قبلہ اول کے نالے

ماہ رفتہ یہودی جارحیت کے نتیجے میں دو درجن کے لگ بھگ فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے۔ایک بار پھر پنجہ یہود میں جکڑا ہوا قبلہ اول عالم اسلام کی بے حسی پر شکوہ کناں ہے۔سلام ہے جرات وعزیمت کے پتلوں کو جن کی استقامت وحمیت نے دجال کی ذریت کو نکیل ڈال رکھی ہے۔اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کی ستم گری کا شکار اہل فلسطین ”بابرکت “سرزمین پر،بیت المقدس کے تحفظ وسلامتی کی خاطر اپنے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔شہادتوں،عزیمتوں اور صعوبتوں کی لامتناہی داستان ہے جس کی تپش سے ایمان کو جلا اور روح کو ٹھنڈک ملتی ہے۔

یہ حقیقت کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی اسرائیل نوازی کے باعث مسلمانان فلسطین کے درمیان غیرمقبول ہوچکی ہے۔ایسے میں فلسطینیوں کی جانب سے سیاسی ،عوامی اور عسکری سطح پر حماس کی غیرمعمولی پذیرائی ،اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے۔اسلامی تحریک مزاحمت (حماس)جہاں مسلح جدوجہد کے اعتبار سے اسرائیلی ریاست کو مشکلات سے دوچارکرنے میں کامیاب ہے، وہاں سیاسی میدان میں بھی اپنی دور رس حکمت عملی کے تحت مختلف فلسطینی دھڑوں کو یکجا کر کے مثبت سمت میں قدم بڑھا رہی ہے۔مشہور فلسطینی دانش ور ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے حماس کی جانب سے مفاہمتی کوششوں کو قابل ستائش اقدام قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی جماعتیں کوئی ایک راستہ منتخب کریں اور سب مل کر اس پر چلیں۔اس سفر کا آغاز اوسلو معاہدے کی تنسیخ سے ہونا چاہیے ،جس کے بعد ملک میں موجود تمام حکومتی سسٹم ختم کردیے جائیں۔ٹیکنوکریٹ اور غیر سیاسی قومی شخصیات پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دی جائے ۔اور جو جماعت اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا چاہے ،اس کے لیے راستے کھلے چھوڑے جائیں۔“

ایک طرف اسرائیل یہودی بستیوں میں توسیع ،مسجد اقصیٰ کے انہدام کی سازش اور اسلام پسند مسلمانوں کا استحصال کر رہا ہے ،تو دوسری طرف حماس اور فتح کے مابین مصالحتی معاہدوں کو دہشت گردی کا عنوان بتلایا جارہا ہے۔طرّہ یہ کہ امریکا بہادر اپنے لے پالک کی کمر تھپتھپانے سے نہیں چوک رہا۔قصرابیض کے ترجمان کے مطابق”حماس کو مشرق وسطیٰ سے متعلق گروپ 4کے اصولوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔جس میں فلسطینی دھڑوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تشدد کی مذمت کریں اور اس کے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کا اعلان کریں۔“

یہ امر اپنی جگہ ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ امریکا اسرائیلی ریاست کے استحکام میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیتا۔تل ابیب کی تعمیر وترقی میں امریکی معاونت کا بھرپور عمل دخل ہے۔واشنگٹن نے کبھی مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے حق میں صدائے احتجاج نہیں بلند کی۔الٹا اقوام متحدہ جو کفریہ طاقتوں ہی کے ملاپ کا دوسرا نام ہے، میں اسرائیل کی ہم نوائی اور پشت پناہی کی جاتی رہی ہے۔ وہ امریکا جو ہر جگہ امن کا علمبردار بن کر اپنی چودھراہٹ بکھیرنے میں دیر نہیں لگاتا،اُسے گزرے چھ عشروں میں معصوم اور مفلوک الحال باشندگانِ ارض قدسی پر رحم نہیں آیا۔حال ہی میں امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے ایک بیان میں فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک نئے روڈ میپ کی تیاری پر غوروفکر کا اعلان کیا ہے۔جس کو حماس کے رہنما اور سابق وزیر انجینئر وصفی قبہا نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے”امریکا نے فلسطینیوں کو ہمیشہ مایوس کیا ،عالمی سطح پر جہاں کہیں بھی اہل فلسطین کے حقوق کی بات ہوئی تو امریکا نے اسرائیل کی حمایت کی۔حال ہی میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی مذمتی قرارداد لائی گئی تو امریکا نے اسے اسرائیل کے حق میں ویٹو کردیا۔اگر امریکا کا یہی انصا ف ہے تو اس فلسطینیوں کے حقوق کی رٹ لگانا ہی ترک کردینا چاہیے۔“

