جنرل ضیاءالحق کا ساتھ دینے پر
اور ان کی کابینہ میں وزیر بننے پر مخدوم جاوید ہاشمی نے قوم سے معافی
مانگی ہے اور کہا ہے کہ جنہوں نے بھی آمریت کا ساتھ دیا ہے وہ قوم سے معافی
مانگیں مخدوم جاوید ہاشمی کا میں ان دنوں سے فین ہوں اور عزت کرتا ہوں جب
پاکستان مسلم لیگ کی قیادت جدہ روانہ ہوگئی تھی اور کچھ لیڈروں نے ویسے ہی
آنکھیں پھیر لیں تھیں وہ جاوید ہاشمی ہی تھے جنہوں نے آمریت کے بدترین دور
میں مسلم لیگ کو زندہ رکھا اور چلائے رکھا جس کی وجہ سے انہیں قید وبند کی
صعوبتیں بھی سہنا پڑیں ویسے بھی ہاشمی صاحب کے بیانات اور باتیں عوامی
جذبوں کی عکاس اور ترجمان ہوتی ہیں لیکن ان کے اس معافی والے بیان پر میں
سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کونسی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو آمریت کے کندھوں
پر سوار ہو کر معرض وجود میں آئی ہیں اور آمریت کے سائے میں پروان چڑھی ہیں
سب سے پہلے اس وقت حکمران پارٹی کو ہی دیکھتے ہیں پیلز پارٹی کے بانی
ذوالفقار علی بھٹو شہید ،جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر تھے جنرل ایوب کی
اور بھٹو کی آپس میں بڑی گاڑھی چھنتی تھی اور جنرل ایوب ،بھٹو کو زلفی کہا
کرتے تھے بعد میں اختلافات کی بنا پر بھٹو جب جنرل ایوب سے علیحدہ ہوکر
عوامی ٹرین پر چڑھ کر عوام کے دلوں کی دھڑکن بن کر قائد عوام بن گئے اور
ایک جماعت تشکیل دی جسے پیپلزپارٹی کا نام دیا گیا یہاں میں ہاشمی صاحب کی
بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بھٹو واقعی عظیم لیڈر تھے اور ذہین بھی تھے
کیونکہ انہوں نے پاکستان میں او۔آئی۔سی کی کانفرنس بلا کر پوری امت مسلمہ
کو اکٹھا کر کے اقبالؒ کے اس خواب ’اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘کو
شرمندہ تعبیر کیا پاکستان کو آئین دینے کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کو کافر
قرار دینا ان کی بہت بڑی کامیابی تھی اس کے علاوہ بھٹو شہید نے پاکستان کو
ایٹمی قوت بنانے کے لئے بھی کافی تگ و دو کی انہی کامیابیوں کی بنا پر اسے
تخت سے تختہ پر پہنچا دیا گیا یہ تو پیپلز پارٹی کا پس منظر تھا اب اگر اس
وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی بات کریں تو یہ بھی جنرل
ضیاءالحق کے کندھوں پر سوار ہوکر آئے تھے اور بہت جلد ایک مقام بھی حاصل کر
لیا اور عوام کے دلوں میں بھی گھر کر لیا پاکستان مسلم لیگ نواز دو بار
برسر اقتدار میں آئی اور کئی ترقیاتی کام کروائے جن میں سے موٹر وے بنانا
ان کا عظیم کام تھا جو کہ آج بھی ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے اس کے
علاوہ انہوں نے ملکی تاریخ کا بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ پوری دنیا کہ
دباﺅ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستانیوں کے سر فخر سے
بلند کر دئیے یہاں پر میں آبروئے صحافت جناب مجید نظامی صاحب کا ذکر کرنا
ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے ایٹمی دھماکہ کرنے میں میاں نواز شریف کی حوصلہ
افزائی کی اور تاریخی جملہ کہا کہ اگر تم نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ
کا دھماکہ کر دے گی یوں میاں صاحب نے ایٹمی دھماکہ کر کے امریکہ کی بات نہ
مانی تھی جس کی وجہ سے ان کی حکومت کا تختہ بھی الٹا گیا اور اس کے بعد قوم
کو پرویز مشرف کے روپ میں ایک اور آمر مل گیا کچھ سیاستدانوں نے مشرف کو جی
آیاں نوں کہہ کر گلے لگایا اور مشرف نے بھی انہیں ’جادو کی جپھی ‘ڈالی جس
کے جادو سے پاکستان مسلم لیگ ق وجود میں آئی جس جماعت کے چودھری ،مشرف کو
بار بار فوجی وردی میں منتخب کروانے کے نعرے لگاتے رہے۔پاکستان مسلم لیگ ق
نے کھایا بھی سہی اور ترقیاتی کام بھی کروائے ،یہ تو پاکستان کی تین سیاسی
جماعتوں کا پس منظر تھا کہ کس طرح معرض وجود میں آئی تھیں باقی سیاسی
جماعتوں کا ذکر پھر کسی کالم میں تفصیل سے کروں گا یہاں ہم مخدوم جاوید
ہاشمی کی بات کرتے ہیں جو کہ پارٹی سے ہٹ کر بیانات دے رہے ہیں بلکہ ایسی
باتیں کر رہے ہیں جو کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں کیا ہاشمی صاحب نے ’ہاں
میں باغی ہوں ‘لکھنے کے بعد پارٹی میں بھی حق اور سچ کی اپنی دیرینہ روایت
کو قائم رکھتے ہوئے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا ہے؟یا پھر یہ وہ لاوہ ہے جو
انہیں یکسر نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ان کے اندر پکتا رہا اور اب پھٹ
رہا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ |