے امریکیوں کے ذہنوں میں ایک عشرے سے اپنی دہشت کی کہانی جنم دینے والے اُسامہ بن لادن کو امریکی فورسز نے اپنی ایک مختصر سی کاروائی کے بعد دہشت کے علامتی کردار کا خاتمہ کر کے سارے امریکیوں کو خوش کردیا ہے اور جیسے ہی امریکیوں کے لئے دہشت کے علامت بننے والے اُسامہ بن لادن کی کہانی ختم ہونے کی اطلاعات وائٹ ہاؤس سے ہوتی ہوئی امریکا کے گلی ، کوچوں، بازاروں اور چوراہوں تک پہنچی تو سارا امریکا خوشی سے کِھل اٹھا اور آج بھی سُپرپاور امریکا ہر ڈرا سہما شہری اپنی اِس خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنے میں مصروف ہے۔

جبکہ آج میرے ملک کے بیشتر نجی ٹی وی چینلز کو یہ طرہ حاصل ہے کہ دہشت گرد اعظم امریکا کے نامزد کردہ دنیا کے سب سے بڑے مسلم دہشت گرد اُسامہ بن لادن کی کہانی ختم ہونے کی نیوز اِس نے بریک کی ہے اور یوں وہ یہ بتانے اور جتانے میں لگا پڑا ہے کہ اِس نجی ٹی وی چینل کا نیٹ ورک سب سے زیادہ فعل اور متحرک ہے چلو یہاں ہم نجی ٹی وی چینلز کی اِس بحث میں جائے بغیر یہ مان لیتے ہیں کہ یہ اہم خبر سب سے پہلے فلاں ٹی وی چینل نے ہی دی تھی تو اِس پر کسی دوسرے کو ناراض نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ خبر جو بھی اہم ہوتی ہے اُسے جلد ازجلد عوام الناس میں پہنچا دینا ہی ایک قابلِ تعریف اور احسن کام ہے اُسے کوئی بھی پہنچانے کا کام کس طرح بھی کرے مگر اِس میں یہ کیا امتیاز کرنا کہ یہ خبر سب سے پہلے کس نے دی اور کس نے نہیں یہ کوئی ٹھیک عمل نہیں ہے کیوں کہ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ کس ٹی وی چینل کا کیا مقام ہے اور ہمارا کونسا ٹی وی چینل اپنی کامیابیوں کی کس منزل پر کس اسٹیج پر کھڑا ہے .....؟؟

بہرکیف !افغان روس جنگ کا ہیرو اور امریکا کا سابق عزیز ترین دوست اُسامہ بن لادن جو ایک امیر ترین سعودی کا بیٹا تھا اِس کے یہاں دولت کی ریل پیل ایسی تھی جیسے یہ کوئی معمولی اور حقیر سی شے ہو مگر اِس کے باوجود بھی اِس عرب باشندے نے اُمت مسلمہ کی بقاء و سا لمیت کی راہ صرف جہاد ہی میں تلاش کی اور یہ اپنی ساری عیش وطرب کی زندگی کو ایک طرف رکھ کر افغان روس جنگ میں اپنے تن من دھن اور اپنی جان اور ساتھیوں کے ساتھ گود پڑا اور اپنے عزم مصمم سے روسیوں کو افغانستان میں شکست سے دوچار کر کے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کی اُس منزل کو پہنچ گیا جہاں اِسے شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ اِس کی ضرورت صرف یہیں ختم نہیں ہوگی بلکہ یہ اَب ہر اُس مسلم ملک کے لئے اور بڑھ گئی ہے جہاں روس اور امریکا جیسی سُپر طاقتیں اپنی جارحیت سے اُس کا وجود ختم کرنا چاہتی ہیں یوں اِس کے اِسی حوصلے اور جرات مندی نے اِسے ایک طرف تو اُمت مسلمہ کا ہیرو بنا دیا تو وہیں اِس کے اِسی عزم و ہمت کو امریکا سمیت اور دوسری بڑی طاقتیں اپنے لئے ایک بڑا خطر ہ تصور لگیں تھیں۔

