وہ کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑے
یہی کچھ حال اپنے وزیرِ اعظم عمران خان کا ہوا ہے سابقہ حکمرانوں نے کنگال
لور کھوکھلا پاکستان ان کی جھولی میں ڈال دیا تھا کرپشن،بدانتظامی اوربے
لگام اشرافیہ نے اس ملک کا براحال کررکھا تھا ، قومی معیشت کی تباہ کن
حالت،پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھاغیرملکی قرضے اس قدرہوگئے تھے کہ ان
کے سودکی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لینے کو ہی مسئلہ کا واحد حل سمجھ لیا
گیاتھاان حالات میں عمران خان نے جب IMFسے قرضے لینے کااعلان کیاتو ایک
ہنگامہ سا مچ گیا کہ عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ میں قرضے لینے کی
بجائے خودکشی کرلوں گا بھرپور تنقید،اپنے پرائے کی شدید مخالفت اور کڑی
شرائط پر 6ارب ڈالرقرضہ لے لیا کہ اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں تھا اس دوران
ڈالر مہنگاہوتاگیا پاکستانی کرنسی روپے کی قدر کم ہوتی چلی گئی ابھی حالات
سنبھلے ہی نہ تھے دنیا کو کرونا وائرس نے آلیا پاکستان جیسا غریب ملک بھی
اس وبا ء سے بری طرح متاثر ہوا عمران خان اور اس کی ٹیم نے جو اقتصادی
اصلاحات کرکے ملک کو جو سنبھالا دینے کی کوشش کی تھی وہ تمام کی تمام اس
عفریت کی بھینٹ چڑھ گئیں پوری دنیا میں عجیب خوف و ہراس پھیل گیا
سکول،کالجز،سٹاک مارکٹیں،کاروبار الغرض ہر چیز فریز ہوگئی حکومت کو اپن۔
شہریوں کی جان کے لالے پڑ گئے کروڑوں شہری بیروزگار ہونے سے ملک میں افلاس،
غربت اور خوف کا راج ہوگیا آپ اندازہ کریں حکومت نے 6ارب ڈالر کا جوقرضہ
کڑی شرائط پر لیا تھا اس سے دوگنی رقم کا ریلیف پیکج عوام کو دینا پڑ گیا
اس سے زیادہ حکومت کی بے بسی کیا ہوگی اور وزیر ِ اعظم پرکیا بیت رہی ہے
اپنی حالت کا اندازہ وہ خود بھی لگاسکتے کیونکہ کرونا وائرس کے بعد ایک نئی
دنیا کا ظہور ہونے جا رہا ہے یقینا آنے والا وقت پاکستان کے لئے بڑاامتحان
ہوگا جس کے لئے ہمیں خودکو تیارکرناہوگا آج ہرقسم کے کاروبار بندہیں
،روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کرکے گھروں کا چولہا جلانے والے گھروں تک
محدودہوکررہ گئے ہیں ہرقسم کی اندسٹری بندہے جس کے اثرات آنے والے ماہ وسال
میں نمایاں ہوں گے تو غربت کی ایک شدید لہر سے کم وبیش دو تین کروڑ افرادخط
ِ غربت کی لکیر سے مزید نیچے چلے جائیں گے جن کی بحالی حکومت کے لئے ایک
نیا چیلنج ہوگا کرونا وائرس سے پاکستان کی معیشت کو جو نقصان ہو رہا ہے اس
کا ابتدائی تخمینہ ایک کھرب 30 ارب روپیہ لگایا گیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس
صورت حال سے دنیا بھر کی معیشتیں دوچار ہے اس لیے یقیناً پاکستان کو عالمی
اداروں کو کی جانے والی ادائگیوں میں چھوٹ ملنے کا بھی امکان ہے ۔اس وقت
غربت لور مہنگائی پاکستان کے سب سے بڑے مسائل ہیں بینظیر انکم سپورٹ فنڈ
یااحساس پروگرام میں رجسٹرڈ لوگوں کی تعداد 52 لاکھ ہے لیکن مستحقین کی
تعداداس سے کہیں زیادہ ہے سفیدپوش رسوائی کے ڈرسے اس پروگرام کا حصہ نہیں
ہیں جو رجسٹرڈ ہیں ان میں سے بیشتر مخیرحضرات اور دیگر این جی اوز سے بھی
مالی امداد لیتے رہتے ہیں کچھ خرابیوں کے باوجود 52 لاکھ تک امداد پہنچانے
کا ایک طریقہ کار بہرحال موجود ہے جبکہ روزانہ کی بنیادپر روزی کمانے والے
یا ہوٹلوں،ورکشاپوں،دکانوں پر کام کرنے والے لاکھوں افراد تک رسائی کا کوئی
بھی طریقہ کار موجودنہیں حکومت ان کی مدد کرنی بھی چاہے تو ایسا نہیں
کرسکتی اس لئے حکومت کو کوئی ایسا طریقہ کار بھی اپنانا پڑے گا جس کے ذریعے
وہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں متاثرین تک پہنچ سکے دوسرا ملک میں اس وقت
کل لیبر فورس پانچ کروڑ 72 لاکھ پر مشتمل ہے جس میں سے 43 فیصد کا تعلق
