مطلب خود نکالیں۔۔۔! چیمپیئن دُنبہ بمقابلہ دُنے کا بچہ
(محمد اعظم عظیم اعظم, کراچی)
مطلب خود نکالیں ....!! چیمپیئن دُنبہ بمقابلہ دُنبے کا بچہمحمداعظم عظیم اعظم [email protected] آج کہنے کو بہت کچھ ہے مگرجو کچھ بھی کہنا اور سمجھنا چاہوں گا؛ اِنتہائی اختصار کے ساتھ بیان کروں گا،آپ سب سے التماس ہے کہ میرے لکھے کا سیاسی ، اخلاقی اور سماجی پہلواور مطلب خودنکالیں گے۔داناکہتے ہیں اگرکہ موجودہ دنیا میں دعاو¿ں ، بد عاو¿ں ، نعرے اور نعروں کا مقابلہ کیا جاتا اور اگراِن سب کی کوئی قیمت ہوتی تو یقینی طور پر سب سے زیادہ ہم دولت مند ہوتے۔ کیوں کہ دعائیں ، بددعائیں اور نعرے اور نعروں کی ایجادات میں ہماری پاکستانی قوم درجہ بدرجہ خود کفیل ہے۔ اِس لئے دنیا کا کوئی ملک اور کوئی بھی قوم ہمارا اِن حوالوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔نعرے ہم خود مناتے ہیں؛ اور خود ہی لگاتے ہیں ۔دعاو¿ں اور بددعاو¿ں کا معاملہ بھی کچھ اِس سے مختلف نہیں ہے۔ غرض یہ کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج ہمارا سیاسی، اخلاقی اور سماجی ڈھانچہ دعاو¿ں ، بددعاو¿ں اورنعرے اور نعروں پرہی قائم ہے۔ ہم 72سال میں سِوائے دُعائیں اور بددعائیں دینے ، لینے اور طرح طرح کے نعرے بنانے اور نعرے لگانے کے کوئی کام نہیں کرسکے ہیں؛ یا یوں کہہ لیں کہ ہم اِس کے علاوہ کچھ کرہی نہیں سکتے ہیں ۔تب ہی ہم ترقی نہیں کرسکے ہیں ۔اگر کسی کو اِس سے اختلاف ہے ۔تو وہ اپنی لب کُشائی کرنے کی بجائے؛ قوم کو اِسی حال پر رہنے دے ۔ابھی تک جس پر چل کر یہ خوش ہے ۔اگر کسی نے اِسے اِس گرداب سے نکالنا چاہا توقوم اِس کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑے گی یعنی کہ قوم کو سیدھی راہ دِکھانے والے کی خیرنہیں ہوگی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میری قوم کا ایک بہت بڑا طبقہ عقل اور آنکھ پر پٹی باندھے کسی نہ کسی سے متاثر ہے۔یہ طبقہ برسوں سے بھیڑچال چل رہا ہے جیسا کوئی اِسے جِدھر کو ہانک دیتا ہے؛ یہ اُدھر کو اپنا نقصان کی پرواہ کئے بغیر چل پڑتا ہے۔ جس کی وجہ قوم میں اخلاقی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے اچھائیوں کی نسبت برائیاں زیادہ پیداہوگئی ہیں۔پچھلے زمانے کی بات ہے کہ ایک صاحب کو دُنبہ لڑانے کا بہت شوق تھا۔ اپنے اِس شوق کی تکمیل کے خاطر ایک اعلیٰ نسل کا دُنبہ خرید لائے، جس کی خوب خدمت کرتے ، اپنی ذات سے زیادہ دُبنے کی خوراک اور صفائی سُتھرائی کا خیال رکھتے ، اِسے میدان میں اُترنے سے لے کر مقابلے کے تمام حربے اور گُر سیکھاتے رہے ۔