وزیراعظم پاکستان عمران خان یہ کہنا بالکل درست ہے کہ
ہمارامقابلہ کورونا سے نہیں غربت اور بیروزگاری سے بھی ہے، ہر فیصلہ زمینی
حقائق سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے گا، وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ انسداد
کورونا کیلئے دیگرممالک کے اقدامات کاجائزہ لیاجارہا ہے، ہر فیصلہ زمینی
حقائق سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے گا، موجودہ صورتحال میں درست اور حقائق پر
مبنی ڈیٹا کی دستیابی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، درست ڈیٹا کی فراہمی کے
حوالے سے کسی قسم کی کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی، سانچ کے قارئین
کرام ! وطن عزیز پاکستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ اور عوام کی جانوں کو
محفوظ رکھنے کے لئے گزشتہ بارہ دن سے لاک ڈاؤن ہے اگرچہ لاک ڈاؤن کے دوران
حکومت کی جانب سے سختی نہ ہونے کی وجہ سے پہلے آٹھ دن تک شہری خاص طور پر
نوجوان اور بچے کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر کھیل کود
اور بازاروں کا رُخ کرتے رہے اُنھوں نے کسی بھی قسم کے حکومتی اور محکمہ
صحت کی جانب سے دی گئی ہدایات کو ماننے سے انکار کیا سکولوں میں ہونے والی
چھٹیوں کوبچے گھومنے پھرنے میں مصروف رہے جبکہ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں
احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کے حوالہ سے حالات اس سے بھی کہیں زیادہ
دیکھے جاسکتے ہیں ، اگر میں یہ کہوں کہ پہلے آٹھ دن کے لاک ڈاؤن میں بارہ
سے پندرہ فیصد شہریوں نے ہی گھروں میں رہنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے
کو اہمیت دی ، حکومت نے گروسری ،کھانے پینے کی اشیاء کی دوکانوں ، تنوروں
،میڈیکل سٹوروں ،سبزی اور فروٹ منڈیوں ، بیکریوں ،دودھ دہی کی دوکانوں کو
لاک ڈاؤن کے دوران کھولنے کی اجازت دے رکھی تھی اس دوران اگرچہ پبلک اور
مال برداری کی ٹرانسپورٹ بھی بند رہی ،جسکا متبادل پبلک نے یہ نکالا کہ
اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر دفعہ 144کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے رہے
،اشیاء خورودونوش کے دوکانداروں نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مصنوعی
مہنگائی پیدا کر دی چند بڑی دوکانوں اور سٹوروں پر تو انتظامیہ کہیں کہیں
ایکشن میں نظر آئی لیکن گلی محلوں میں اشیاء خوردونوش بیچنے والوں نے سامان
کی سپلائی منقطع ہونے کا بہانہ بنا کر من مانی قیمتیں وصول کرنا شروع کر
رکھی ہیں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ وبائی مرض کرونا وائرس سے بچنے کے لئے
احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی بجائے 98%فیصد مسلمان آبادی والے ملک میں
حقوق العباد پورے کرنے کی بجائے مفاد پرستوں اور ذخیرہ اندوزوں نے مہنگائی
کا طوفان برپا کررکھا ہے ،وطن عزیزکے کاروباری طبقہ میں یہ کوئی نئی بات نہ
ہے تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود یہاں اسلامی تہواروں خاص طور رمضان
المبارک میں مصنوعی مہنگائی پیدا کرنا عام سی بات بن چکی ہے ، حکومت پنجاب
نے شہریوں کو مہنگائی سے بچانے کے لئے قیمت ایپ بھی متعارف کروائی ہے اور
انتظامیہ خاص طور پر پرائس کنٹرول مجسٹریٹ چھاپے مارنے اور جرمانے کرنے میں
مصروف ہیں لیکن تمام تر حکومتی اقدامات کے مہنگائی خاص طور پر آٹا کی کم
یابی اِس وقت جبکہ گندم کی نئی فصل بھی تیار ہے میں ہونا انتہائی حیرت
افسوس کا مقام ہے،دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آٹے کے
تھیلے جہاں جہاں پہنچائے جارہے ہیں وہاں عوام تعاون کرنے کی بجائے ایک ہی
گھر کے تین چار افراد آٹے کا تھیلا حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں جس سے
سب تک آٹا پہنچانے کی حکومتی کوششیں ناکام ہوتی نظر آنے لگتی ہیں جس کے لئے
ہم سب کو مہذب شہری کا ثبوت دینا چاہیے ،سابقہ سانچ کالم میں چند سال پہلے
کی ایک رپورٹ شیئر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں تقریباََ بارہ
ارب روپے کی روزانہ کرپشن ہوتی ہے ،ذخیرہ اندوزوں کے خلاف حکومت پنجاب کے
اقدامات اپنی جگہ لیکن گزشتہ روز کی ایک خبر قارئین کے لئے کالم کا حصہ بنا
رہا ہوں جس سے پتا چلتا ہے کہ حکومتی اقدامات اور احکامات کو ناکام کرنے
میں بعض اداروں کے اہلکار بھی ملوث ہوتے ہیں ،قارئین کرام آٹے کی قلت کی