زراعت سے ہے جس کا ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق
ساڑھے بیس فیصد کا تعلق صنعت سے ہے صرف اس کا ڈیٹا حکومت کے پاس ہے جبکہ
36.6 فیصد دیگر شعبوں میں کام کرنے والوں میں سے بھی بہت محدود تعداد کا
انفرادی ڈیٹا حکومت کے پاس ہے۔ اس لیے اگر کوئی ایسی ہنگامی صورت حال پیدا
ہو جائے تو حکومت کے لیے سب سے مشکل یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ کن لوگوں کے
چولہے جلانے کے لیے حکومت کی امداد کی ضرورت ہو گی اور وہ کیسے دی جائے گی؟
دنیا اب کسی مسئلے کو کسی ملک کا اندرونی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کا
رسک نہیں لے سکتی قدرتی آفات اور وباؤں سے نمٹنے کے ادارے تو 2005 ء کے
زلزلے کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر بنا دئیے گئے مگر ابھی تک وہ موثر
ثابت نہیں ہو سکے جس کی ایک بڑی مثال تفتان میں ہونے والی بد نظمی ہے جس نے
پورے پاکستان میں لاک ڈاؤن کرا دیا۔ اس وبا ء سے ایک سبق یہ بھی ملا ہے کہ
ہمیں ان اداروں کو از سر نو منظم کرنے کی ضروت ہو گی اس میں نئی اصلاحات اس
اندازسے کی جائیں یہ ادارے سیاسی، شخصی اور حکومتی دباؤ سے آزادہوکرکام
کریں اب ضروری ہوگیا کہ بلدیاتی اداروں کو مستقل بنیادوں پر فعال کردیا
جائے یہ ادارے ہرمشکل وقت اور ہنگامی طورپر بہترین معاون ثابت ہوسکتے ہیں
کیونکہ بلدیاتی نمائندے اپنی یونین کونسل کے زیادہ ترلوگوں کو ذاتی
طورپرجانتے ہیں اس لئے ہریونین کونسل سطح پر مستقل طورپرایک ریلیف کمیٹی
قائم کی جائے جس میں مخیرحضرات کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں کی نمایاں
شخصیات کو شامل کیا جائے جو بلدیاتی نمائندوں کیساتھ مل کر حکومتی ہدایات
فالوکریں ہریونین کونسل سطح پر مستحقین، سفیدپوش اور کم وسائل ضرورت مندوں
کی فہرستیں تیارکریں جس کی بحالی کے لئے ٹھوس بنیادوں پرحکمت ِ عملی ترتیب
دی جائے کیونکہ ووہان سے جو سبق ملا ہے وہ ہرلحاظ سے خاص ہے دنیا جب لاک
ڈاؤن سے نکلے گی تو وہ ڈری ،ڈری اور سہمی ،سہمی ضرو رہوگی بلکہ پہلے سے
زیادہ پر اعتماد اور مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتی ہو گی لیکن اسے نئے
چیلنجز اور بہت سے مسائل کا سامنا کرناہوگا ۔ بیماریوں کے تحفظ اور ہنگامی
صورت ِ حال سے بچنے کے لئے دنیا کو خالص خوراک کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا
ملاوٹ سے پاک ،حلال اور تازہ خوراک، فروٹ کااستعمال بڑھاناہوگا کیونکہ
کرونا وائرس کی وجہ سے تقریبا دنیا کا ہر شخص پریشان ہے اور ہر شخص کرونا
وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اپنا رہا ہے اور ہر کسی کی کوشش ہے کہ
وہ ایسی خوراک کا استعمال کرے جس سے اس کی قوت مدافعت میں مسلسل اضافہ ہو
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچنے کا صرف یہی واحد طریقہ ہے کہ ہم
احتیاط کریں اور ہم اپنے کھانے میں ان چیزوں کا استعمال زیادہ رکھیں جس سے
قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اس سے صحت مند لوگوں پر بیماریاں کم حملہ
آورہوتی ہیں آپ اپنے معمول کے مطابق ناشتہ کریں لیکن کوشش کریں کہ انڈے,
کھجور, شہد اور کلونجی وغیرہ اپنی غذا کا حصہ بنالیں اس کے علاوہ کوشش کریں
کہ دن میں آدھا گھنٹہ ورزش ضرور کریں. ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوشش
کریں کہ زیادہ سے زیادہ گھر کے اندر رہیں اور بلا ضرورت گھر سے باہر مت
جائیں موجودہ صورت ِ حال میں گھر میں بھی زیادہ افراد اکٹھے ہو کر ایک جگہ
پر مت بیٹھیں. ماہرین کے مطابق مدافعتی قوت بڑھنے سے انسان کے جسم پر کرونا
وائرس کے اثرات کم ہو تے ہیں اور ایسا صرف ورزش کرنے اور متوازن غذا کے
استعمال سے ہی ممکن ہے۔
|