حتی کہ ایک وقت گزرنے کے بعد جب مطمئن ہو گئے کہ اِن کا دُنبہ مکمل طور پر صحت مند اور وزن میں پوراہوگیاہے؛ اور لڑائی کے سارے حربے سیکھ چکا ہے؛ تو اِن صاحب نے بھی اپنے دُبنے کو ضلعی سطح سے شہر اور پھر ملک گیر ہونے والے دُبنے کی لڑائی کے مقابلوں کے لئے پیش کردیا ۔کچھ ہی مقابلوں میں شرکت کے بعد اِن کے دُبنے کی فتح و کامرانی اور کامیابیوں اور اِن کی بھی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے۔اَب تو جہاں کہیں بھی دُنبے کی لڑائی کا کوئی مقابلہ ہوتا؛ یہ دونوں اِس میں سرفہرست اور نمایاں ہوتے ۔یوں جہاں اِن کی شرکت یقینی ہوتی تو وہیں ۔جیت کے سوفیصد امکانات بھی یقینی ہوتے ،نہ صرف ریاست میں بلکہ پڑوسی ریاستوں میں بھی دونوں کی خُوب شہرت ہوگئی تھی ۔اِس طرح کئی سالوں تک اِن صاحب کے دُنبے نے اپنی کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے ۔جس سے دُنبے کے ملک میں غرور اور تکبر پیدا ہوگیا۔اِس نے یہ سمجھا کہ اَب اِس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اِن کے دُبنے کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتاہے۔ اِسی وجہ سے ایک بھرے مقابلے کے بعد اِن صاحب نے اپنی گردن تان کر او رسینہ پھولا کر باآواز بلند مجمع کو للکار دیا کہ ہے کسی کے پاس ایسا دُنبہ ہے جو میرے دُنبے کا مقابلہ کرے ۔ کوئی ہے جو میرے دُبنے کو ہرائے: تو میں اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے جتنے والے دُنبے اور اِس کے مالک کو اپنی جانب سے انعامات کے خزانے دے دوں گا؛ ابھی اِن کا یہ اعلان ختم ہی ہوا تھا کہ بھر ے مجمع میں سے ایک آدمی اُٹھا اور اِس نے آگے بڑھ کر آواز سے کہا کہ ” ہاں میرا دُنبے کا بچہ جو ابھی کچھ ہی سال کا ہے۔ اور رنگ بھی میرا دُنبے کابچہ کالا ہے۔ اور تمہارے دُنبے کے مقابلے میں وزن میں بھی بہت کم (یہی کوئی 14یا 15کلو کا )ہے۔ اِس کے پاس میدان میں لڑائی کا تجربہ بھی کچھ نہیںہے۔ آج میں تمہارے دُنبے سے اپنے دُنبے کے بچے کی میدان میں لڑائی اور مقابلے کی تاریخ کا اعلان کرتا ہوں ۔ اِس آدمی کے اعلان پر پہلے تو فاتح دُنبے کا مالک بہت حیران ہو۔ا پھر مذاق سے بولا کیوں اپنے دُنبے کے بچے کی جان کے در پر ہو؟لالچی آدمی کیوں اِس سے کس دُشمنی کا بدلہ لے رہے ہو؟ کہاں میرا ڈھائی من کا دُنبہ اور کہاں تمہار ا یہ پندرہ کلو کے وزن والا دُنبے کا بچہ ؟ اگرپھر بھی واقعی تم یہی چاہتے ہو تو پھر مجھے کیا اعتراض ہے۔ مجھے تمہاری دعوت اور چیلنج قبول ہے۔ دن تاریخ ،وقت اور مقابلے کا مقام طے کیا گیاجس کے بعد اگلے مقابلے کی تاریخ اور مقام تک مجمع چھٹ گیا ۔بہر حال،آخر کار مقابلے کی تاریخ آگئی۔ مقابلے کے لئے میدان سج گیا ۔ اِس اَنوکھے مقابلے کو دیکھنے اور اِس سے لفت اندوز ہونے کے لئے لاکھوں کا مجمع تھا۔میدان بھی کھچاکھچ بھراہوا تھا ،دونوں ہی جانب سے بلا کی گرم جوشی تھی ، ہر طرف شوربرپا تھا۔ ایسے میں ایک جانب میدان میں دُنبے کی لڑائیوں کے مقابلوں کے حوالوں سے کئی ریکارڈیافتہ( دودھ جیسا سفیدڈھائی من کا)دُنبہ اور اِس کا مالک تھا ۔تو دوسری ہی جانب کالے رنگ کا یہی کوئی 14یا15کلوکے وزن( والا پورا دُنبہ بھی نہیں بل کہ) دُنبے کا بچہ اور اِس کا مالک تھا۔کچھ ہی دیر میں مقابلے کے تمام ضروری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ،باقاعدہ طور پر مقابلے کے لئے اعلان ہوا اور پھر یکا یک مقابلے کے ریفری نے مقابلے کی سیٹی بجائی ۔ یوں مقابلہ شروع ہوگیا ۔اِس دوران میدان میں اِنسانی آنکھوں نے دیکھا کہ” بڑا اور چھوٹا دُنبہ اپنی اپنی جانب سے دوڑتے ہوئے مقابلے کے نشان تک پہنچتے ہیں۔ مگریہ کیا ؟کہ بڑاچییمپئن دُنبہ چھوٹے دُنبے کو دیکھتے ہی دوبارہ تیزی سے بھاگ کر واپسی کی راہ لے لیتا ہے ۔جہاں سے دوڑا ہواآیا تھا وہیں جا کر رک جاتا ہے۔ جب کہ چھوٹا دُنبہ مقابلے کے لئے اپنے مرکز یعنی کے میدان کے سینٹرل میں ہی جماہواکھڑارہتاہے۔ پہلی مرتبہ ایساہوتا ہوادیکھ کر لوگ محضوظ ضرور ہوئے ۔مگر سب ہی اِس عمل کو کوئی فنی کمی ، خرابی یا غلطی جان کر رد کردیاگئے۔ مگر جب یکے بعد دیگرے دوسے تین مرتبہ بڑے اور چھوٹے دُنبے اپنی اپنی پوزیشن سے مقابلے کے مرکزی پوائنٹ اور نقطے کی جانب دوڑے اور ہر مرتبہ ہی ایسا ہوا کہ بڑادُنبہ چھوٹے دُنبہ سے بھڑے (گتم گُتا)ہوئے بغیر واپس اپنی پوزیشن کو پلٹ گیا توآخر کار مقابلے کے ججز اور ریفری نے فتح اور جیت کا فیصلہ کالے اور چھوٹے دُنبے کے حق میں دے دیا ۔کیوں کہ ہر مرتبہ چھوٹا دُنبہ اپنی پوزیش سے دوڑنے کے بعد مقابلے کے مقام سے پیچھے نہیں پلٹاتھا ۔بل کہ مقابلے کے لئے اپنی پوزیشن پر کھڑارہاتھا یہ منظر بھی چشم فلک اور اِنسانی آنکھوں نے دیکھا کہ ایک کمزور اور کالے رنگ کے ناتجربہ کار دُنبے کے ہاتھوں کئی حوالوں سے ریکارڈ یافتہ سفید اور کالے اور توانا چیمپیئن دُنبے کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔پوری ریاست میں دھوم مچ گئی تھی کہ آج ایک کمزور اور ناتجربہ کار دُنبے کے بچے کے ہاتھوں اپنے زمانے کے مایہ ناز اور چمپیئن دُنبہ ایک دُنبہ کے بچے سے ہار گیاہے ۔