اور یوں بالآخر جب امریکا میں نائن الیون کا سانحہ پیش آیا تو امریکا اور اِس جیسے بہت سے اِس کے ہم نوالہ، ہم پیالہ دوستوں اور حواریوں نے اِس واقع کی ساری ذمہ داری اُسامہ بن لادن کے سر تھوپ دی حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے بڑی حد تک خود امریکی بھی واقف ہیں کہ طالبان اور القاعدہ پر ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے میں ملوث ہونے کے کوئی ایک بھی ٹھوس شواہد آج تک منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں مگر اِس کے باوجود بھی اُس وقت جو بات کہہ دی گئی اُسی مفروضے پر امریکی اب تک قائم ہیں اور یوں اِس واقع کے بعد روپوش القاعدہ کا سربراہ اُسامہ بن لادن امریکا کی بقاء و سا لمیت کے لئے سب سے بڑا خطر بن چکا تھا جسے زندہ یا مردہ کسی بھی حال میں ڈھونڈ نکالنے والے کے لئے امریکا نے اِس کی قیمت ڈھائی کروڑ ڈالر مقرر کی تھی اور اِس کے علاوہ اور بہت سے انعامات کا بھی دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔

اور بالآخر القاعدہ کا سربراہ اُسامہ بن لادن ماضی کے اپنے دوست اور موجودہ حالات میں اپنے سے زیادہ انسانیت کے طاقتور اور شاطر ترین دشمن امریکا کے ہاتھوں گزشتہ دنوں ایبٹ آباد کے ایک نواحی علاقے بلال ٹاؤن میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب امریکی اسپیشل فورسز کے مختصر ترین صرف 40منٹ کی کاروائی کے دوران جن سے متعلق ابتدائی اطلاعات یہ ہیں کہ اِس آپریشن میں 40امریکی فوجیوں نے حصہ لیا اور اِس میں سانحہ نائن الیون کے ذمہ دار اور کئی انسانی جانوں کو موت کی آغوش میں دھکیلنے والے امریکا کو انتہائی مطلوب عرب دہشت گرد اُسامہ بن لادن (یعنی آج کے علی بابا اُسامہ بن لادن کو 40منٹ کی کاروائی امں40امریکی فوجیوں نے اِس )کے سر پر گولی مار کر اُسے زندگی اور خود کو اِس کے ڈر اور خوف میں ہر دم مبتلا رہنے کا قصہ تمام کردیا۔

اگر چہ اِس کاروائی میں اُسامہ بن لادن کے بیٹے اور تین ساتھیوں کے بھی مرنے اور اِن کی دو بیویوں اور چھ بچوں سمیت بارہ افراد کو گرفتار کئے جانے کی بھی متضاد انفارمیشنز ہیں جن کے بارے میں ابھی تک میڈیا کو ٹھیک سے کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے اور نہ ہی اُسامہ بن لادن کی لاش میڈیا کے سامنے لائی جارہی ہے اور ہمارے ملکی اور عالمی میڈیا پر وہی کچھ دِکھایا اور سمجھایا جا رہا ہے جو اطلاعات امریکا فراہم کر رہا ہے۔

اگرچہ یہاں سب سے زیادہ غور طلب ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی تصدیق امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام (کہنے کو تو مسلمان)صدر مسٹر بارک اوباما نے بڑے پُرتباک اور اپنے خوشی سے تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ کردی ہے کہ اُسامہ جس نے اُن کے پیش رو(سابق صدر بش )سمیت اُن کی بھی ناک میں دم کر رکھا تھا وہ اَب اِس دنیا میں نہیں رہا اور اِس طرح مسٹر اُباما نے اُسامہ کی دہشت سے ڈرے سہمے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ”اُسامہ کی اپنی بیوبیوں، بیٹے اور اپنے انفارمر سمیت کئی دوسرے افراد کی ہلاکت سے دنیا بالخصوص امریکا محفوظ ہوگیا ہے اور جو امریکا کے لئے ایک عظیم فتح ہے اِن کا اپنے شہریوں اور دنیا سے یہ کہنا ہے کہ اُسامہ کے مرنے سے ہم نے نائن الیون کے مرنے والوں کا بدلہ لے کر انصاف کے وہ تمام تقاضے اور ذمہ داری بھی پوری کردی ہے جو مرنے والوں نے اِن کے کاندھوں پر ڈال دی تھی جبکہ اُباما اور ہلیری کا اپنے خوفزدہ عوام اور دنیا سے یہ بھی کہنا ہے کہ چوں کے اُسامہ کے نزدیک کبھی بھی اِنسانی زندگیاں اہمیت کی حامل نہیں تھیں اِس لئے اُسے اور اُس کے ساتھیوں کا خاتمہ کردینا امریکا کے لئے ضروری تھا جو ہم نے اپنی انتہائی چالاکی اور ہوشیاری سے ایک بڑے عرصے بعد صبروتحمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے اِس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کر دیا ہے۔

