انہیں بھوک سے بچائیں

کرونا نے حکومت کو عجیب حالات سے دو چار کر دیا ہے۔ کرونا کو پوری طرح روکنا ہے تو بہت سخت لاک ڈاؤن کرنا ہے جس کا نتیجہ بے روزگاری، بھوک اور افلاس ہے اور اگر لاک ڈاؤن میں نرمی کرنا ہے تو بیماری اور موت کا سامنا کرنا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا ، ایک طرف اونچا پہاڑ ہے اور دوسری طرف گہری کھائی۔ صورت حال کو بہت زیادہ بگڑنے سے بچانے کے لئے کہیں کچھ توازن رکھنا ہو گا کہ بیماری کی شدت کو بھی روکا جائے اور لوگوں کو بھوک افلاس اور بے روزگاری سے بھی بچایا جا سکے۔ اس وقت بھوک ،افلاس اور بے روزگاری کی یلغار کرونا سے بھی شدید ہے۔ اگر روزگار کی کوئی صورت نہ نکلی تو امن و امان کی صورت حال بگڑ سکتی ہے۔اس لئے کہ بقول ساحر،’’بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی‘‘۔حکومت کو کچھ سخت شرائط کے ساتھ جلد یا بدیر لوگوں کو بھوک اور ملک کو بد نظمی سے بچانے کے لئے کاروباری طبقے کو کاروبار کا پہیہ چلانے کی اجازت دینی ہو گی۔حکومت نے اس وقت تک جو فیصلہ کیا ہے اس کے مطابق ایکسپورٹ سے متعلقہ بڑی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو چلانے کے لئے 14 اپریل کو بڑے بڑے صنعت کاروں کو اجازت دی جا رہی ہے۔یہ ساری انڈسٹری ملک کے تقریباً ایک دو فیصد سے بھی کم مزدوروں کے روزگار کی حامل ہے۔ ٹیکسٹائل مزدوروں کی بڑی تعداد چھوٹی اور لوکل انڈسٹری سے وابستہ ہے جس کی بحالی کا کوشش کے باوجود جلدکوئی امکان نہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کا نہری نظام دنیا میں سب سے بڑا ہے۔انتہائی زرخیر علاقہ جو گندم، چاول، گنے، کپاس، سبزیوں اور دنیا کے میٹھے تریں پھلوں کے لئے مشہور ہے ۔یہاں سال میں دو فصلیں ہوتی ہیں۔مئی سے نومبر تک خریف کی فصلیں جن میں کپاس، چاول اور گنا اہم ہیں اور نومبر سے مئی تک ربی کی فصلیں جن میں اہم تریں فصل گندم ہے اس لئے کہ گندم اس ملک کے باشندوں کی روزانہ مجموعی خوراک کا 60 فیصد حصہ ہے۔اس ملک کا ہر باشندہ سالانہ اوسطاً 125 کلو گندم استعمال کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی معاشیات اور دیگر پالیسیوں میں گندم سب سے اہم جانی جاتی ہے۔ملک کی 75 فیصد آبادی کسی نہ کسی انداز میں اس فصل سے وابستہ ہے۔ایکسپورٹ کی آمدن میں گندم اور اس کی بنی اشیا کا ایک بڑا حصہ ہے۔ہماری GDP کا 25 فیصد سے زاید حصہ گندم سے جڑا ہے۔ گندم پاکستان کے کل زیر کاشت رقبے کے40 فیصد حصے یعنی نو ملین ہیکٹر زمین پر کاشت کی جاتی ہے۔ اس کی اوسط پیداوار 4.49 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے اور 2020 میں ہماری کل پیداوار کا تخمینہ 252 ملین میٹرک ٹن ہے۔

