شکریہ! شیخ اسامہ بن لادن

اللہ جانے وہ عالم اسلام کا ہیرو تھا یا ولن اس کے بارے میں لا متناہی آراء اور قیاسات ہیں۔کچھ لوگ اسے عالم اسلام کا واحد باغیرت قائد گردانتے اور اس کے ہر اقدام کی تو ثیق کرتے نظر آتے ہیں جبکہ عالم اسلام ہی میں بہت سارے ایسے بھی ہیں جو حضرت شیخ اسامہ کو لاکھوں مسلمانوں کے خون نا حق کا ذمہ دار سمجھتے ہیں ۔کچھ منچلے تو اس سے بھی آگے بڑھ کے اسامہ کو امریکہ کا ایجنٹ اور پٹھو تک قرار دینے سے نہیں چوکتے۔ وہ امریکہ کے ہاتھوں خون مسلم کی ارزانی کا ذمہ دار اسی شخص کو سمجھتے ہیں ۔اب صحیح کیا ہے اور غلط کیا اس کے بارے میں یا تو اصل حقیقت کا علم اس مالک کو ہے جو سارے جہانوں کے غیب سے واقف ہے یا پھر اسامہ کو خود اس کا علم ہوگا یا اس کی حقیقت سے خود امریکہ واقف ہے۔اللہ امریکہ اور اسامہ ایک ایسی تکون ہے جس کے درمیاں ہم غریبوں کی حیثیت پرکاہ سے بھی کم ہے۔

اسامہ کی وجہ ہی سے امریکہ روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہوا۔افغان جنگ میں جہاں امریکیوں نے پیسہ لگایا وہیں اسامہ نے بھی اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔نہ صرف اس نے اپنی دولت پانی کی طرح بہائی بلکہ تمام عالم اسلام سے لوگوں کو اکٹھا کر کے روسیوں کے سامنے کھڑ ا کر دیا۔اسامہ کو مجاہد اعظم کا پہلا ٹائٹل بھی انہی دنوں امریکیوں ہی کی جانب سے عطا ہوا۔یہ وہ دن تھے جب چار دانگ عالم میں اسامہ کا طوطی بولتا تھا اور جہاں کہیں نہیں بولتا تھا وہاں امریکی خود اسے بولنے پہ مجبور کیا کرتے تھے۔اسامہ کے عرب و عجم سے آئے مجاہدین نے ایک دن روسی ریچھ کو خاک چاٹنے پہ مجبور کر دیا۔عالم اسلام میں چونکہ ہیروز کا بہت کال ہے اس لئے اسامہ مسلمانوں کے دل کی دھڑکن بن چکا تھا لیکن امریکی دراصل اسے ایک کن ٹٹے سے زیادہ کی حیثیت دینے کو تیار نہ تھے۔ان کا مقصد جب پورا ہو گیا تو انہوں نے اپنے سارے کن ٹٹوں کو ان کے حال پہ چھوڑا اور واپس اپنے دیس سدھار گئے۔

ان کے جانے کے بعد حسب عادت وروایت مسلمان افغان راہنماؤں میں اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ہزاروں افغانی اس جنگ کا نشانہ بنے ۔ان چیرہ دستیوں اور مظالم سے تنگ افغانی عوام نے طالبان کی چھتری تلے پناہ تلاش کی۔اسامہ نے طالبان کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔یوں طالبان کو ہمیشہ کے لئے اپنے احسانوں کے بوجھ تلے داب دیا۔یہی وہ وقت تھا جب اسامہ نے شیطان بزرگ امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کیا۔امریکہ کا اپنا تیار کردہ مجاہد اب ایک مستند کن ٹٹے کا روپ دھار چکا تھا۔پہلے پہل امریکہ کے سفارت خانوں پہ حملے کیے گئے اور پھر وہ محیر العقول واقعہ ظہور پذیر ہو ا جسے ماننے سے عقل آج بھی انکاری ہے۔بغیر کسی مملکت کی آشیرباد کے چند نہتے لوگوں نے امریکہ کے دل میں سوراخ کرتے ہوئے مشہور زمانہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اڑا دئیے۔الزام اسامہ پہ لگا اور اس نے بھی بجائے انکار کرنے کے بحسن و خوبی اور بسرو چشم قبول کر لیا۔طالبان پہ اسامہ کی مدد کا الزام لگا اور یوں امریکہ کو مسلمانوں کا تورا بورا بنانے کا بہانہ مل گیا۔