ایک طرف جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ روس افغان جنگ میں امریکا کا اچھا دوست اور ساتھی کہلانے والا اُسامہ ہے تو دوسری طرف نائن الیون کے واقع کے بعد امریکا کا سب سے زیادہ خطرناک دشمن یہی اُسامہ نظر آتا ہے آج چونکہ اُسامہ بن لادن کی کہانی ختم اور پیسہ ہضم ہوچکا ہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اِس صورت حال کے بعد دنیا کے بہت سے غیر جانبدار تجزیہ نگار اُسامہ اِس کی موت کے بعد اِسے مرحوم لکھیں، ہلاک یا شہید کیا لکھیں .....؟ جس سے اِن کے تجزیئے پڑھنے اور سُننے والوں کو بہتر محسوس ہو اور اَب یہ فیصلہ آپ خود کریں کہ اُسامہ بن لادن کو اِس کی موت کے بعد کسی امریکی دباؤ میں آئے بغیر اِس کے نام سے پہلے اور بعد میں کیا لکھے.....؟؟9/11 کے بعد سے اَب تک چار مرتبہ موت سے بچ جانے والے امریکا کے نزدیک اِس کے سب سے بڑے دشمن اُسامہ بن لادن جنہیں یہ یقین تھا کہ ایک نا ایک دن اِن کا طاقتور ترین اور شاطر دشمن امریکا اِن کی جان لے لے گا مگر اِس باوجود بھی وہ اپنے عزم و ہمت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور اِس طرح جو2مئی 2011 کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب پانچویں مرتب موت سے نہ بچ سکے اور اپنے وعدے اور اُس عزم کی تکمیل پوری کر گئے جو اِن کے سینے میں برسوں سے دفن تھا کہ ”وہ اپنے دشمن کو کبھی زندہ گرفتاری نہیں دیں گے دشمن کے ہاتھ اِن کے گربیان تک اِن کی موت کی صُورت میں ہی بڑھ سکتے ہیں “اور یوں اُسامہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا....جو یہ اکثر کیا کرتے تھے۔ اُدھر اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد خود امریکی صدر مسٹر بارک اُباما اور امریکی فورسز کے سربراہان کے پاکستان کے تعاون سے متعلق جو متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں اَنہوں نے اَب تک امریکی جنگ میں فرنٹ لائن کے کردار ادا کرنے والے پاکستان کی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے....ایک طرف امریکی صدر اُباما یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکا کی اِس عظیم فتح اور کامیابی میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے اور پاکستان کے تعاون سے ہی ہم اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور اُسامہ کو مار کر اپنے مرنے والوں سے ہم نے انصاف کیا ہے اِس حوالے سے پاکستان کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے جبکہ دوسری طرف امریکی سربراہ جان برتن نے وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران اُسامہ بن لادن کے خلاف کی جانے والی اِس مختصر مگر کامیابی کا سہرا امریکی فورسز سر لیتے ہوئے پاکستان کے تعاون کی سخت ترین الفاظ میں اپنی تردید میں بلاجھجھک کہا ہے کہ ”اُسامہ بن لادن کے خلاف کاروائی سے پاکستان لاعلم تھا اور پاکستان کو ہم نے اُس وقت اطلاع دی جب امریکی فورسز اپنا مشن ” دی کلڈ آف گریڈ اُسامہ “ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی فضائی حدود سے باہر آچکی تھیں ۔