کچھ عرصے کے بعد جب یہ واقع اور بات ذراپرانی ہوئی تو کسی دانا نے دُنبہ بچے کے مالک سے چیمپیئن دُنبے کی ہار کی وجہ پوچھی تو اِس نے بتایا کہ غروراور تکبر اِنسان کو ذلیل اور خوار کردیتے ہیں۔ میرے دُنبے کی جیت کی وجہ یہ تھی کہ جب سے میں نے مقابلے کا اعلان کیاتھا۔ اِس دن کے بعد سے میں نے اپنے دُنبے کو سِوائے مقابلے کے مقام تک دوڑ کرجانے والا عمل سیکھایاتھا جب کہ جو کام مجھے کرنا تھا وہ یہ تھا کہ میں روزانہ ایسے شیر کی کچھاڑسے لائی مٹی کے پانی سے نہلانے کے اور کچھ نہیں کرتاتھا جس کے لئے میں شیر کی کچھاڑ سے مٹی لاتا اور اِسے رات میں بالٹی میں بھیگا دیتا اور اگلے روز اِس پانی سے اپنے دُنبے کے بچے کو نہلادیتا رہا حتی کہ یہ سلسلہ مقابلے کے دن تک جاری رہا۔یوں میرادُنبے کا بچہ مقابلہ جیت گیااور انعامات کا حقدار ٹھیرایاگیا۔دانا کہتے ہیں کہ جہاں کسی بھی کام کے لئے گرم جوشی سے قدم بڑھایا جائے تووہیںذراسی سے حکمت سے یا حکمت والوں سے بھی کام لے کرمشکل کو آسان بنایا جاسکتاہے اگر اپنے پاس حکمت نہ بھی ہو؛تو حکمت والوں سے بھی مدد لے جاسکتی ہے۔اُن کی صعبت میں رہ کر بہت کچھ کیا جاسکتاہے۔ جیساکہ26جولائی 2018کے بعد سے ہمارے یہاں بھی آج کل........کچھ ایسا ہی ہورہاہے۔ بہت سوں کے پاس سے شیر کی کچھاڑ کے پانی سے غسل کی بوآرہی ہے اور سامنے والوں پر انجانہ ساخوف طاری ہے۔ محمداعظم عظیم اعظم [email protected] |
|
مطلب خود نکالیں ....!! چیمپیئن دُنبہ بمقابلہ دُنبے کا بچہمحمداعظم عظیم اعظم [email protected] آج کہنے کو بہت کچھ ہے مگرجو کچھ بھی کہنا اور سمجھنا چاہوں گا؛ اِنتہائی اختصار کے ساتھ بیان کروں گا،آپ سب سے التماس ہے کہ میرے لکھے کا سیاسی ، اخلاقی اور سماجی پہلواور مطلب خودنکالیں گے۔داناکہتے ہیں اگرکہ موجودہ دنیا میں دعاو¿ں ، بد عاو¿ں ، نعرے اور نعروں کا مقابلہ کیا جاتا اور اگراِن سب کی کوئی قیمت ہوتی تو یقینی طور پر سب سے زیادہ ہم دولت مند ہوتے۔ کیوں کہ دعائیں ، بددعائیں اور نعرے اور نعروں کی ایجادات میں ہماری پاکستانی قوم درجہ بدرجہ خود کفیل ہے۔ اِس لئے دنیا کا کوئی ملک اور کوئی بھی قوم ہمارا اِن حوالوں سے مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔نعرے ہم خود مناتے ہیں؛ اور خود ہی لگاتے ہیں ۔دعاو¿ں اور بددعاو¿ں کا معاملہ بھی کچھ اِس سے مختلف نہیں ہے۔ غرض یہ کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے آج ہمارا سیاسی، اخلاقی اور سماجی ڈھانچہ دعاو¿ں ، بددعاو¿ں اورنعرے اور نعروں پرہی قائم ہے۔ ہم 72سال میں سِوائے دُعائیں اور بددعائیں دینے ، لینے اور طرح طرح کے نعرے بنانے اور نعرے لگانے کے کوئی کام نہیں کرسکے ہیں؛ یا یوں کہہ لیں کہ ہم اِس کے علاوہ کچھ کرہی نہیں سکتے ہیں ۔تب ہی ہم ترقی نہیں کرسکے ہیں ۔اگر کسی کو اِس سے اختلاف ہے ۔تو وہ اپنی لب کُشائی کرنے کی بجائے؛ قوم کو اِسی حال پر رہنے دے ۔ابھی تک جس پر چل کر یہ خوش ہے ۔اگر کسی نے اِسے اِس گرداب سے نکالنا چاہا توقوم اِس کا قبر تک پیچھا نہیں چھوڑے گی یعنی کہ قوم کو سیدھی راہ دِکھانے والے کی خیرنہیں ہوگی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میری قوم کا ایک بہت بڑا طبقہ عقل اور آنکھ پر پٹی باندھے کسی نہ کسی سے متاثر ہے۔یہ طبقہ برسوں سے بھیڑچال چل رہا ہے جیسا کوئی اِسے جِدھر کو ہانک دیتا ہے؛ یہ اُدھر کو اپنا نقصان کی پرواہ کئے بغیر چل پڑتا ہے۔ جس کی وجہ قوم میں اخلاقی، سماجی اور سیاسی اعتبار سے اچھائیوں کی نسبت برائیاں زیادہ پیداہوگئی ہیں۔پچھلے زمانے کی بات ہے کہ ایک صاحب کو دُنبہ لڑانے کا بہت شوق تھا۔ اپنے اِس شوق کی تکمیل کے خاطر ایک اعلیٰ نسل کا دُنبہ خرید لائے، جس کی خوب خدمت کرتے ، اپنی ذات سے زیادہ دُبنے کی خوراک اور صفائی سُتھرائی کا خیال رکھتے ، اِسے میدان میں اُترنے سے لے کر مقابلے کے تمام حربے اور گُر سیکھاتے رہے ۔حتی کہ ایک وقت گزرنے کے بعد جب مطمئن ہو گئے کہ اِن کا دُنبہ مکمل طور پر صحت مند اور وزن میں پوراہوگیاہے؛ اور لڑائی کے سارے حربے سیکھ چکا ہے؛ تو اِن صاحب نے بھی اپنے دُبنے کو ضلعی سطح سے شہر اور پھر ملک گیر ہونے والے دُبنے کی لڑائی کے مقابلوں کے لئے پیش کردیا ۔کچھ ہی مقابلوں میں شرکت کے بعد اِن کے دُبنے کی فتح و کامرانی اور کامیابیوں اور اِن کی بھی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے۔اَب تو جہاں کہیں بھی دُنبے کی لڑائی کا کوئی مقابلہ ہوتا؛ یہ دونوں اِس میں سرفہرست اور نمایاں ہوتے ۔یوں جہاں اِن کی شرکت یقینی ہوتی تو وہیں ۔جیت کے سوفیصد امکانات بھی یقینی ہوتے ،نہ صرف ریاست میں بلکہ پڑوسی ریاستوں میں بھی دونوں کی خُوب شہرت ہوگئی تھی ۔اِس طرح کئی سالوں تک اِن صاحب کے دُنبے نے اپنی کامیابی کے ریکارڈ قائم کئے ۔جس سے دُنبے کے ملک میں غرور اور تکبر پیدا ہوگیا۔اِس نے یہ سمجھا کہ اَب اِس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اِن کے دُبنے کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتاہے۔ اِسی وجہ سے ایک بھرے مقابلے کے بعد اِن صاحب نے اپنی گردن تان کر او رسینہ پھولا کر باآواز بلند مجمع کو للکار دیا کہ ہے کسی کے پاس ایسا دُنبہ ہے جو میرے دُنبے کا مقابلہ کرے ۔ کوئی ہے جو میرے دُبنے کو ہرائے: تو میں اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے جتنے والے دُنبے اور اِس کے مالک کو اپنی جانب سے انعامات کے خزانے دے دوں گا؛ ابھی اِن کا یہ اعلان ختم ہی ہوا تھا کہ بھر ے مجمع میں سے ایک آدمی اُٹھا اور اِس نے آگے بڑھ کر آواز سے کہا کہ ” ہاں میرا دُنبے کا بچہ جو ابھی کچھ ہی سال کا ہے۔ اور رنگ بھی میرا دُنبے کابچہ کالا ہے۔ اور تمہارے دُنبے کے مقابلے میں وزن میں بھی بہت کم (یہی کوئی 14یا 15کلو کا )ہے۔ اِس کے پاس میدان میں لڑائی کا تجربہ بھی کچھ نہیںہے۔ آج میں تمہارے دُنبے سے اپنے دُنبے کے بچے کی میدان میں لڑائی اور مقابلے کی تاریخ کا اعلان کرتا ہوں ۔ اِس آدمی کے اعلان پر پہلے تو فاتح دُنبے کا مالک بہت حیران ہو۔ا پھر مذاق سے بولا کیوں اپنے دُنبے کے بچے کی جان کے در پر ہو؟لالچی آدمی کیوں اِس سے کس دُشمنی کا بدلہ لے رہے ہو؟ کہاں میرا ڈھائی من کا دُنبہ اور کہاں تمہار ا یہ پندرہ کلو کے وزن والا دُنبے کا بچہ ؟ اگرپھر بھی واقعی تم یہی چاہتے ہو تو پھر مجھے کیا اعتراض ہے۔ مجھے تمہاری دعوت اور چیلنج قبول ہے۔ دن تاریخ ،وقت اور مقابلے کا مقام طے کیا گیاجس کے بعد اگلے مقابلے کی تاریخ اور مقام تک مجمع چھٹ گیا ۔بہر حال،آخر کار مقابلے کی تاریخ آگئی۔ مقابلے کے لئے میدان سج گیا ۔ اِس اَنوکھے مقابلے کو دیکھنے اور اِس سے لفت اندوز ہونے کے لئے لاکھوں کا مجمع تھا۔میدان بھی کھچاکھچ بھراہوا تھا ،دونوں ہی جانب سے بلا کی گرم جوشی تھی ، ہر طرف شوربرپا تھا۔ ایسے میں ایک جانب میدان میں دُنبے کی لڑائیوں کے مقابلوں کے حوالوں سے کئی ریکارڈیافتہ( دودھ جیسا سفیدڈھائی من کا)دُنبہ اور اِس کا مالک تھا ۔تو دوسری ہی جانب کالے رنگ کا یہی کوئی 14یا15کلوکے وزن( والا پورا دُنبہ بھی نہیں بل کہ) دُنبے کا بچہ اور اِس کا مالک تھا۔کچھ ہی دیر میں مقابلے کے تمام ضروری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ،باقاعدہ طور پر مقابلے کے لئے اعلان ہوا اور پھر یکا یک مقابلے کے ریفری نے مقابلے کی سیٹی بجائی ۔ یوں مقابلہ شروع ہوگیا ۔اِس دوران میدان میں اِنسانی آنکھوں نے دیکھا کہ” بڑا اور چھوٹا دُنبہ اپنی اپنی جانب سے دوڑتے ہوئے مقابلے کے نشان تک پہنچتے ہیں۔ مگریہ کیا ؟کہ بڑاچییمپئن دُنبہ چھوٹے دُنبے کو دیکھتے ہی دوبارہ تیزی سے بھاگ کر واپسی کی راہ لے لیتا ہے ۔جہاں سے دوڑا ہواآیا تھا وہیں جا کر رک جاتا ہے۔ جب کہ چھوٹا دُنبہ مقابلے کے لئے اپنے مرکز یعنی کے میدان کے سینٹرل میں ہی جماہواکھڑارہتاہے۔ پہلی مرتبہ ایساہوتا ہوادیکھ کر لوگ محضوظ ضرور ہوئے ۔مگر سب ہی اِس عمل کو کوئی فنی کمی ، خرابی یا غلطی جان کر رد کردیاگئے۔ مگر جب یکے بعد دیگرے دوسے تین مرتبہ بڑے اور چھوٹے دُنبے اپنی اپنی پوزیشن سے مقابلے کے مرکزی پوائنٹ اور نقطے کی جانب دوڑے اور ہر مرتبہ ہی ایسا ہوا کہ بڑادُنبہ چھوٹے دُنبہ سے بھڑے (گتم گُتا)ہوئے بغیر واپس اپنی پوزیشن کو پلٹ گیا توآخر کار مقابلے کے ججز اور ریفری نے فتح اور جیت کا فیصلہ کالے اور چھوٹے دُنبے کے حق میں دے دیا ۔کیوں کہ ہر مرتبہ چھوٹا دُنبہ اپنی پوزیش سے دوڑنے کے بعد مقابلے کے مقام سے پیچھے نہیں پلٹاتھا ۔بل کہ مقابلے کے لئے اپنی پوزیشن پر کھڑارہاتھا یہ منظر بھی چشم فلک اور اِنسانی آنکھوں نے دیکھا کہ ایک کمزور اور کالے رنگ کے ناتجربہ کار دُنبے کے ہاتھوں کئی حوالوں سے ریکارڈ یافتہ سفید اور کالے اور توانا چیمپیئن دُنبے کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔پوری ریاست میں دھوم مچ گئی تھی کہ آج ایک کمزور اور ناتجربہ کار دُنبے کے بچے کے ہاتھوں اپنے زمانے کے مایہ ناز اور چمپیئن دُنبہ ایک دُنبہ کے بچے سے ہار گیاہے ۔کچھ عرصے کے بعد جب یہ واقع اور بات ذراپرانی ہوئی تو کسی دانا نے دُنبہ بچے کے مالک سے چیمپیئن دُنبے کی ہار کی وجہ پوچھی تو اِس نے بتایا کہ غروراور تکبر اِنسان کو ذلیل اور خوار کردیتے ہیں۔ میرے دُنبے کی جیت کی وجہ یہ تھی کہ جب سے میں نے مقابلے کا اعلان کیاتھا۔ اِس دن کے بعد سے میں نے اپنے دُنبے کو سِوائے مقابلے کے مقام تک دوڑ کرجانے والا عمل سیکھایاتھا جب کہ جو کام مجھے کرنا تھا وہ یہ تھا کہ میں روزانہ ایسے شیر کی کچھاڑسے لائی مٹی کے پانی سے نہلانے کے اور کچھ نہیں کرتاتھا جس کے لئے میں شیر کی کچھاڑ سے مٹی لاتا اور اِسے رات میں بالٹی میں بھیگا دیتا اور اگلے روز اِس پانی سے اپنے دُنبے کے بچے کو نہلادیتا رہا حتی کہ یہ سلسلہ مقابلے کے دن تک جاری رہا۔یوں میرادُنبے کا بچہ مقابلہ جیت گیااور انعامات کا حقدار ٹھیرایاگیا۔دانا کہتے ہیں کہ جہاں کسی بھی کام کے لئے گرم جوشی سے قدم بڑھایا جائے تووہیںذراسی سے حکمت سے یا حکمت والوں سے بھی کام لے کرمشکل کو آسان بنایا جاسکتاہے اگر اپنے پاس حکمت نہ بھی ہو؛تو حکمت والوں سے بھی مدد لے جاسکتی ہے۔اُن کی صعبت میں رہ کر بہت کچھ کیا جاسکتاہے۔ جیساکہ26جولائی 2018کے بعد سے ہمارے یہاں بھی آج کل........کچھ ایسا ہی ہورہاہے۔ بہت سوں کے پاس سے شیر کی کچھاڑ کے پانی سے غسل کی بوآرہی ہے اور سامنے والوں پر انجانہ ساخوف طاری ہے۔ محمداعظم عظیم اعظم [email protected] |