بد دعا

کہاں ہیں وہ سیاسی پنڈت،عا لمی مخبر،بین البراعظمی تجزیہ نگاراورمقا می دانشورجووحشت ناک موسموں کی داستانیں بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے اور روزانہ اپنے خوفناک پروپیگنڈے سے لبریززبان سے شعلے اگلتے رہتے تھے۔صرف چندسال قبل دنیاکے کسی بڑے اخباریارسالے کواٹھالیں،کسی عالمی حالات حاضرہ کے ماہرکامضمون پڑھ لیں یاپھرکسی ملکی تجزیہ نگارکی گفتگوملاحظہ کریں،یہ سب ایک آنے وا لے خوف اورگھروں پردستک دینے والی آفت کی نشاندہی کرتے نہیں تھکتے تھے۔نیٹوافواج کاپاکستان میں گھسنے کاپروگرام،مشرقی سرحدپرہندوستان کی گولہ باری،بلوچستان میں دونوں اطراف سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مداخلت،کراچی کوجناح پورکانام دیکرنیاہانگ کانگ بنانے کاخواب،فاٹااورملحقہ علاقوں کوعملاًنوگوایریااورسوات اورمالاکنڈپرقبضے کے بعداسلام آبادپریلغارکاخواب اورباقی ملک کےکئی حصوں میں دہشتگردی اورخودکش حملوں کاعذاب،این آراوکے نام پرنام نہاد سیاسی سیٹ اپ اورپھرملکی دولت کی بے دریغ لوٹ کھسوٹ نے مملکت خدادادکی چولیں تک ہلاکررکھ دیں تھیں۔وہ جوکل تک اس مملکت خدادادپا کستان کےمطلق العنان حکمرانوں کو امریکاکاساتھ دینے پرشاباش دیاکرتے تھے ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں کوسراہاکرتے تھے ، آج ان کی زبانیں نہ صرف گنگ ہوگئیں بلکہ افغان امن معاہدہ میں ہمارے کردارکے محتاج بن گئے اورضربِ عضب کے بعدردّالفسادنے توکایاہی پلٹ دی ہے”۔

یہ سیاسی پشین گوئیاں کوئی آج شروع نہیں ہوئیں۔مغرب کودیکھا جائے تومدتوں بڑے بڑے انسٹیوٹ اورتھنک ٹینک حکومتی پیسوں اورخصوصی مالی امدادسے میرے ملک کے مستقبل کے بارےمیں اپنی ترجیحات بناتے رہے،منصوبہ بندیاں کرتے رہے اورموٹی موٹی رپورٹیں مرتب کر تے رہے۔ کوئی2020ء، کوئی2015ءاورکوئی2010ءتک اس نازک اندام مملکت کامستقبل دیکھتارہاتو کسی نے خوبصورت نقشوں میں رنگ بھرکراس ملک کاجغرافیہ مرتب کیا۔اسے نقشے پراپنی مرضی سے ایسے تقسیم کیاجیسے سا لگرہ کاکیک کاٹاجاتاہے۔ اپنے منصوبہ کواپنی خواہشوں اوراپنے خوابوں کوعمل کی صورت دینے کاوقت آیاتوجوان منصوبوں اورسکرپٹ میں مرکزی کردارتھے انہوں نے ریہرسل کے طورپراپنی اپنی لائنیں دہراناشروع کر دیں۔ کسی نے جغرا فیہ تبدیل ہونے کی دہمکی دی،تو کسی نے اس دہمکی پراپنی جوابی تقریرمیں کھل کرداددی لیکن وہ جنہیں آنے والے دنوں کی سنگینی کااندازہ تھاان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ان کی راتیں اضطراب اوردن بے چینی سے گزررہے تھے، جوتنہائیوں میں اپنے رب کے حضورسربسجوداپنے شہداءکے خون کاواسطہ دیکر ملک کی سلامتی کیلئے گڑگڑا رہے تھے،وہ اب بھی اپنے رب سے مناجات میں مصروف ہیں!

