کرونا وائرس آسمانی آفت یا شیطانی منصوبہ

کرورانا وائرس دنیا بھر میں ایک وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ اسے ہم مسلمان خدا کی ناراضگی ‘ بڑھتے ہوئے گناہوں اور قدرت کی نافرمانی سے بھی تشبیہ دے رہے ہیں ‘ گھر وں اور مسجدوں میں اس عذاب کو ٹالنے کے لیے دعائیں اور اذانیں بھی دی جارہی ہیں لیکن یہ وباکم ہونے کی بجائے دنیا کے 199ممالک میں پھیل چکی ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں دو ہفتے پہلے کویت کے آسمان ٹکڑوں کی شکل میں گھروں پر گرتا ہوا نظر آیا‘ کویت کے لوگ اس خوفناک منظر کو دیکھ کر چیخ وپکار کرکے رب سے معافی مانگ رہے تھے ‘ اس سے ایک ہفتہ پہلے مجھے انگلینڈ سے ایک دوست نے ویڈیو بھجوائی جس میں سرزمین عراق کے افق پر دو عجیب الخلقت قسم کے بڑے دائرے اورسرخ گولے دکھائی دیئے جو پہیئے کی طرح گھوم بھی رہے تھے جسے دیکھ کر لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے ‘ آسمان پر عجیب و غریب مناظر پہلی مرتبہ دکھائی نہیں دیئے بلکہ جن لوگوں نے 65ء کی جنگ دیکھی وہ اس بات کے شاہدہیں کہ اس وقت بھی آسمان پر تلوار نمودار ہوئی تھی جس کی ہتھی پاکستان اور نوک بھارت کی جانب تھی ‘علمائے کرام نے اسے فتخ کی علامت قرار دیا تھا پھر 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران دمدار ستارہ آسمان پر دیکھا گیا جسے نحوست کی نشانی قرار دیاگیا۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ آسمان پر نمودار ہونے والی یہ نشانیاں عذاب الہی کی نشاندھی کرتی ہیں اور قرب قیامت کے آثار بھی کہے جاسکتے ہیں ۔اسلامی تاریخ کے ایک واقعے کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں ۔ ایک بار قحط پڑگیا ۔اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہوئے ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے قحط سے نمٹنے کے لیے تمام تدبیریں آزمالیں ۔غلے کے گودام کھول دیئے ‘ ٹیکس معاف کردیئے پوری سلطنت میں حکومت کی جانب سے لنگرخانے قائم کردیئے ۔اس کے باوجود حالات ٹھیک نہ ہوئے ۔ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا اسے نیند نہیں آرہی تھی اس نے اپنے وزیراعظم یحیی بن خالدکو طلب کیا ۔یادرہے کہ یہ خلیفہ کے استاد بھی تھے اور انہوں نے بچپن سے لے کر جوانی تک ہارون الرشید کی تربیت بھی کی تھی ۔ہارون الرشیدنے کہا استاد محترم مجھے کوئی ایسی داستان سنائیں کہ دل کو قرار آجائے ۔یحیی بن خالد مسکرائے اور بولے میں نے ایک داستان پڑھی تھی اگر آپ اجازت دیں تو وہ سنادوں ۔ کسی جنگل میں بندریا سفر کے لیے روانہ ہونے لگی وہ اپنے بچے کو ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی وہ شیر کے پاس گئی اور درخواست کی کہ تم جنگل کے بادشا ہ ہو‘ جب تک میں واپس نہ آجاؤں میرے بچے کی حفاظت کرنا ۔شیر نے حامی بھر لی اور بندریا کے بچے کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا ۔بندریاسفر پر روانہ ہوگئی ۔ایک دن شیر اپنے شکار کے پیچھے بھاگ رہاتھا اچانک آسمان پر اڑتی ہوئی ایک چیل نے غوطہ لگایااور بندریا کا بچہ اپنے پنجوں میں دبوچ کر غائب ہوگئی۔شیر نے بہت دوڑ بھاگ کی لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا۔جب بندریاسفر سے واپس آئی تو اس نے اپنے بچے کے بارے میں پوچھا شیر نے شرمندگی سے بتایا اسے چیل اٹھاکر لے گئی ۔بندریا غصے میں بولی تم جنگل کے کیسے بادشاہ ہو۔شیر نے کہااگر زمین کی کوئی آفت تیرے بچے کی جانب بڑھتی تو میں روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف آسمان والا ہی روک سکتا ہے ۔ یہ داستان سناتے ہوئے یحیی بن خالد نے ہارون الرشید سے کہا بادشاہ سلامت دنیامیں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔زمینی اور آسمانی۔یہ قحط آسمانی آفت ہے یہ تب ختم ہوگی جب اﷲ کو آپ راضی کریں گے ۔آپ آفت کا مقابلہ بادشاہ بن کر نہیں فقیر بن کر اﷲ کے سامنے گڑگڑائیں ‘ اپنے اور امت کے گناہوں کی معافی مانگ کر اﷲ سے مدد مانگیں دنیا کے تمام مسائل اور ان کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا انسان کے ماتھے اور زمین کاہے ۔جب رب راضی ہوجائے تو مصیبتیں بھی ٹل جاتی ہیں اور وبائیں بھی۔

