ملک بھر میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو رہا ہے
جس کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں دکانیں اور دفاتر
بند ہیں یعنی کاروبار بند ہیں جو دیہاڑی دار مزدور فیکٹریوں اور کارخانوں
میں کام کرتے تھے وہ فیکٹریاں اور کارخانے بند ہونے کی وجہ سے کام پر نہیں
جاسکتے اکثر کو ملوں اور فیکٹریوں سے نکال دیا گیا ہے اور ان کے گھروں میں
فاقوں کی نو بت آگئی ہے حکومت کی جانب سے بار بار کہا جارہا ہے کہ نجی
اداروں سے ملازمین کو نکالا نہیں جائے گا اور ان کی تنخواہیں بھی مالکان
ادا کریں گے حکومت کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ملوں اور فیکٹریوں میں کام
کرنے والی لیبر جن میں خواتین کی بھی بہت بڑی تعداد شامل ہے انہیں فیکٹریوں
میں مستقل طور پر ملازمت پر نہیں رکھا جاتا ہے بلکہ ٹھیکیداری سسٹم کے تحت
انہیں کام پر رکھا جاتا ہے تاکہ جتنے دن وہ کام پر آئیں گے اتنے ہی دن کے
پیسے انہیں ملیں گے ان کے پاس ان ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے کی کوئی
شناخت نہیں ہوتی کہ وہ کہاں کام کرتے ہیں ان کی روزانہ حاضری ہوتی ہے بعض
مزدور کی اجرت روز کے روز دی جاتی ہے اور بعض کو ہفتے کے ہفتے جبکہ یہ کسی
بھی مراعات جیسے میڈیکل ، الاؤنس، ہاؤ س رینٹ یا کوئی اور الاؤنس کے حقدار
نہیں ہوتے ہر روز ٹی وی چینلز یہ تو بتارہے ہیں کہ اب کتنے افراد کورونا
وائرس کا شکار ہوگئے ہیں یا کتنے افراد ہلاک ہوچکے ہیں مگر وہ یہ نہیں
بتارہے ہیں کہ اب تک کتنے افراد فاقہ کشی سے مر گئے ہیں یا مر رہے ہیں اور
انہیں ابھی تک حکومت کی جانب سے سوائے تسلی اورتشفی کے کچھ نہیں ملا اور
اگر لاک ڈاؤن میں محصور کسی غریب یا مستحق شخص یا گھرانے کو راشن ملا ہے تو
وہ کن علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے راشن کی تقسیم کا کام اب تک صرف مختلف
سماجی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے ہی ہواہے حکومت تو ابھی تک امداد
فراہم کرنے کے لئے SMS کی تعداد بتارہی ہے کہ اب تک کتنے کروڑ افراد نے
امداد کے لئے اسے میسجز کئے ہیں مگر انہیں کب امداد ملے گی یہ کچھ پتہ نہیں
لوگ راشن کے حصول میں گھروں سے باہر نکل پڑے ہیں جبکہ کئی جگہ ان کی پولیس
اہلکاروں سے تکرار بھی ہو ئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں واپس جائیں مگر جب ان
کے گھر بھوک ہو تو وہ خالی ہاتھ گھروں کو کیسے لوٹ جائیں؟ لاک ڈاؤن کی وجہ
سے لوگ مجبور ہو چکے ہیں ایک جانب ان کے گھر وں پر کھانے کو کچھ نہیں تو
دوسر ی جانب حکومت راشن دینے کے بجائے صرف وعدے کر رہی ہے کہ عوام کو یہ
ملے گا وہ ملے گا اتنا ملے گا اتنا ملے گا مگر کب ملے گا یہ نہیں معلوم کیا
جب مرجائے گی مخلوق تو امداد کرو گے عوام سے اب صبر نہیں ہورہا ہے کہیں
ایسا نہ ہو کہ لوگ بھوک سے مرنے کے بجائے کورونا وائرس سے مرنے کو ترجیحی
دیں چونکہ کراچی کی تین کروڑ کی آبادی میں لاتعداد کچی آبادیوں میں رہنے
والوں میں بڑی تعدداد ایسے افراد کی ہے جو دوسرے صوبوں سے یہاں آکر محنت
مزدوری کرتے ہیں اور مزدوری کرکے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ان کی
کبھی دیہاڑی لگ جاتی ہے اور کبھی کئی کئی دن دیہاڑی نہیں لگتی ایسے مزدور
سخت پریشان ہیں ان کے بے روزگار ہونے کی وجہ سے ان کے گھروں کے چولحے بھی
ٹھنڈے پڑے ہیں تو دوسری طرف حکومت انہیں زندہ رہنے کے لئے راشن بھی نہیں دے
رہی آخر یہ جائیں تو کہاں جائیں انہیں اگر کہیں سے خبر ملتی ہے کہ فلاں جگہ
فلاں سماجی تنظیم راشن تقسیم کرے گی تو وہ لاک ڈاؤن توڑ کر بغیر کسی حفاظتی
اقدامات کے وہاں جمع ہو جاتے ہیں مگر اب حکومت سندھ نے ان سماجی تنظیموں
اور اداروں پر بھی پابندی عائد کردی ہے کہ وہ کمشنر کراچی کی اجازت کے بغیر
راشن تقسیم نہیں کر یں گے بلکہ ان کے پاس جو 36 سماجی تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں
ان میں وہ خود کو بھی رجسٹرڈ کرائیں اور جو راشن وہ عوام میں تقسیم کرنا
چاہتی ہیں وہ بھی حکومت کے زیر اہتمام عوام میں تقسیم کرا ئیں نہ معلوم یہ
عمل کب مکمل ہوگا اور عوام کو کب راشن مل سکے گا
|