عابدہ حسین،ساہیوال
آغاز کائنات سے لے کر اب تک انسان بے شمار وباؤں کا شکار ہوتا آرہا ہے۔
تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بے شمار وبائیں پھوٹیں
اور ہر دفعہ بہت سے لوگ لقمہ اجل بنے۔ طاعون،گردن توڑ بخار،ہسپانوی نزلہ،ٹی
بی کا مرض،کینسر،ایڈز وغیرہ ماضی میں پھیلنے والی دس ہولناک ترین وباؤں نے
دنیا کا نظام تہس نہس کر دیا۔ نیند کی وباء سے دنیا بھر میں مجموعی طور پر
15 لاکھ ہلاکتیں ہوئیں۔ 1915 سے 1926تک پھیلنے والی وباء کاباعث ایک جرثومہ
تھا جو دماغ کے اندر جاکر حملہ کرتا اور اس بیماری کوگردن توڑ بخار کی شکل
سمجھا گیا۔
1957 سے 1958 کے دوران چین میں ایک فلو پھیلا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری
دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ یہ وائرس بطخوں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اس
وباء سے 20 لاکھ کے قریب لوگ مارے گئے۔جس میں صرف امریکہ میں 70 ہزار
ہلاکتیں ہوئیں۔ اسطرح طاعون کی بیماری بھی وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی 1772
میں ایران میں ایک ہیبت ناک وباء ایرانی طاعون پھوٹ پڑی اس وباء نے بھی
لاکھوں لوگوں کی جانیں نگل لیں۔ اس زمانے میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا۔
1930 میں میکسکو میں پھیلنے والی کوکولز تلی کی مہلک وباء نے ڈھائی کروڑ
افراد کی جانیں لیں۔ 1576 میں سپین میں بھی اسی کوکولز تلی وباء نے کئی
افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ انتونین کی وباء سے دنیا بھر میں 50 لاکھ
سے ایک کروڑ تک ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ دہشت ناک مرض اس وقت پھیلا جب رومی سلطنت
عروج پرتھی 165 عیسویں سے 180تک جاری رہنے والی اس وباء نے یورپ کے بڑے حصے
کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ 541 تا 542 میں جسٹین طاعون نامی وباء نے
تہلکہ مچا دیا اور پھر سے ڈھائی کروڑ افراد کو زندگی سے محرم کر دیا۔ ایڈز
جدید دورکی ایک نئی بیماری ہے جس کا وائرس مغربی افریقہ میں چمپینزیوں سے
انسان میں منتقل ہوا اور اس بیماری نے افریقہ کو متاثر کیا۔ آج ہم کرونا
وائرس نامی وباء کا شکار ہو چکے ہیں جس کو ہسپانوی فلو کی سی حیثیت حاصل ہے۔
ہسپانوی فلو کی وباء 100 سال پہلے 1918 سے 1920 تک پھیلی رہی اسوقت دنیا
ابھی پہلی جنگ عظیم کی تباہی کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی اس وقت دنیا کی
آبادی پونے دو ارب تھی ہسپانوی فلو نے تقریباً ہر چوتھے فرد کو متاثر کیا۔
اس وباء سے 10 کروڑ ہلاکتیں ہوئیں یہ وباء ہو بہو کرونا کی طرح زیادہ تر
بچوں اور بوڑھوں کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ اس بیماری سے متاثرہ افراد کی
سیکنڈری بیماری نمونیا تھی۔ جب کہ کرونا کی سیکنڈری بیماری بھی نمونیا ہے
جو سانس سے اور چھونے سے پھیلتی ہے 1918 H1N1 فلو کو ہسپانوی فلو کا نام
دیا گیا۔ ہسپانوی فلو سے متاثرہ افراد دو دن سے زیادہ دیرزندہ نہیں رہ سکتے
تھے۔ اس بیماری نےrespiratory system کو تباہ کر کے پھیپڑوں کو متاثر کیا۔
اس وباء سے اس قدر لوگ ہلاک ہوئے کہ کفن کے لیے کمبل کا استعمال کیا گیا
اور میت کو قبروں تک پہنچانے کے لیے گھروں کے دروازوں کا استعمال کیا گیا۔
اس ہولناک وباء کی وجہ سے عرب میں اس سال کو ’’بخار کا سال‘‘ کہا گیا۔ اس
کے بعد زیادہ اموات والے علاقہے میں ایک گاؤں Alaska کے ایک طرف پہاڑیوں پر
کراس کے نشان لگا کر وہاں مرنے والوں کی لاشوں کو دفنانے کی نشاندی کی گئی
اور ان پہاڑیوں پر مردوں کی preservation کی غرض frost کیا گیا۔ 1951
میں اس 1918 کے فلو کی وجوہات اور علاج کی غرض سے Johan hultin ایک 25 سالہ
Swedish مائیکرو بیالو جسٹ اور P.H.D سٹوڈنٹ یونیورسٹی آف Lowa نے Brevig
mission شروع کیا جس کا مقصد 1918 کے فلو کی وجوہات کو جاننا اور علاج
دریافت کر نا تھا۔یہ مشن 5 دن پر محیط تھا۔ دو دن بعد hultin نے ایک نیلے
رنگ کے لباس میں موجود بچی اور کئی دوسری preserved bodies کے Lungs tissue
حاصل کئے اور ان ٹشوز کو مرغی کے انڈوں میں inject کیا اور دوبارہ سے اس
جرثومہ کو بڑھانے یعنی زندہ کرنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکام ہو گیا اس
جرثومہ نے چوہے کہ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کیا جیسے کے انسان کو۔۔
مگر اس وباء کی کو ئی اینٹی بائیو ٹک دریافت نہ ہو سکی۔ کرونا کی طرح اس سے
بچنے کا ایک ہی علاج تھا قرنطینیہ اور منہ کو ڈھا نپ کر رکھنا یعنی ماسک کا
استعمال اور چھونے سے پر ہیز۔۔۔کرونا Covid19 اور فلو H1N1 ایک ہی قسم کی
وباء کے دو نام ہیں۔ مگر دونوں کے علاج دریافت نہیں ہو سکے۔ ان وباؤں نے
سائنس کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ
مستقبل قریب میں 2030 تک اس سے ملتی جلتی وباء کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مگر ان کی بنیادی وجہ بیکٹریا اور پھیلنے والے جرثومے ہیں جو ایک جسم سے
دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں
کرونا وائرس نے آج پھر انہی سوالات کو جنم دیا ہے جو 1918 میں پوچھے گیے
تھے۔
1:یہ وائرسز اتنے خوفناک کیوں ہوتے ہیں؟۔
2:اور ان کا آغاز کس طرح ہوتا ہے؟
3: اور ان وائرسز سے public health نے کیا سیکھا۔
4: اور ان کا اختتام کب ہوگا؟
کیا کبھی ان کی اینٹی بائیوٹک دریافت ہو سکے گی؟؟؟
یہ سوالات یقینا مائیکرو بیالو جسٹ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں
اور پبلک کو ایک ہی سبق دیتے ہیں کہ دوسروں سے الگ رہ کے ہی ان پر قابو
پایا جا سکتا ہے۔
|