سخت سردی میں جنگل کے بادشاہ نے بھیڑوں کواکٹھاکرکے ایک
تاریخی خطاب فرمایا۔میرے عزیزہم وطنو۔یخ بستہ ہواؤں نے آپ کے ملک میں ڈیرے
ڈال لئے ہیں ۔میری خواہش ہے کہ میں تمہارے لئے اون کی شالیں بناؤں تاکہ تم
انہیں اوڑھ کراس سخت سردی سے محفوظ رہو۔بادشاہ کایہ اعلان سن کرمجمعے میں
موجودایک بزرگ بھیڑنے سر مشکل سے اوپرکی طرف اٹھاتے ہوئے کہا۔بادشاہ سلامت
اس تاریخی اعلان پرآپ کاشکریہ۔ لیکن یہ بتائیں شال بنانے کے لئے آپ اون
کہاں سے لائیں گے۔۔؟ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔آپ کوتھوڑی سی قربانی
دینی ہوگی۔اس کے ساتھ ہی بادشاہ سلامت نے بھیڑوں سے اون لینے کے لئے اپنی
چادربچھالی۔بھیڑوں کاسچ میں جنگل کے کسی ایسے بادشاہ سے واسطہ
پڑایانہ۔۔؟لیکن اس ملک اورقوم کاپچھلے سترسالوں سے ایسے رحمدل اورعوام
کادرددل رکھنے والے بادشاہوں سے واسطوں پرواسطے ضرورپڑرہے ہیں جواس قوم
کوشالیں بنانے کے لئے وقتاًفوقتاًاپنی چادریں بچھاتے رہتے ہیں۔ہمیں اچھی
طرح یادہے جنگل کے اس بادشاہ کی طرح اس ملک میں بھی ہمارے ایک بادشاہ نے
اقتدارسنبھالنے کے بعدعوام سے اسی طرح کاایک تاریخی خطاب فرماتے ہوئے
کہاتھاکہ ۔عزیزہم وطنو۔آپ کے حالات ٹھیک نہیں ،آپ ترقی سے روزبروزدورہوتے
جارہے ہیں ۔میری خواہش ہے کہ میں آپ اوراس ملک کوایشین ٹائیگربناؤں۔پھرملک
کوایشین ٹائیگربنانے کے لئے اس زمینی بادشاہ نے قرض اتاروملک سنوارومہم
شروع کرکے اپنی چادرعوام کے سامنے بچھالی تھی کہ ملک کوایشین ٹائیگربنانے
کے لئے اب آپ ہی تھوڑاتھوڑاتعاون کردیں۔اس کے بعدتوملک میں چادربچھانے کانہ
ختم ہونے والاایک سلسلہ شروع ہوا۔جنگل کے بادشاہ نے توکہیں ایک بارہی
چادربچھائی ہوگی لیکن یہاں کے بادشاہوں نے تونہ صرف گرم شالیں بنانے کیلئے
بلکہ ہسپتال،سکول،سیلاب،زلزلہ اورڈیم تک ہرشئے کے لئے چادروں پرچادریں
بچھائیں ۔کچھ عرصہ پہلے بھی ایک بادشاہ نے عوام کواکٹھاکرکے کہاکہ دنیامیں
پانی کابڑابحران ہے۔آئندہ نہ صرف جنگیں پانی کے لئے لڑی جائیں گی بلکہ لوگ
پھرایک ایک بوندکوبھی ترسیں گے۔اس لئے میں آپ کے لئے ایک ڈیم بناناچاہتاہوں
۔اس کے لئے آپ کوتھوڑی سی قربانی دینی ہوگی۔پھردنیانے دیکھاکہ ڈیم بنانے کے
لئے بھی اس ملک میں چادربچھی وہ الگ بات کہ اس ڈیم کاآج تک پھر کوئی اتہ
پتہ نہیں چلا۔ہمارے اس موجودہ بادشاہ نے توحدکرکے جنگل کے اس بادشاہ کی بھی
حقیقت میں یادتازہ کردی ہے۔ اس وقت کروناوائرس نے پاکستان سمیت
تقریباً2سوممالک کومتاثرکرکے اکثرممالک میں نظام زندگی بری طرح مفلوج