لیکن وہ کہ جن کے بارے میں میرے رسول مخبرصادقﷺنے کہاتھاکہ’’مومن کی فراست سے ڈرو،اس لئے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہاہوتا ہے ‘‘ا نہوں نے سالوں پہلے اس سا نحے سے آگاہ کردیاتھالیکن انہیں ایک بات کایقین تھاکہ سب کچھ ہماری بہتری کیلئے ہونے والاہےلیکن زندگی سے محبت اورموت کاخوف رکھنے وا لے مجھ پرٹوٹ پڑے جب میں نے اس مردِ درویش کی بات کھول دی لیکن کیاکوئی سیدالانبیاﷺکی اس حد یث کوجھٹلا سکتاہے۔آپﷺنے فرمایا’’ایساہوگا کہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کیلئے اکٹھی ہوجائیں گی اورایک دوسرے کوایسے بلائیں گی جیسا بھوکے ایک دوسرے کوکھانے پربلا تے ہیں” ۔ ایک شخص نے عرض کیاکہ یہ اس لئے ہوگا کہ ہم تعدادمیں کم ہوں گے اوردشمن زیادہ؟ فرمایا’’نہیں،مسلمان تواس وقت بہت ہوں گے مگرایسے ہوجا ئیں گے جیسے دریاکے بہا ؤپرپڑاہواکوڑاکرکٹ،دریاجدھربہتاہے ادھرہی بہہ جا ئے،تمہا رے دشمنوں کے دلوں سے تمہا ری ہیبت نکل جائے گی اورتم”وہن”کاشکارہوجاؤگے”۔کسی نے پوچھا کہ”وہن”کیاہوتاہے؟ آپﷺنے فرمایاکہ ”دنیاکاعشق اورراہ حق میں موت کوناخوش جاننااوراس سے بھا گنا”۔

میرے رسول مخبرصادقﷺکی صداقت پرایمان کی حدتک یقین کرنے والےجا نتے ہیں کہ ہم اس بیماری کاشکارہیں۔وہ خوف جس سے ہم نائن الیون کے موقع پراپنی غیرت،حمیت،وقاراورعزت وناموس بیچ کرنکلے تھے کہ ہمارا تورا بورانہ بن جائے،ہم نے ان کی خوشنودی کیلئے کتنے بے گناہوں کاخون بہایا،ہمیں شایدیادتک نہ ہو؟لیکن وہ تواس وقت بھی بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پرچڑھ دوڑنے کاارادہ رکھتے تھے،اپنے مضمونوں میں،اپنی رپورٹوں اورتبصروں میں ہمارامقدمہ کھول کھول کربیان کرتے پھرتے تھے کہ اسی سرزمیں سے75ہزارپروازیں ہوئیں اورافغانستان کے بے گناہ اورمظلوموں کے جسموں کے پرخچے اڑادیئے گئے۔چھ سوسے زیادہ”خطرناک افراد پکڑکردشمنوں کے حوالے کئے گئے لیکن اس ساری مہلت میں جومیرے ملک پر گزری اس کی داستان کوئی بیان نہیں کرتا؟