اس بات پر ہمارا پختہ ایمان ہے کہ دنیا میں جتنی بھی آفتیں اور مصیبتیں آتی ہیں وہ رب کی ناراضگی کی بدولت ہی آتی ہیں لیکن دنیامیں کچھ طاقتور اور انسان دشمن ممالک ایسے بھی ہیں جو م اپنی طاقت کے اظہار کے لیے خلق خدا کی تباہی کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں ۔ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تو ایک عام سی بات ہوچکی ہے لیکن سائنسی ماہرین کے مطابق کوورانا وائرس کسی سپر طاقت کی حیاتیاتی لیبارٹریزکی پیداوار ہے ۔اس کے باوجودکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی وائرس ‘ جرثومے کو بطور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرنا دہشت گردی یا جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران حیاتیاتی ہتھیار بڑی اہمیت اختیار کرگئے تھے ۔1942ء میں ہی کئی طاقتور ممالک ایسے خطرناک وائرس کی تیاری میں مصروف عمل تھے جن کو انہوں نے اس وقت بھی اپنی فتح کے لیے استعمال کیا۔مورخین لکھتے ہیں کہ 1952ء میں جنگ کوریا کے دوران بھی پہلی بار حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے گئے جس کی وجہ سے چین اور شمالی کوریا میں عجیب و غریب بیماریوں کی وبا پھوٹ پڑی تھی ۔چونکہ اکیسویں صدی میں عوامی جمہوریہ چین اقتصادی اعتبار سے سب سے بڑی اور مضبوط عالمی طاقت کے روپ میں ابھر رہا تھااس لیے چین کی اقتصادی ترقی کو روکنے کے لیے کوورانا وائرس کا سہارالیا گیا ووہان جو چین کانواں بڑا صنعتی شہر ہے جسے چین میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیاجاتاہے ‘اسی شہر کوورانا وائرس کا نشانہ بناکر تین ہزار سے زائد افراد کو نہ صرف موت کی نیند سلا دیا بلکہ اقتصادی اعتبار سے چین ایک صدی پیچھے جاچکا ہے ‘اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ کوروانا وائرس نے چین اور چینی مصنوعات کو دنیا بھرکے لیے اچھوت بنا کر رکھ دیا۔اب چین تو کوورانا وائرس سے نجات حاصل کرچکا ہے لیکن جو ممالک کسی نہ کسی طرح حیاتیاتی وائرس بنانے اور چین میں لانچ کرنے میں شامل تھے اب ان میں یہ وائرس تباہی پھیلاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ‘ امریکی صدر کی یہ بات قابل غور ہے کہ دو لاکھ امریکیوں کی ہلاکت تک روک لینا بھی بڑی کامیابی ہوگی ۔ اب کس ملک کی لیبارٹریز میں یہ وائرس بنا اور کس نے چین میں اسے لانچ کیا۔ حقائق چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ آج وہی وائرس ان کے گھروں کی دہلیز پر جا پہنچا ہے ۔ہمارا ایمان ہے کہ جہاں سپر طاقتوں کی ٍخباثت ختم ہوتی ہے وہاں اﷲ کی رحمت شروع ہوتی ہے ‘شرط صرف یہ ہے کہ ہم مسلمان کسی اور کی جانب دیکھنے کی بجائے زمین پر ماتھا ٹیک کر اس قدر گڑگڑائیں کہ رحمت خداوندی جوش میں آکر کوورانا کا خاتمہ کردے۔


 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.