اورپہیہ تک جام کردیاہے۔لاک ڈاؤن اورکرفیوکے باعث کئی شہروں میں عوام گھروں
تک محدودہوکررہ گئے ہیں۔پاکستان میں بھی پچھلے کئی ہفتوں سے گلی ،محلوں،بازاروں
اورشاہراہوں پرمکمل طورپرہوکاعالم اورہرطرف ایک انجان ساخوف طاری ہے۔روٹی
کی فکرکے ساتھ اب لوگوں کے ماتھوں پرکروناکاخوف دیکھ کربعض نہیں بلکہ
اکثراوقات تو سخت سے سخت اورپتھردل انسان کوبھی ڈرمحسوس ہونے لگتاہے۔باہرکی
دنیاکے لئے تولاک ڈاؤن اورکرفیوکوئی بڑی بات نہیں ہوگی لیکن ایک نوالے
کوپوراکرنے کے لئے ہرروزایک ایک دانہ چننے والے غریبوں کے لئے لاک ڈاؤن
اورکرفیو،،کرونا،،سے کوئی کم یاچھوٹا عذاب نہیں۔ایک وقت کی روٹی کے لئے
دردرکی خاک چھاننے والوں سے ہی کوئی پوچھے کہ،، کرونا،،زیادہ خطرناک ہے
یابھوک وافلاس۔کروناسے کوئی بچے یانا۔۔؟لیکن بھوک وافلاس سے توکوئی زندہ
نہیں بچتا۔ یہ بھوک بھی توانسان کوتڑپاتڑپاکے ماردیتی ہے۔ بھوک
ہوتوپھرانسانیت بھی یادنہیں رہتی۔بھوک ہوپھرنیندبھی تو قریب نہیں آتی۔بھوک
ہوتوپھرماں باپ اوربچے کیاکہ انسان اپنے سائے سے بھی کترانے لگتاہے۔بھوک
ہوتوپھرکروناجیسی وباؤں اورحکمرانوں کی سخت اداؤں سے بھی ڈرنہیں لگتا۔ملک
کی اکثریت جوغرباء پرمشتمل اوراکثرسے بھی زیادہ جوخط غربت سے نیچے زندگی
گزاررہے ہیں اس وقت کروناوائرس کے ساتھ بھوک وافلاس کے کروناسے بھی
دوچارہے۔عوام کی وہ اکثریت جنہیں دووقت کاکھانابھی بڑی تگ ودد،محنت ،جدوجہداورقربانیوں
کے بعدملتاہے۔لاک ڈاؤن کے باعث اس وقت گھروں میں قیداورچاردیواریوں تک
محدودہے۔محنت،مزدوری اورکام کاج نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لئے دوکیا۔۔؟اب
ایک وقت کی روٹی یاایک نوالے کاحصول بھی مشکل اورناممکن ہوگیاہے۔عوام کے اس
حال کی وجہ سے ہی توہمارے بادشاہ یعنی وزیراعظم صاحب کوجنگل کے بادشاہ کی
طرح عوام سے یہ دھواں داراورایک تاریخی خطاب کرناپڑا کہ۔ میرے ہم
وطنو۔کروناوائرس کی وجہ سے کام کاج بنداورآپ گھروں تک محدودہوکررہ گئے
ہیں۔مجھے اندازہ ہے کہ آپ کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں اورآپ مشکل سے
شب وروزگزاررہے ہیں ۔اس لئے میں چاہتاہوں کہ آپ کے گھروں تک راشن
پہنچایاجاسکے۔اس بوڑھے بھیڑکی طرح توکسی نے بادشاہ سلامت سے یہ نہیں
پوچھاکہ بادشاہ سلامت یہ راشن ہمارے گھروں تک کس طرح پہنچے گا۔۔؟لیکن اﷲ
بھلاکرے وزیراعظم صاحب کاانہوں نے تاریخی خطاب کے آخرمیں اکاؤنٹ نمبردے
کرطریقہ خودبتادیاکہ اس کے لئے آپ ہی تھوڑاتھوڑاتعاون کریں گے۔اس ملک میں
کرپٹ اورچورحکمرانوں وسیاستدانوں کے لئے تو وسائل کاکبھی کوئی مسئلہ نہیں