اِس حوالے سے یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بحث فضول اور بے مقصد ہے کہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت میں پاکستان نے کیا کیا اور کیا نہیں ...یہاں میرے خیال سے یہ ایک علیحدہ بحث سے جو پاکستان اور امریکا سمیت دنیا بھر میں ایک بڑے عرصے تک جاری رہے گی مگر یہاں اِن تمام باتوں سے بھی زیادہ جو سب سے زیادہ ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی ایک اُسامہ بن لادن سے اتنے ڈرے ،سہمے تھے کہ اُنہوں نے اِس کی ہلاکت کے بعد اِس کی لاش کو نہ تو میڈیا کے سامنے لانے کی بھی جرات کی اور نہ ہی اِسے کسی مسلم ملک کے حوالے کرنے کا کوئی پروگرام ترتیب دیا یہاں میرا خیال یہ ہے کہ غالباََ ڈرے ، سہمے امریکیوں نے خود ہی سے یہ جواز پیش کیا کہ اُسامہ کی لاش کو کوئی بھی مسلم ملک اپنے ہاں دفن کرنے کو تیار نہیں ہے اِس لئے امریکی حکام نے اُسامہ کا مزار بننے سے روکنے کے لئے اُسے سمندر برد کردیا۔ اِس موقع پر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ یعنی امریکی اُسامہ بن لادن سے اِس قدر خوفزدہ ہیں کہ اُنہوں نے یہ سوچا کہ اگر اُسامہ بن لادن کا مزار کسی بھی ملک کی زمین پر بنا دیا گیا تو پھر آئندہ اِس کے چاہنے والے اِس کے مزار کی دن رات زیارت کریں گے اور اِس کے مزار کی زیارت کے بعد بھی وہ اپنے اندر پہلے سے کہیں زیادہ جذبہ جہاد اور امریکا کے خلاف نفر ت کو متحرک کرتے ر ہیں گے تو یوں ڈرے ، سہمے امریکیوں نے اُسامہ کو سمندر برد کر کے اپنی تنگ ذہنی اور محدود سوچ رکھنے کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُسامہ بن لادن کے وجود اور اِس کے خوف سے اپنی جانیں چھڑانے کا ایک اچھا بہانہ تلاش کیا ہے جس میں وہ اپنی تسلی کے خاطر کامیاب تو ہوگئے مگر اُسامہ سے اپنے ڈر اور اپنی اِس نفرت سے یہ ایک ایسی انتقام کی آگ دنیا میں بھر گئے ہیں کہ جس سے شائد چھٹکارہ حاصل کرنا امریکا کے لئے بہت مشکل ہوجائے۔ جب کہ امریکیوں کی اِس حرکت پر مسلم اُمہ کی ایک شہرہ آفاق اسلامی درسگاہ جامعتہ الازہر کے ترجمان اور ممتاز سعودی عالم دین ریاض الشریعہ کالج کے سابق ڈین ڈاکٹر سعودالفتیسان نے اپنے ایک بیان میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ اسلام نے کسی مسلمان کی سمندر میں تدفین کی مخالفت کی ہے اور اِس طرح الازہر کے شیخ احمدالطیب کے مشیر محمد عغب نے بھی اُسامہ بن لادن کی میت کو سمندر میں پھینکنے کے حوالے سے کہاہے کہ اسلام اِس کے سخت خلاف ہے اُنہوں نے کہا کہ اگر کسی کو قتل کیا گیا ہو یا وہ اپنی موت سے مرے اُس کی میت کا ہر قیمت پر احترام کیا جانا چاہئے اِس حوالے سے مسلم غیر مسلم یا عیسائی کی کوئی تفریق نہیں ۔بہرحال! یہاں میرا یہ کہنا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو اگر امریکیوں نے واقعی مار کر سمندر برد کر دیا ہے تو اِنہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ یہ کسی بھی لحاظ سے کسی کو بھی زیب نہیں دیتا ہے کہ کوئی کسی پر اتنا ظلم کرے کہ وہ مر جائے تو مرنے والے کو ظالم اِس کے دین ودھرم کے مطابق تدفین کے حق سے بھی محروم کردے یہ کہاں کا انصاف ہے اور یہ کیسی ظالم کی دادا گیری ہے جسے انسانیت ہر دور میں برا تصور کرتی رہے گی۔اگرچہ آج امریکا اُسامہ بن لادن کو مار کر خوشیاں تو منا رہا ہے مگر وہ یہ بھی تو سوچے وہ ایک طرف تو دنیا میں امن کا علمبردار بنا پھرتا ہے اور دوسری طرف اُسامہ بن لادن کو سمندر برد کرنے والی اپنی جارحیت سے دنیا کے سامنے اپنا ایک ایسا روپ سامنے لایا ہے کہ جس سے انسانیت تھرا اٹھی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اُسامہ بن لادن کو سمندر برد کر کے امریکا دنیا کے سامنے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے....؟
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 943840 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.