وجہ بننے کے حوالہ سے خبر پڑھیے" اوکاڑہ دیپالپور روڈ پر مکہ مدنیہ ٹاون کے
قریب نجی گودام سے سپیشل برانچ کی نشان دہی پر تھانہ صدرپولیس اور سپیشل
مجسٹریٹ کا چھاپہ گودام سے محکمہ فوڈ کے تھیلوں میں بھری گندم کی 450
بوریاں برآمد ہوئیں ، زرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ فوڈ کے عملہ نے پولیس کو
محکمہ فوڈ کے تھیلوں سے دوسری بوریوں میں تبدیل کرنے کی منت سماجت کی تاکہ
ادارہ کا کرپٹ عملہ قانونی کاروائی سے بچ سکے پولیس تھانہ صدر نے گودام کے
مالک نعیم وغیرہ کے خلاف 450 بوری گندم کا مقدمہ درج کر لیاگودام کو محکمہ
فوڈ نے عارضی طور پر سیل کردیا،گودام کے اندر اور باہر کیمرے لگے ہوئے ہیں
، زرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ فوڈ کی ملی بھگت کے بغیرٹرکوں میں یہاں گندم
نہیں لائی جاسکتی تھی"ایک اور گزشتہ دنوں کی خبر جس پر مقامی صحافی پر تشدد
ہوا کو بھی پڑھتے جائیں" اخترآباد کے نوجوان صحافی رانا نواز نے گز شتہ روز
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف رپورٹنگ کی جس پر ایکشن لیتے ہوئے اے سی رینالہ خورد
نے بھاری جرمانے اور مقدمات درج کئے تھے، جس کی رنجش پر ذخیرہ اندوزوں نے
ایک ہوکر کر رانا نواز پر تشدد کیا ۔ پولیس تھانہ صدر رینالہ نے رانانواز
احمد کی درخواست پر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ ڈی پی او اوکاڑہ عمر
سعید ملک نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ہوئے ڈی ایس پی رینالہ خورد کی
سربراہی میں میں ٹیم تشکیل دے دی جو ملزمان کو فوری گرفتار کرکے واقعے کی
انکوائری کرے گی ڈی پی او کا کہنا تھا کہ پولیس کسی بھی صحافی کے ساتھ
زیادتی برداشت نہیں کرے گی۔ صحافیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزمان کے
خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے گی"۔ سانچ کے قارئین کرام ! کرونا وائرس کی
وجہ سے پنجاب بھر کے سکولوں کالجوں میں موسم گرما کی چھٹیاں وقت سے پہلے کر
دی گئی ہیں اب سکول 31مئی تک بند رہیں گے اور جون میں حالات بہتر ہونے پر
پڑھائی اور چند جماعتوں کے امتحانات لئے جائیں گے یہاں بھی پرائیویٹ سکولوں
کے مالکان نے وویلا مچا رکھا ہے کہ انکی آمدن بند ہوگئی ہے جبکہ حقیقت میں
تمام پرائیوٹ سکول ماہ مارچ 2020تک کی ماہانہ فیس اور سالانہ فیس وصول کر
چکے ہیں جبکہ حکومت نے سکول مارچ کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر بند کیے تھے
،پرائیویٹ اداروں کے سربراہان کی طرف سے مشترکہ پریس ریلیز کہ پرائیویٹ
ادارے مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں صرف اور صرف حکومت کی جانب سے امدادی
پیکج حاصل کرنے کی کوشش ہے جبکہ تمام پرائیویٹ سکول مالکان بچوں سے کتابوں
اور سلیبس کی قیمتیں بھی وصول کرچکے ہیں ،گزشتہ دو سال سے موسم گرما کی
چھٹیوں میں بھاری فیسیں وصول کرنے والے سکولوں کے حوالہ سے عدالتوں میں
سماعتیں ہوتی رہیں اور محکمہ تعلیم کی جانب سے نوٹیفکیشن بھی آتے رہے لیکن
یہ ادارے عوام کو لوٹتے رہے اور آئندہ بھی کسی نا کسی بہانے سے یہ سلسلہ
جاری رہے گا حکومت پنجاب کی جانب سے ای لرننگ اور تعلیم گھر کے نام پر
مقامی کیبل پرچینل چلانے سے حکومت کے اس اقدام کو پزیرائی حاصل ہورہی ہے
جبکہ دوسری جانب پرائیویٹ ادارے جو کہ سالانہ فیس سمیت موسم گرما کی
تعطیلات میں بھی ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں اوراپنے اسٹاف کو تنخواہ بھی
نہیں دیتے انکے لئے ایک ایسے قانون کی اشد ضرورت ہے جو پرائیویٹ سکول کے
اساتذہ کو بھی تحفظ فراہم کر سکے ، آخر میں ایک انتہائی اہم پیغام جس پر
عمل کر کے آپ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں ، کرونا
وائرس سے احتیاط برتنے کے لئے چوراہوں ،سڑکوں کے اطراف کپڑے کے ماسک فروخت
کئے جا رہے ہیں، آپکی بے احتیاطی کی وجہ سے یہ وائرس کیرئیر کا سبب بھی ہو
سکتے ہیں، کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ماسک خریدنے سے پہلے اپنے منہ
پر لگا کر ماسک کا سائز چیک کرتے ہیں اور رنگ پسند کرتے رہتے ہیں ،پسند نہ
ہونے کی صورت میں دوسرا یا تیسرا چیک کرتے ہیں، خدا نخواستہ اگر پہلے اس
ماسک کو کسی متاثرہ مریض نے چیک کیا ہو تو یہ وائرس زدہ ماسک ڈائریکٹ ناک
اور منہ سے آپکو متاثر کرسکتا ہے لہذا عوام الناس سے درخواست ہے کہ ایسا
کرنے سے مکمل اجتناب برتیں، میڈیکل سٹور سے صاف ماسک خرید کر پہنیں ، اﷲ
تعالی سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین٭
|