رہا۔حکمرانوں وسیاستدانوں کی عیش وعشرت ہو۔بیرون ممالک علاج ہو۔تفریحی دورے
ہوں۔تنخواہوں اورمراعات میں اضافہ ہو۔ان کی شوگروفلورملزکے لئے سبسڈی
ہو۔تاج محلوں میں طوطوں کے لئے پنجرے بنانے ہوں یاپھران کے گھوڑوں اورگدھوں
کومربے کھلانے ہوں ۔اس کے لئے توانہوں نے نہ کبھی کوئی چادربچھائی اورنہ ہی
کسی اکاؤنٹ کاکبھی کوئی ذکرکیالیکن بات جب بھی غریبوں کی آتی ہے تو یہ جنگل
کے بادشاہ کی طرح عوام کے ہی اون سے ان کے لئے شالیں بنانے کے لئے،،اﷲ کے
نام پردوبابا،،کی صدائیں بلندکرکے چادربچھاناشروع کردیتے ہیں۔حقیقت میں
تویہ کروناسے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔آج ان حالات میں عوام سے چندہ مانگنے کی
بجائے چاہئیے تویہ تھاکہ حکمران اورسیاستدان جو71سالوں سے اس ملک اورقوم
کولوٹتے آئے ہیں وہ آج ان مجبوراورغریب عوام کواپنے اکاؤنٹ نمبردیتے کہ
مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے اکاؤنٹ اورخزانوں سے جتنافائدہ اٹھاسکتے
ہواٹھالولیکن افسوس یہ ظالم آج بھی عوام کے پیسوں سے ہی عوام کے لئے شالیں
بنانے کے چکرمیں پڑے ہوئے ہیں ۔بھیڑکے اون سے بھیڑکے لئے شال بناناکوئی بڑی
بات نہیں۔کمال یہ ہے کہ اپنی چادربھیڑپرڈال دی جائے۔ہمارے حکمرانوں نے اس
ملک اورقوم کے ساتھ مذاق بہت کیا۔آج مذاق کاوقت نہیں ۔قوم اس وقت مشکل
دورسے گزررہی ہے۔کروناوائرس بھلے حکمرانوں کے لئے مانگنے کاایک ذریعہ
اوروسیلہ ہولیکن یہ اس غریب قوم کے لئے کسی بڑے عذاب اورامتحان سے ہرگزکم
نہیں ۔کروناکی وجہ سے پوراملک بنداورکاروبارتباہ ہوچکے۔لوگوں کے پاس کھانے
کے لئے بھی کچھ نہیں ۔باہراگرکروناکی صورت میں موت تاک لگائے بیٹھی ہے
توغریب کی جھونپڑیوں کے اندربھی موت بھوک وافلاس کی شکل میں غریبوں کے سروں
پرہروقت تلوارکی طرح لٹک رہی ہے۔اﷲ کسی دشمن پربھی ایساوقت کبھی نہ
لائے۔حکمران سترسال سے اس ملک میں چادروں پرچادریں بچھارہے ہیں ۔یہ چندے
وندے بعدمیں بھی جمع ہوجائیں گے۔اس مشکل صورت حال میں حکمرانوں کواپنے
گھراورخزانوں کے منہ کھول کرآگے بڑھناچاہیئے۔سترسال سے ملک کودیمک کی طرح
کاٹنے اورچاٹنے والوں نے قیامت کی اس گھڑی میں اگرقوم کی مددنہیں کی تویہ
پھرکب غریبوں کے کام آئیں گے۔اس لئے کسی امداداورفنڈکے لئے غریبوں کی خالی
جیبوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کو اپنی طرف سے
کچھ کرناچاہیئے۔سترسال سے انہوں نے غریبوں کولوٹا۔اب اگرایک باریہ اسی لوٹ
مارمیں سے غریبوں پرکچھ خرچ کردیں تواس سے کونسی قیامت آجائے گی۔۔؟
|