گندم کی بوائی اکتوبر سے دسمبر تک کی جاتی ہے۔ اسے کونپل سے مکمل پودا بننے کے لئے تقریباً چھ سات ماہ لگتے ہیں اور پھر کٹائی کا عمل شروع ہوتا ہے۔یہ عمل موسم کے مزاج کے مطابق مارچ کے آخری ہفتے سے شروع ہو کر مئی تک 110 سے 130 دن جاری رہتا ہے۔پاکستان کے مجموعی مزدوروں کا پچاس فیصد حصہ ان مزدوروں کا ہے جو زرعی مزدور کہلاتے اورسارا سال کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔بقیہ آدھے مزدور پورے ملک کی ہزاروں صنعتوں سے جڑے ہیں۔مارچ کے آخری ہفتے سے مئی تک رہنے والے دنوں میں صورت خال بہت مختلف ہو جاتی ہے۔ گندم جنوبی پنجاب اور سندھ کے ایک بڑے حصے میں بوئی جاتی ہے۔ ان علاقوں کے مکین ملک کے کسی حصے میں بھی مزدوری کر رہے ہوں، اپنے کام چھوڑ کر بھی گندم کی کٹائی کے لئے اپنے اپنے گاؤں میں موجود ہوتے ہیں۔جو لوگ گندم کاٹتے ہیں انہیں کٹائی میں سے ایک معقول حصہ بطور مزدوری ملتا ہے۔وہ اتنی گندم اکھٹی کر لیتے ہیں جو ان کی سال بھر کی خوراک کے لئے بہت کافی ہوتی ہے۔ یہی جائزخواہش انہیں ان کے گاؤں کھینچ لاتی ہے۔ گندم کٹائی کے موسم میں زرعی مزدور جو عام دنوں میں کل مزدوروں کا پچاس فیصد ہوتے ہیں بڑھ کر اسی (80) فیصد تک ہو جاتے ہیں۔ گھر میں سال بھر کی گندم موجود ہو تو انہیں بھوک سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ وہ کہیں بھی کام کر رہے ہو انہیں یقین ہوتا ہے کہ گھر میں گندم کی موجودگی میں ان کے بچے بھوک سے بدحال نہیں ہونگے۔

آج مشینوں کی حکومت ہے اور بقول شاعر ’’ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت‘‘۔ وہ کھیت بہاں دور دور تک مزدور کام کرتے اور کام کے دوران گیت گاتے ، پکی فصل کا جشن مناتے اور لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر خوشیوں سے مالامال ہوتے نظر آتے تھے ،مشینوں کی زد میں ہیں ۔گندم کٹائی کے ہزاروں مزدوروں کی جگہ ایک ہارویسٹر نے لے لی ہے۔ کھیتوں میں خوشیاں اور رونقین نہیں، وہاں دل اور دل والے نہیں۔ فقط مشینوں کی گڑگڑاہٹ ہے، ویرانی ہے۔ اب گاؤں بھی بے روزگاری کی زد میں ہیں۔ شہروں میں روزگار نہیں ، لاک ڈاؤن ہے ۔ زمیندار اس زعم میں ہے کہ دو دن ہی میں کھڑی فصلوں کے خوشوں کو لمحوں میں دانوں میں بدل لے گا اس لئے کہ تیز رفتار مشین اس کے پاس ہے۔وہ یہ نہیں دیکھ رہا کہ بد تریں بے روزگاری ، بھوک اور افلاس بھی اس کے دائیں بائیں ہے۔ اس سے پہلے کہ بد حال لوگ لوٹ مار اور افراتفری پر اتر آئیں۔ اور ہر خوشی اپنا رنگ بدل لے ،آج خوش ہونے والا کسان خود اور اپنی فصل دونوں کو بچا لے تو زیادہ بہتر ہے۔ حکومت سے میری گذارش ہے کہ کسانوں کو امسال ہارویسٹر کے استعمال سے روک دے۔ لوگ فصلیں کاٹیں، ان کو سال بھر کا راشن ملے تاکہ وہ کسی حد تک مطمن ہو کر امن و امان کا مسئلہ نہ بنیں۔خدارا لوگوں کو بھوک سے بچائیں ورنہ اس بھوک سے کچھ نہیں بچے گا۔قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور میرے دوست ،جن کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے، جو درد دل رکھتے ہیں اور حالات کا احساس کرتے ہیں اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500495 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More