عالم عرب میں پیدا ہونے والی تبدیلی کی لہروں نے جہاں جابر اور مطلق العنان حکمرانوں کو عرش سے فرش پر دے مارا ہے ،وہاں مسلمانوں کے قبلہ اول کی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔جس کا تازہ ثبوت القدس فاﺅنڈیشن کا حالیہ اعلامیہ ہے ۔جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ” عرب دنیا کے داخلی تنازعات اسرائیل کے لیے القدس اور مسجد اقصیٰ کے گرد شکنجہ کسنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔“اس کے ساتھ ہی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر مذکورہ بیان کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے ،جس میں بتایا گیا ہے کہ عبرانی زبان میں شائع ہونے والے روزنامہ ھارٹز نے واضح کیا ہے کہ گزشتہ چالیس سالوں میں مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگوں کی کھدائی کا عمل بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔موجودہ منصوبے کے تحت کئی مختلف سرنگوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا۔ان سرنگوں کا مرکزی داخلی راستہ سلوان کالونی میں ہوگا۔ سرنگیں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار گریہ سے ہوتی ہوئی اولڈ میونسپلٹی تک جائیں گی۔یہودی آبادکاروں کی نگرانی میں متعدد کنوئیں کھودے جائیں گے۔نیز یہودی مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیر بھی منصوبے کا حصہ ہے۔

درج بالا حقائق وشواہد کی روشنی میں اسرائیلی حکومت کے ناپاک عزائم سے مکمل طورپر پردہ اٹھ چکا ہے۔ صہیونی ارادے اب کوئی سربستہ راز نہیں رہے۔مسجد اقصیٰ پر قبضہ اور اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا مکروہ منصوبہ، دجالی قوتوں کا وہ خفیہ مشن ہے جس کے تحت خاکم بدھن ”مقامِ معراج نبوت“ کی بنیادوں کو کمزور بناکر اسے گرنے کا جواز فراہم کیا جا چکا ہے۔یقیناً بدی کے پیروکار معرکہ حق وباطل میں ذلت ورسوائی سے دوچار ہوں گے اور خالق کائنات کی ابدی لعنتوں کے مستحق بنیں گے۔بے شک رحمت خداوندی فلسطین کے بے کس مسلمانوں کی داد رسی کرے گی۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا عالم اسلام اسرائیلی دست درازیوں کا ادراک کر پا رہا ہے؟کیا دنیا کی محبت میں گم مسلمان قبلہ اول کے پرسوز نالوں پر کان دھر رہے ہیں ؟کیا مسلم ممالک اور ان کے حکمران ابلیسی ریاست کی ریشہ دوانیوں کے خلاف صف بستہ ہورہے ہیں؟اگر نہیں تو مسلمانان قدس ہماری طر ف سے صد تحسین وتبریک کے مستحق ہیں کہ جن کی جانبازی وسرفروشی طاغوت کے راستے کا سنگ گراں ہے۔جن کی کامیاب جدوجہد اور ٹھوس ردعمل نے مکار یہودیوں کو ارض مقدس پر اپنی رسومات کی ادائیگی اور مسجد اقصیٰ کی تقسیم سے روکا ہوا ہے۔
Yareed Ahmed Nomani
About the Author: Yareed Ahmed Nomani Read More Articles by Yareed Ahmed Nomani: 21 Articles with 32195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.