واناوزیرستان سے لیکرسوات تک اورکراچی سے لیکربلوچستان تک گرتی تڑپتی لاشوں کاکوئی تذکرہ نہیں کرتا؟لاکھوں بے گناہ بے گھرقبائلیوں کاکوئی ذکرکسی انسانی حقوق کی رپورٹ میں موجودنہیں۔وہ جواپنی جان سے گئے،بے گھرہوئے، دربدر ہوئے،وہ جن کے گھربموں کی زدمیں رہے،جن کے پیارے لاپتہ ہوگئے،وہ ڈومہ ڈولہ کے مدرسہ میں قرآن پڑھنے والے معصوم اور بیشتریتیم بچے جن کاتورابورابنادیاگیا،ان کیلئے کسی مغربی انسا نی حقوق کی تنظیموں کے ماتھے پرشکن تک نہیں آئی،ان کیلئے امریکی افواج بھی آجاتیں تواس سے زیادہ کیابراکرتیں لیکن اب توان ظالموں کی مہلت ختم ہواچا ہتی ہے جوان چند برسوں سے اس بات پرخوش تھے کہ ہماری دانشمندی نے ہما رے مال اسباب،شان وشوکت اورعیش وعشرت کوبچالیالیکن ضربِ عضب کے بعداب مو ت کاخوف اورزندگی سے محبت انہیں چین سے جینے نہیں دے رہی لیکن صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ انہیں علم ہے کہ اس قوم کے دل سے مو ت کاخوف نکالنااورراہ حق میں جان دینے کی محبت ہی ان کاعلاج ہے۔

آج سے چند سال پہلے کوئی کہتا کہ ہم کمزورہیں،امریکاطاقتورہے تومیں یقین کرلیتالیکن میرے اللہ پریقین اورموت سے محبت کی ایک داستان اس وقت رقم ہوئی جس نے سیاسی اورجنگی پنڈتوں کے تمام اندازے ملیا میٹ کردیئےجب قصر سفید کے فرعون نے اپنے تمام ظالمانہ ہتھیاراستعمال کرنے کے بعد افغانستان سے بوریابسترلپیٹنے کاعندیہ دیا۔ نیٹوکی مکمل حمائت وطاقت اورمددکے باوجودذلت آمیز شکست مقدربن گئی۔رسوائیاں سمیٹنے کے سواکچھ ہاتھ نہ آیااوراب دوہامعاہدہ کامقصد بھی یہی تھا کہ کس طرح اس کمبل سے جان چھڑائی جائے۔
کیسے مان لیاجائے کہ خودقصرسفیدکافرعون کشمیرمیں ثالثی کی بات کرے اوراس کے بعدسفاک ہندوغیرقانونی طورپرکشمیر کی حیثیت بدل کرلاک ڈاؤن کااعلان کردے جوآٹھ مہینے سے جاری ہے۔بالآخردہلی کاایک سینئرصحافی اروندمشراچیخ اٹھا کہ یہ ساری دنیاکالاک ڈاؤن تونفیسہ نامی کشمیری بچی کی وہ بددعاہے جس اس نے تمام صحافیوں کے سامنے دہرائی تھی۔ میرے کانوں میں نفیسہ کے وہ شبد(الفاظ)آج بھی گونج رہے ہیں:
“اے اللہ جوہم پرگزررہی ہے کسی پرنہ گزرے بس مولاتوکچھ ایسااور اتناکردیناکہ پوری دنیا کچھ دنوں کے لیےاپنے گھروں میں قید ہونے پرمجبورہو جائے ،سب کچھ بندہوجائے،رک جائے!شایددنیاکویہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں! اروندبھائی آپ دیکھنا میری دعابہت جلد قبول ہوگی”۔

دراصل صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ اس قوم سے موت کاخوف اترنے کے دن آرہے ہیں اورجنہیں زندگی سے محبت ہے ان کا انجام بھی قریب۔جب ایساوقت اورایسی کیفیت کسی قوم پراترتی ہے تووہ بڑی سے بڑی عالمی طاغوتی طاقتوں کاقبرستان بن جاتی ہے۔میرے رسول اکرم محمدﷺکواسی لئے تو اس خطے سے ٹھنڈی ہواآیاکرتی تھی۔ سجنو!میرے اللہ کی طاقتوں کا کوئی شریک نہیں۔ایک یقین کی توبات ہے جوبھی بڑھ کراس یقین کی لاٹھی کوپکڑ لے اسی کیلئے عصائے کلیمی ہے۔
خلقِ خداہے اورتقاضائے مصلحت
سب جانتے ہیں اورکسی کوخبرنہیں
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.