اس کے بعد امریکہ نے پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا اسے جہاں بھی کوئی ایسا مسلمان نظر آیا جو اگلے زمانوں تک بھی اس کے لئے خطرہ بن سکتا تھا اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔پاکستان تو ویسے بھی ہے ہی غریب کی جورو اس لئے سب سے پہلے اسے ہی حکم اطاعت ہوا ۔ہمارے یہاں اس وقت ایک ایسے شخص کی شخصی حکومت تھی جس کے بارے میں سنا ہے کہ اس کی ریڑھ میں ہڈی تھی ہی نہیں۔وہ حکم سنتے ہی یوں لیٹ گیا گویا مدت سے اس گھڑی کا منتظر ہو۔اس نے وہ بھی مانا جس کی منوانے والے بھی توقع نہیں رکھتے تھے۔اس کے بعد ہماری دھرتی پہ ایک ایسی لڑائی شروع ہوگئی جس سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔جب آپ کسی کے بچے ماریں گے تو لا محالہ وہ آپ کے بچوں کی جان لینا چاہے گا۔یوں یہ لڑائی افغانستان سے نکل کے پاکستان منتقل ہو گئی۔اب یہاں ہر وہ شخص اور حکومت چڑھ دوڑی جسے پاکستان سے ہلکی سی بھی پر خاش تھی۔اسرائیل امریکہ بھارت اور تو اور افغانستان بھی جس کے لئے کبھی ہم نے اپنی سلامتی بھی داؤ پہ لگا دی تھی،یہ سب مل کے ہماری گردن ماپنے کا موقع ڈھونڈنے لگے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کے گماشتے جنہوں نے اپنے آپ کو طالبان کا چولا پہنا رکھا تھا ہمارے دارالحکومت کی دیواروں پہ دستک دینے لگے۔

قدرت کو شاید پاکستان پہ رحم آیا۔قیادت تبدیل ہوئی سیاسی بھی اور عسکری بھی اور یوں پاکستان جو کہ دشمنوں میں گھر چکا تھا آہستہ آہستہ اپنی گردن سے چمٹے ان خون آشام درندوں کو اتارنے کی سعی کرنے لگا۔ابھی ہم بمشکل اس میں کامیاب ہوئے ہی تھے کہ اسامہ صاحب نے دوبارہ ہمارے اوپر ایک اور احسان کر ڈالا اور اپنی شہادت کے لئے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد کو پسند فرما ڈالا۔اسامہ صاحب تو شہادت کا درجہ پا کے سمندر کی مچھلیوں کے راستے اس وقت جنت کی حوروں کے ساتھ اٹھکھیلیوں میں مشغول ہوں گے لیکن ادھر پاکستانی کی حکومت اور عوام پہ ان شہید عالم اسلامیہ پہ ایک نئی افتاد نازل ہونے کو ہے۔طالبان پاکستان کو اب اپنا پہلا ہدف قرار دے کے قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کر چکے۔حامد کرزئی جیسا ٹٹ پونجیا بھی اپنی مجلس شوریٰ میں یہ کہتا پایا گیا کہ میں نہ کہتا تھا کہ دہشت گردی کہ جڑیں پاکستان میں ہیں دیکھا کیسی بڑی جڑ پاکستان میں پائی گئی۔ہندو میڈیا بھی برابر پاکستان ہی کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ قرار دے رہا ہے اور رہا مغربی میڈیا تو وہ تو ویسے ہی پاکستان کے وہ دوست ہیں جنکی موجودگی میں دشمنوں کی حاضت نہیں رہتی۔

پاکستان ایک دفعہ پھر دوراہے پہ ہے ۔ساری دنیا کی ملامت بھری نگاہوں کا واحد نشانہ اور قیادت اس شخص کے ہاتھ میں ہے جو پیسے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔اللہ ہی پاکستان کی حفاظت کرے۔یہ وقت دعا ہے ۔شکریہ مسٹر و مولانا اسامہ آپ نے جاتے جاتے بھی ہمارا مکو ٹھپوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 59171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.